• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق صدر مملکت جناب آصف علی زرداری 18ماہ ملک سے باہر رہنے کے بعد تشریف لے آئے۔اس اہم سیاسی واقعہ کے ضمن میں معروضات پیش کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ریکارڈکی درستی کیلئے اُن کی ملک سے روانگی،طویل غیر حاضری اور وطن واپسی کے محرکات کا ذکر کیاجائے۔سالہاسال پر محیط اسیری کی تنہائیوں ، پابندیوں، خاموشیوں اور خود کلامیوں اور ذہنی اذیتوں کے باعث انسان میںصبرو ضبط کے اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔ جناب آصف علی زرداری نے 11گیارہ سالہ قیدو بند کے تجربات کے بعد ملک کی بھاگ دوڑ ہاتھوں میں لیکربدترین حالات میں بھی انہی اوصاف کا مظاہرہ کیا ۔ اقتدار سے علیحدگی، 2013ءکے عام انتخابات میں کھلی شکست اور مسلم لیگ ن کی حکومت کے قیام کے فوراً بعد اُن کے صبرو ضبط کے بند ٹوٹ گئے اور وہ رمزو کنایہ کے ذریعے ملک کی سیکورٹی کے ذمہ داروں پر برس پڑے۔جن کے نزدیک بارودی دہشت گردی کے ساتھ معاشی دہشت گردی کا خاتمہ کئے بغیر ملک و قوم کے حالات میں بہتری ناممکن قرار پا گئی تھی۔ اس ڈاکٹرائن کے تحت سیکورٹی اداروں کی تیار کردہ فہرست میں جناب زرداری کے قریبی لوگوں کے نام شامل تھے جس کے ردعمل میں جذباتی ہو کر وہ منہ سے وہ کچھ نکال بیٹھے جس کے بعد اُن کا ملک میں رہنا شاید اُن کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا تھا ۔
سیکورٹی کے اداروں پر اُن کی اس تنقید کے بعد وزیر اعظم میاں نوازشریف نے بھی ان سے ملنے سے انکار کر دیا تھاحالانکہ اُن سے اُن کی ملاقات پہلے سے ہی طے شدہ تھی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں اُنہیں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنا پڑی ۔
2014کے عمران قادری دھرنوں سے لیکر جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ اور اُن کی جگہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور چیف آف آرمی اسٹاف تقرری کے اعلان تک موجودہ حکومت کے کسی وقت میں بھی خاتمے اور " میرے عزیز ہم وطنو"کے ممکنہ حادثے کی باتیں ہر دو اشخاص کے درمیان موضوع سخن چلی آرہی تھیں لیکن عسکری قیادت کی باوقار تبدیلی سے قومی اُفق پر چھائے غیر یقینی کے بادل چھٹ گئے اور مطلع واضح ہو گیا۔اس بدلی صورت حال میں جناب آصف علی زرداری نے یہ درست اندازہ لگاتے ہوئے کہ آئندہ عام انتخابات کی مہم میں گرما گرمی کا موسم آنے تک پاک فوج میں متعدد جنرلز کی ترقی وتبادلوں اور تقرریوں کے باعث اس کی قیادت نئی ذمہ داریوں سے عہدہ براہونے کی منصوبہ بندی نیز ملک کی مشرقی و مغربی سرحدوں پر بھارت اور افغانستان کی پیدا کردہ صورتحال سے نپٹنے اور دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے میں مصروف رہے گی جبکہ مسلم لیگ ن پانامالیکس کے دبائومیں اُلجھی رہے گی اور پی ٹی آئی دھرنوں اور احتجاج کی سیاست سے ہاتھ دھو کر پاناما لیکس مقدمے کے فیصلے تک سپریم کورٹ کی راہداریوں میں سرگردانی کرے گی ۔جناب آصف علی زرداری کو وطن واپسی کیلئے ایسی ہی فضا کا انتظار تھا۔
