• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پرانے زمانے میں کہا جاتا تھا ’’جاٹ رے جاٹ، تیرے سر پر کھاٹ، جواباً دوسرا بندہ بولا ’’تیلی رے تیلی، تیرے سر پر کولھو‘‘ جواب آیا یہ تو مصرع نہیں بنا۔ بولا مصرع نہ سہی چلو کولھو کے بوجھ تلے مر تو جائے گا۔ بس یہی ہوا ہے ظفر اقبال کے ایک بے و قوف مگر معصوم دوست کی جانب سے فیس بک پر۔ ہر چند وہ چالیس سے اوپر کتابیں لکھنے کا دعویدار ہے اور یہ بھی کہ ظفر اقبال کا تعریف کندہ بھی ہے، یہ نہیں جانتا کہ میری اور ظفر اقبال کی دوستی پچاس برس سے ہے اور اس میں کسی قسم کا تفرقہ اس لئےڈلواسکتا کہ وہ شخص کہےکہ شاعر، ظفر کی طرح ایک مصرعہ بھی نہیں لکھ سکتا۔
ظفر اقبال نے غزل لکھنے میں جو روانی اور مہارت حاصل کی ہے۔ اس کو پڑھ کر کئی دفعہ میں کہہ اٹھتی ہوں بھئی وہ دس حمدیہ غزلیں جو مبین مرزا نے شائع کی ہیں، وہ اچھی ہیں۔ وہ فوراً میری تصیح کرتا ہے۔ او یار، وہ دس نہیں پندرہ حمدیہ ہیں۔ ابھی میرے سامنے ظفر اقبال کی غزلیات کی پانچویں جلد رکھی ہے۔ کلیات میں چھ مجموعے ہیں۔ تادیب، تنصیب، توسیع، تعریف، ترمیم اور تجویز۔ اس طرح ہر کتاب کے آغاز میں کسی ایک نہ ایک مگر معروف نقاد اور ادیب کا دیباچہ ہے، بلکہ کبھی کبھی تو ایک کی جگہ دو مضامین شامل ہیں جیسے الیاس بابر کے ساتھ سرور جاوید کا مضمون بھی شامل ہے اور تیسرا رشتہ اس میں یہ ہے کہ کتاب میں یہ مجموعہ تحسین فراقی کے نام ہے۔ اس طرح میرے بھولے بسرے دوست گوہر نو شاہی کے ساتھ ڈاکٹر ابرار کا تازہ تازہ لکھا مضمون بھی شامل ہے۔ اب میں رک گئی کہ میرے سامنے ابرار نے بہت پرانی ظفر اقبال کے بارے میں شمس الرحمان فاروقی کی تحریر لاکررکھ دی ’’دیوان غالب کی اشاعت (1841) کے بعد، اگر اردو غزل کی تاریخ میں دوسرا قدم گل آفتاب ‘‘ (1966) کی اشاعت تھی، بیچ میں کچھ نہ تھا۔ یہیں مجھے فاروقی صاحب کے کئی بے محابہ فقرے یاد آگئے، جیسا کہ انہوں نے احمد مشتاق کے بارے میں کہا تھا۔ بعد ازاں جو شاعر یا ادیب ان کو اپنا مسودہ بھیج دیتا وہ اس کی تحریرکی صفات لکھ کر بھیج دیتے تھے۔
ظفر اقبال کے یہاں اپنی پہلی کتاب سے لے کر ہزاروں غزلوں پر مشتمل شعری مجموعات کی ہر جلد میں کم از کم چار ہزار صفحات ہیں۔ ایک ہزار صفحات تنقید یا دیباچے کی شکل میں جو کچھ لکھا گیا۔ مطلب یہ کہ کم از کم تین ہزار غزلیں اس مجموعے میں موجود ہیں۔ جس کا نام ہے ’’اب تک ‘‘ شمیم حنفی نے ظفر کا ایک مصرعہ لے کر مضمون لکھا ہےکہ ’’عجب نہیں کہ تیرا چاند ہو ستارہ مجھے۔