• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سنتے تھے کہ دنیا گلوبل ویلج بن رہی ہے جس کا وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ وقت ہمارے سامنے آگیا کہ پوری دنیا انسانی ہاتھ میں سمٹ کررہ گئی۔ ٹیلیوثرن، ریڈیو ،اخبارات سے بڑھ کر ایک ایسا میڈیا وجود میں آگیا جس سے دنیا کے ہر کونے سے ایک جیسی رسائی حاصل ہو گئی۔ جی ہاں سوشل میڈیا فیس بک، وٹس ایپ، ٹیوٹر نے دنیا کو بالکل تبدیل کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا کا حالیہ انقلابی استعمال ترکی میں ہوا، جہاں فوج نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تو طیب ایردوان نے سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیو اپ لوڈ کی اور منٹوں میں یہ وائرل ہو گئی اور باغی فوج کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرحال جہاں پر سوشل میڈیا نے بے شمار آسانیاں فراہم کی وہاں بہت ساری منفی چیزیں بھی سامنے آئی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب لاوڈ اسپیکر آیا تو اس کے خلاف بھی فتوی دیئے گئے۔ لیکن قابل تحسین ہے سعودی عرب کی حکومت اور ادارہ جائزہ امیر نائف بن عبدالعزیز جس نے بر وقت اس کی اہمیت کا احساس کیااور بجائے اس کے کہ سوشل میڈیا کی مذمت کی جاتی اور اس کو غیراسلامی قرار دیا جاتا۔ اس ادارے نے مدینہ یونی ورسٹی مدینہ منورہ میں سوشل میڈیا اور اسلام کے قواعد و ضوابط کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔یہ ادارہ اس حوالے سے نہایت اہمیت کا حاصل ہے کہ بدلتے حالات کے مطابق جوتبدیلیاں آرہی ہیں،یہ ادارہ بر وقت اُن کا اداراک کرتے ہوئے پوری دنیا کے اہل علم کو اکٹھا کرتا ہے۔عالم اسلام کے بہترین دماغوں کے سامنے اس کو پیش کرتا ہے اور پھر اس کا نچوڑ دنیا کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے ۔قرآن اور حدیث کے ساتھ طلبا کے لگائو میں اضافے کے لئے نہایت خوبصورت مقابلے اور پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اور اس میں سعودی حکومت کے سنیئر ترین حکومتی عمال اور شیوخ شرکت کرتے ہیں۔اس دفعہ کانفرنس بھی بہت پہلے طے ہو گئی تھی۔ ماہ صفر میں مدینہ منورہ میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں ہمارے وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف صاحب اس کانفرنس میں پہنچ گئے۔ اس کانفرنس میں مصر، اردن، الجزائر، ملائشیا، سوڈان، مراکش، برازیل، پاکستان سمیت 30سے زائد ممالک کے وزرا محقیقین اور دانشور شریک تھے۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب نماز عشا کے بعد ہونا تھی ہمیں ایک کمرے میں جا کر بٹھایا گیااور تھوڑی دیر میں گورنر مدینہ فیصل بن سلمان ولی عہد کے بھائی پرنس نواف بن نایف حرم انتظامیہ کے سربراہ اور امام حرم شیخ عبدالرحمن السدیس، مشیر دیوان الملکی اور امام حرم شیخ صالح بن حمید،مشیر دیوان الملکی اور سابق سیکرٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی ڈاکٹر عبداللہ المحسن الترکی ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبداللہ السند سربراہ امر بالمعروف سیمت دیگر سنیئر حضرات آگئے۔ جب کہ مدینہ یونی ورسٹی کے نئے سربراہ ڈاکٹر حاتم بن حسن المرزوقی بھی تھے۔ یہاں پر سب حضرات کے ساتھ گھنٹہ بھر سے زائد نشست رہی ۔وزیر مذہبی امور نے شیخ عبدالرحمن السدیس کو عالمی سیرت کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جبکہ گورنر مدینہ پرنس فیصل بن سلمان بن عبدالعزیر نے پاکستان کے عوام اور حکومت کے لئے نہایت اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ امام حرم اور شاہ سلمان کے مشیر ڈاکٹر صالح بن حمید کے ساتھ سب سے زیادہ اور طویل بات ہوئی کیونکہ وہ ہمارے ساتھ تشریف فرماتھے۔ سردار محمد یوسف صاحب نے جب شیخ السدیس کو پاکستان کی دعوت دی تو اُنھوں نے کہا کہ شیخ صالح کو ساتھ لے جائیں۔شیخ صالح بن حمید نے پاکستان کے ذکر پر جس وار فتگی کا مظاہرہ کیا وہ قابل دید تھی۔ حافظ عبدالکریم چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی مذہبی امور کا بھی ذکر خیرہوا اور شیوخ کرام نے نہایت محبت کے ساتھ اُن کا تذکرہ کیا۔ اسی طرح شاہ سلمان کے مشیر اور رابطےکے سابق سیکرٹری جنرل عبداللہ عبدالمحسن الترکی نے بھی وزیر مذہبی امور کے ساتھ حال احوال پوچھا۔ عبداللہ الترکی گزشتہ سال اسی موسم میں پاکستان تشریف لائے تھے۔بہرحال کانفرنس کی افتتاحی تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں صرف تین تقاریر تھیں۔جائزہ کے سیکرٹری جنرل ساعد بن سعد العر ابی ،مدیر جامعہ اور شرکا میں سے یہ اعزاز پاکستان کے دفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف صاحب کو حاصل ہوا اور زیادہ اہم بات یہ تھی کہ سردار صاحب نے عربی زبان میں تقریر کی۔ بلاشبہ پاکستان کے کسی بھی وزیر کی طرف سے پہلا موقع تھا۔ وزیر مذہبی امور کی تقریر کا پوری کانفرنس میں چرچا رہا تقریب کے اختتام پر شیخ عبدالرحمن السدیس، گورنر مکہ پرنس فیصل ،اردن کے چیف جسٹس اور تقریباً سب نے سردار صاحب کو مبارک باد دی اور تحسین کا اظہار کیا۔ اگلے روز عرب کے تقریباً سو کے قریب ،اخبارات و جرائد نے سردار صاحب کا خطاب کو پیش کیا۔ میڈیا بھی نیکی کی نشر واشاعت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور برائی پھیلانے والے سوشل میڈیا نے بہت بڑا موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اُن لوگوں تک بھی رسائی حاصل کر سکیں جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نہیں جانتے ۔ نیکی کی نشرواشاعت بہت دور تک ہو سکتی ہے نوجوان بڑی تعداد میں سوشل میڈیا سے وابستہ ہیں۔ ان کی رہنمائی اور اُن تک صحیح معلومات اور استعمال کے طریقے پہنچانا ضروری ہے۔کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں سعودی عرب کی چوٹی کی شخصیات شریک تھیں۔ کانفرنس کی اختتامی تقریب میں بھی پاکستان کے وزیر مذہبی اموار سردار محمد یوسف مہمان خصوصی تھے۔ جبکہ ولی عہدکے مشیر ڈاکٹر ساعد بن سعد مدیر جامعہ ان کے ساتھ بیٹھے، کانفرنس کے دوران جائزہ کے مدیر ڈاکٹر مسفر بن عبداللہ سے بھی ملاقات ہوئی انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس طرح کے مقابلےپاکستان میں بھی منعقد کروائے جاسکتے ہیں۔ اسلام میں جدید ذرائع ابلاغ کسی طور پر بھی ممنوع نہیں ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کا استعمال صحیح ہواور اس کے لئے اس طرح کے اداروں اور جامعات کو مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔

.
تازہ ترین