• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر اشرف غنی نے جب انتیس ستمبر 2014 ء کو اپنے حریف،ڈاکٹر عبداﷲعبداللہ کو ایک متنازع الیکشن میں شکست دے کر منصب سنبھالا تو اُن کاجھکائو پاکستان کی طرف تھا لیکن آنے والے دنوں نے اُنہیں بتدریج پاکستان کے خلاف ہوتے دیکھا۔ وہ دن گئے جب صدر اشرف غنی، وزیر ِاعظم نواز شریف اور حالیہ دنوں ریٹائر ہونے والے آرمی چیف، جنرل راحیل شریف ’’افغانستان کے دشمنوں کو پاکستان کے دشمن ‘‘ قرار دیا کرتے تھے ۔ اب تو طرفین ایک دوسرے پر الزامات کی سنگ باری کررہے ہیں۔ افغان حکومت نے بطور خاص ریاستی سطح پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا شروع کررکھا ہے ۔ اعلیٰ سطحی ریاستی وفود کا تبادلہ منقطع ، جبکہ عالمی کانفرنسوں کے مواقع پر سائیڈلائنز پر صدر غنی اور وزیر ِاعظم نواز شریف یا اُن کی وزارت ِخارجہ کے افسران بادل ِ ناخواستہ ایک دوسرے کی بات سن کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیںکہ پاک افغان تعلقات کا جمود کس طرح توڑا جاسکتا ہے ۔
دونوں ممالک کے ناہموار تعلقات میں کسی بہتری کے امکانات اُس وقت زمین بوس ہوتے دکھائی دئیے جب انڈیاکے شہر، امرتسر میں ہونے والی چھٹی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر صدر غنی نے پاکستان کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا کہ اس نے اپنے علاقے میں افغان طالبان کو پناہ دی ہوئی ہے جو افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرتے ہیں۔ اُنھوں نے حتیٰ کہ وزیر ِاعظم کے مشیر برائے امور خارجہ ، سرتاج عزیز کی طرف سے جنگ زدہ افغانستان کی تعمیرو ترقی کے لئے 500 ملین ڈالر عطیے کے اعلان کی یہ کہہ کر تضحیک کی کہ پاکستان یہ رقم اپنے پاس ہی رکھے اور داخلی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کرے ۔ پاکستان میں توہین آمیز رویے کی بھرپور مذمت کی گئی ۔ حتیٰ کہ اُن پاکستانیوں کو تائو آگیا جو اپنی حکومت کے ناقد رہے ہیں کہ وہ افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لئے کچھ نہیں کررہی ۔
افغان صدر نے ایک سابق طالبان سفارت کار، رحمت اﷲ کاکا زاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہیں بند کردی جائیں تو افغانستان میں طالبان کی شورش ایک ماہ میں دم توڑ جائے گی۔تاہم صدر غنی اس بات کا ذکر کرنا بھول گئے کہ جب سے یہ بیان کاکا زاد سے منسوب کیا گیا ہے ، وہ مسلسل اس کی تردید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اُن سے انٹرویو کرنے والے صحافیوں نے اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے اُن کا مسخ شدہ بیان پھیلا یا ہے ۔ یہ موقف اپناتے ہوئے وہ الزام درالزام کی مقابلے بازی میں نہیں الجھنا چاہتے ، اشرف غنی نے بالکل اس کے برعکس کیا اور افغانستان کے مسائل پر تواتر سے پاکستان کو مورد ِ الزام ٹھہرایا۔ مسٹر غنی کی یہ بات البتہ درست تھی کہ افغان طالبان کے کچھ لیڈر پاکستان میں موجودگی رکھتے ہیں، لیکن وہ پاکستانی طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی افغانستان میں موجودگی اورافغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں کارروائیاں کرنے کا ذکر کرنے میں ناکام رہے ۔
درحقیقت پاکستان میں ہونے والی پانچویں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں صدر غنی نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ پاکستان طالبان کا لیڈر ، ملاّ فضل اﷲ افغانستان میں ہے ، اور یہ کہ اُن کی فورسز نے افغانستان میں موجودگی رکھنے والے پاکستانی طالبان کے خلاف کئی ایک کارروائیاں کی ہیں۔ اسی بیان پر افغان خفیہ ادارے ، این ڈی ایس کے سربراہ، جنرل رحمت اﷲ نبیل نے ناراض ہوکر استعفیٰ دے دیا تھا۔ مسٹر نبیل کا موقف تھا کہ افغان صدر نے افغانستان میں دہشت گردی پھیلانے والے ملک، پاکستان کے دارالحکومت میں غیر ضروری لچک کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اشرف غنی کی تنقید بھارتی وزیر ِاعظم ، نریندر مودی سے بھی زیادہ زہریلی تھی۔ مسٹر مودی نے پاکستان کا نام لئے بغیر کہا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف سکوت اور عدم فعالیت دہشت گردوں اور اُن کے ماسٹرز کو مزید شہ دے گی۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ افغان صدر کے انڈیا میں دئیے گئے یہ اشتعال انگیز بیانات زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھے ۔ یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انتہائی باخبر صدر غنی پاک بھارت کشیدگی کے موجودہ ماحول سے بے خبر ہوں گے ۔ چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ اُنھوں نے ایک عالمی کانفرنس ، جس میں چودہ ممالک اور درجنوں تنظیموں کے نمائندے شریک تھے ، میں پاکستان کو جان بوجھ کر بدنام کیا ۔ مزید یہ کہ کانفرنس کا موضوع افغانستان تھا اور جس کا مقصد علاقائی ہم آہنگی اور تعاون کے ذریعے افغانستان کی مدد کرنا اوراسے ایک پرامن ملک بنانے کے ذرائع تلاش کرنا تھا۔ تاہم اُس موقع پر پاکستان کو شرمند ہ کرنے سے نہ صرف ایک غیر ضروری تنازع کھڑ ا ہوگیا بلکہ اس سے افغانستان کے مقصد کو بھی نقصان پہنچا۔ اُس موقع پر پاکستان نے بے مثال صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، حالانکہ بہت سے پاکستانیوں کا خیال تھا کہ سرتاج عزیز صاحب کو امرتسر کانفرنس میں شرکت نہیں کرنی چاہئے تھے کیونکہ یہ بات پہلے ہی محسوس کی جارہی تھی کہ انڈیا اس موقع پر اسلام آباد پر دبائو ڈالنے کی کوشش کرے گا۔
کچھ حلقوں کی جانب سےیہ بھی کہا گیا کہ معمر سرتاج عزیز کو امرتسر میں زیادہ زور دار خطاب کرتے ہوئے اپنے وطن کا دفاع کرنا اور افغان صدر اور بھارتی وزیر ِ اعظم کو اسی موقع پر منہ توڑ جواب دینا چاہئے تھاکیونکہ اُنھوںنے تمام سفارتی اقدار کوبالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا تھا۔ تاہم مسٹر عزیز کو اس بات کا کریڈٹ دیا جانا چاہئے کہ اُنھوںنے کشیدگی کے اُس ماحول میں بھی مثبت بیان دیا جسے روسی کے صدارتی نمائندہ برائے افغانستان، زامیر کبلوف نے سراہا۔
مزید یہ کہ سرتاج عزیز نے ایک دلیرانہ کوشش کرتے ہوئے جذبات پر کنٹرول کیا اور افغانستان کو ترکی بہ ترکی جواب دینے سے گریز کیا ۔ یہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کی بھارتی سازش بھی ہوسکتی تھی جسے مسٹر عزیز نے ناکام بنادیا۔ افغان صدر یقیناََ افغانستان میں سیکورٹی کی خراب ہوتی ہوئی صورت ِحال پر تشویش رکھنے میں حق بجانب ہیں۔ اُن کے ملک میں قائم مخلوط حکومت میں ڈاکٹر عبداﷲ سی ای او ہیں، اورطالبان کی کارروائیوں کو محدود کرنے کی کوشش کرنے والی دوسری سب سے توانا شخصیت ہیں۔ یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغان عوام کو نہ صرف دہشت گردی سے بچائیں بلکہ بدعنوانی کے خلاف لڑتے ہوئے گڈ گورننس بھی قائم کریں۔ فی الحال قومی اتفاق سے بننے والی حکومت میں اتفاق نامی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ ڈاکٹر عبداﷲ کو شکایت ہے کہ اُنہیں فیصلہ سازی کے عمل میں نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ ازبک نسل کے جنگجو سردار، نائب صدر عبدالرشید دوستم سی ای او، جو کہ تاجک نسل سے ہیں اور صدر ، جو کہ پشتون ہیں، پر الزام لگاتے ہیںکہ وہ اپنے نسلی گروہوں کو فائدہ پہنچاتے ہوئے ازبک، ہزارہ اور ترکمان نسل کے گروہوں کو نظر اندازکررہے ہیں۔ دوستم نے خاموشی سے اپنے ازبک لشکر کو منظم کرلیا ہے اور اُن پر اپنے دو حریفوں کو اغواکرنے اُور اُن پر تشدد کرنے کا الزام ہے ۔ صدر غنی کے حامی اور کچھ پاکستانی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے اُن کے ہاتھ بڑھانے کا مثبت جواب نہ دے کر اُن کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے ۔ نہ تو اسلام آباد طالبان کو کابل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے راضی کرسکا اور نہ ہی اس نے ان کے خلاف کارروائی کی ۔ تاہم وہ افغان صدر کی ناکامی کا ذکر نہیں کرتے جو افغان انٹیلی جنس ایجنسی، این ڈی ایس اور پاکستانی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کے درمیان معلومات کے تبادلے پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہے ، اور نہ ہی اُنھوںنے بھارتی ایجنسی را کے ایجنٹوں کو افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستانی انتہا پسندوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے اقدامات سے روکا۔ تاہم ضروری ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ بند کیا جائے تاکہ تعلقات کو مزید بگڑنے سے بچایا جائے ۔

.
تازہ ترین