‘‘ ویسے اس مجموعے میں مستنصر حسین تارڑ اور اصغر ندیم سید نے بھی منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے مستنصر نے ظفر کے شعری تجربات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ’’ظفر اقبال نے زبان کو متحرک رکھنے کیلئے، جان بوجھ کر زیادتیاں بھی کی ہیں۔ وہ زیادتیاں کہیں کہیں گراں گزرتی ہیں اور کہیں مجھے کمال ذائقہ دیتی ہیں۔ وہ جو کالم کے آخر میں ایک شعر لکھتا ہے، مجھے کبھی کبھی اس کی فوری داد دینے پر اکساتا ہے۔ میری داد کو سن کر وہ کہتا ہے۔ ’’یار یہ تو چالیس برس پہلے کا ہے۔‘‘ مثلاً جب میں نےظفر اقبال کا یہ شعر پڑھا
بس ایک بار ہی اس نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایہ تھا
تو خود اس نے مجھے یاد کرایا۔یار تجھے تووہ چاروں  طرف والی غزل بھی اچھی لگی تھی، یاد آیا مصرعہ اور پھر ایک طرف اس نے کئے چاروں طرف۔ ظفر اقبال کی جو بات مجھے اچھی لگی کہ اس نے ہمارے بہت بعد آنے والی نسل کی تحریریں بھی شامل کی ہیں۔ مثلاً علی اکبر ناطق،حمیدہ شاہین، ضیا الحسن مگر حسین مجروح کا نام پڑھ کر میں خود سے اور ظفر سے پوچھتی ہوں کیا تعریف کیلئے ہر شخص کی تحریر ہماری ضرورت ہوتی ہے مجھے ٹوک کر کہتا ہے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اگر اچھے شاعر ہوں تو تم بھی کرتی ہو اور میں نے عابد سیال اور آفتاب حسین کی تحریریں بھی تو شامل کی ہیں۔ عابد سیال نے بہت اچھا فقرہ لکھا ہے کہ تجربے کیلئے کچھ سوچنا بھی پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں عابد نے ظفر کی نظموں کے حوالے سے تجزیہ بھی کیا ہے۔
میری اور ظفر کی لڑائی بھی، بہت سے نامعقول مصرعوں پر ہوتی ہے جو وہ مجھے خبر ہے جان بوجھ کر کرتا ہے، جس غزل میں اس نے کنجر یا بھینس، چھچھوندر اور بندر جیسے قافیے استعمال کئے ہیں۔ (یہ بھی 1966کی بات ہے) میں ظفر سے چلا کر بات کرتی اور یوسف کامران چونکہ افتخار جالب کا بہت دوست تھا۔ وہ ان اشعار کی تعریف کرتا۔ ہماری سب کی دوستی میں جس میں انیس ناگی، سعادت سعید، جیلانی کامران، زاہد ڈار شامل تھے کہ میں کہتی اچھا ہی نہیں بہت اچھا ہے کہ وہ مسلسل لکھ رہا ہے، ابھی مگر کا لفظ منہ ہی میں ہوتا تو انیس ناگی بول پڑتا تو کبھی افتخار جالب۔ہماری یہ چوکڑی ہی ختم ہوگئی کہ انیس، افتخار جالب اور یوسف کے علاوہ جیلانی کامران بھی چلے گئے۔ زاہد ڈار ہے سب سے بیزار سب سے الگ اور ظفر اقبال خوش ہے کہ اس نے بہت سے نئے دوست بنالئےہیں۔ میں اور وہ کبھی کبھی ایک دوسرے کے مصرعے پر غزل لکھنے کا ارادہ کرتے ہیں مگر جب تک میں ایک غزل لکھتی ہوں۔ ظفر کم از کم بیس غزلیں لکھ چکا ہوتا ہے کئی جگہ آج بھی ظفر مجھے رلا دیتا ہے۔
قافلہ کتنی مدتوں سے ظفر چل رہا ہے، مگر رکا ہوا ہے

.
تازہ ترین