اپنی سیاست کے اس مرحلے پر انہیں سب سے زیادہ خطرہ اپنے اردگرد خوشامدیوںاوراُن کی مدح و ستائش میںقلم گھسیٹنے والے کالم نگاروں سے پیش رہے گا۔اُنکی پارٹی کی اگلی صفحوں میںوہ لوگ بہتات میں ہیںجواُنہیںعوام میں پارٹی کی اصل صورتحال سے آگاہ کرنے کے بجائے "سب اچھا ہے "کی خبریں دیکراُن کے نقصان کا باعث بنیں گے۔ اُنہیں اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ہو گا کہ شعبہ صحافت سے وارث میر اور ارشاد احمد حقانی کا قبیلہ امریکہ کے ’’ریڈ انڈینز‘‘ کی طرح پردہ غیب میں چھپ چکا ہے ۔یہ وہ لوگ تھے جن کے قلم سے ایک حرف بھی ایسا نہیں ٹپکتا تھا جو کسی قسم کی واردات کی غلاظت سے لتھڑا ہوا ہوجبکہ آج کے زیادہ "سمجھدار" قلم کار حکومت کے پھیلائے زہر کو قند کہہ کہہ کر اُسے بھی شبے میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اس سے مقصد فقط قربتوں اور منعفتوں کا حصول ہوتا ہے جبکہ کچھ قلم کار شیڈو گورنمنٹ کے حق میں قلم کو تیشہ بنالیتے ہیںکہ اب نہیں تو نیکسٹ سہی۔
انہیں اس حقیقت کو تسلیم کر کے اپنا آئندہ کاسیاسی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا کہ حکومت اور پارٹی چلانے کے جو انداز انہوںنے ماضی میں اپنائے رکھے اُن کی وجہ سے سندھ کے علاوہ باقی سارے ملک اور بالخصوص پنجاب میںپارٹی عدم مقبولیت کی آخری حد کو چھو رہی ہے ۔پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا بڑا صوبہ ہے ۔ قومی اسمبلی کی آدھی سے زیادہ نشستیںاس کے حصہ میں آتی ہیں۔اس صوبے کے عوام ہی کسی پارٹی کو اسلام آباد میںحکومت بنانے کا مینڈیٹ بخشتے ہیںجبکہ یہاں پی پی پی کی مثال وینٹی لیٹر پر لگے مریض کی ہے۔عوام کے درمیان پارٹی کا کھویا ہوا مقام اور وقار اسے واپس لوٹانے کیلئے ضروری ہے ۔1 ۔ناہید خان اور صفدرعباسی کو باعزت طور پر پارٹی میں واپس لایا جائے جو ملک بھر کے کونوں کھدروں میں مقیم پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا ہیںاُن کی واپسی سے پارٹی کو اُس کی اصل شناخت میسر آنا شروع ہو جائے گی ۔2 ۔کرپشن کی سیاہی سے داغ داغ چہروں کو بلاو ل کے دائیں بائیں اور عقب سے دور رکھا جائے۔3 ۔آصف علی زرداری پس منظر میں رہ کر نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری کو اگلے مورچوں پر آزادی کے ساتھ سیاسی جنگ لڑنے کا موقع فراہم کریں۔4 ۔گڑھی خدا بخش کے شہدا اور ماضی کے کارناموں کے حوالوں کی بجائے عوام کے سامنے اُن کے مسائل کے ٹھوس حل پر مبنی پروگرام پیش کریں۔5 ۔مشکلات و مصائب میں پارٹی کا ساتھ نبھانے والے پرانے کارکنوں کو عزت دے کر فعال کیا جائے ۔پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی واحد ترقی پسند سیاسی قوت ہے جس کے وجود کا ظہور عوامی اُمنگوں کی زمین سے ہوا ، اسے کسی کی خواہش موت کے گھاٹ اُتار سکتی ہے اور نہ کوشش۔ اپنوں کی کوتاہیوں نے اسے کمزور اور بے آبرو کیا ہے اور وہی اپنے فکرو عمل کی تبدیلی سے اس کو دوبارہ گمشدہ مقام سے بہرہ ور کر سکتے ہیں۔

.
تازہ ترین