• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اوپر نیچے دو راتیں آنکھوں میں کاٹ دیں۔ رتجگوں نے بے حال نڈھال کر رکھا تھا۔ جھنجھلا کر جمعہ ہفتہ کی درمیان رات دو عدد گولیاں LEXOTANIL کھائیں کہ ایسی تیسی نیند کی۔ اب کیسے نہیں آئے گی۔ نتیجہ دو راتوں کی بے خوابی اور نیند کی دو گولیوں نے دوپہر تک بے سدھ رکھا حالانکہ روٹین یہ ہے کہ اخباروں کے آتے ہی جگا دیا جاتا ہوں اور پھر چل سو چل ۔ دن ایک ڈیڑھ بجے ’’جنگ‘‘ سے آغاز کیا۔ فرنٹ پیج کے بعد بیک پیج کی یہی عادت راسخ ہو چکی۔ تصویر کے ساتھ اک دو کالمی خبر نے دل جکڑ لیا ’’سینئر صحافی سید انور قدوائی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے‘‘ شفیق مرزا کے فوراً بعد قدوائی صاحب بھی اچانک رخصت ہو گئے تو سوچا ایڈیٹوریل روم کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ میں آفس کم ہی جاتا ہوں یا شاید جاتا ہی نہیں تقریباً چار سال سے تو نہیں گیا لیکن فون پر رابطہ رہتا ۔ شفیق مرزا تو ’’مرزا صاحب‘‘ تھے لیکن قدوائی صاحب کو میں پیار سے ’’بڑے میاں‘‘ کہتا اور ’’عالیجاہ‘‘ شاید ان کا تکیہ کلام تھا۔ آواز گمبھیر، تلفظ پرفیکٹ، اپنی بیشتر تاریخ کے عینی شاہد، معلومات کا خزانہ، واقعات کا انسائیکلو پیڈیا، آخری کتاب کچھ عرصہ پہلے شاید کسی روحانی شخصیت پر لکھی۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے کہ ایسے لوگ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ نیند کی گولیوں کے سہارے سونے سے پہلے چند سوہان روح مناظر تھے۔ جن کے بارے طے کر کے سویا تھا کہ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کروں گا۔ پہلا منظر لاڑکانہ شہر کا جسے شہر لکھنا اس لفظ کی توہین ہے۔ کھنڈر سے بھی بد تر اوربھیانک کیونکہ کھنڈرات میں ویرانی ہوتی ہے۔ ابلتے گٹر، لیک کرتی گندی نالیاں، غلاظت کے ڈھیر اور گردوغبار کے ایسے بادل نہیں ہوتے کہ چند گز آگے دیکھنا محال کیا ناممکن ہو ۔ جن مناظر کو ٹی وی پر دیکھ کر الجھن کراہت محسوس ہو رہی ہو، وہاں رہنے والوں پر کیا گذرتی ہو گی؟ ان کے شب و روز کیسے ہوں گے؟ کیا یہ اس کے عادی ہو چکے ہوں گے کہ اگر عادی نہ ہوگئے ہوتے تو آصف زرداری صاحب کی واپسی کے جشن کیوں مناتے ؟ ان کے استقبال پر دھمالیں کیوں ڈالتے؟ زرداری صاحب ایسا کون سا کارنامہ سرانجام دے کر لوٹے ہیں کہ خلق خدا خوشی سے نہال دھمال ہو رہی تھی۔ ایسے ہی مناظر بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر بھی ’’ناچتے‘‘ ہوئے نظر آئے۔ ناچتے ہوئے خستہ حال لوگوں کو دیکھ کر گہرے رنج و ملال میں ڈوبا میں اب تک یہ سوچ رہا ہوں کہ بیشک ان خستہ حالوں کا مستقبل بھی اسی طرح خستہ رہےگا۔ ان کی طرح بھوک ننگ اور جہالت بھی ان کے آنگنوں میں اسی طرح دیوانہ وار ناچتی رہے گی۔ حکمرانوں کی اولادیں بھی ان کی طرح حکمرانی کرتی رہیں گی اور آج ان کی فتح کے جشن میں ناچنے والوں کی اولادیں بھی اپنے بزرگوں کی طرح ان کی اولادوں کی فتوحات کے جشن پر اسی طرح محو رقص رہیں گی۔ کراچی میں سٹی کونسل کے اجلاس کا منظر اک اور عجیب منظر تھا۔ مچھلی بازار کی اصطلاح تو خوامخواہ بدنام ہے۔ پھر کسی نجی چینل پر ان افتادگان خاک کے انٹرویوز تھے۔ جن کی فصلیں اور مالی مویشی قطری شہزادوں نے تہس نہس تہہ و بالا کر دیئے۔ لوگ اپنی بے چارگی۔ بے بسی، غربت پر رو رہے تھے۔ سراپا احتجاج تھے اور مجھے قتیل شفائی یاد آ رہے تھے۔ ہم نے تو قتیل اس سا منافق نہیں دیکھا جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا پیپلز پارٹی کے منظور وسان صاحب اپنے خوابوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ان کا تازہ ترین خواب یہ ہے کہ حمزہ شہباز اور مریم نواز کے درمیان اقتدار کی جنگ عروج پر ہے۔ جس کے نتائج عنقریب سامنے آ جائیں گے۔ منظور وسان صاحب نے تاریخ پڑھی ہوتی تو انہیں یہ بے تکا خواب دیکھے بغیر ہی علم ہوتا کہ اقتدار اور تلوار کبھی کسی کے رشتے دار نہیں ہوئے نہ ہوسکتے ہیں۔ سو وہاں اگر کوئی ایسی رسہ کشی موجود ہے تو اس میں حیرت کیسی ؟ البتہ مجھے حیرت ضرور ہے کہ ماضی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے کرتے دھرتے خود کچھ کرنے کی بجائے اس پر تکیہ کیئے بیٹھے ہیں کہ حریف کی صفوں میں ٹوٹ پھوٹ ہو۔ ان کے اندر دراڑیں پڑیں تو ان کی لاٹریاں نکلیں تو میں یقین دلاتا ہوں کہ ----- بات وہی گھسی پٹی اور پرانی ہے کہ ’’بیٹا! سارا گائوں بھی مر جائے تو چوہدری پھر بھی نہیں بن سکے گا‘‘۔ کوئی اور پارٹی رہے نہ رہے، بچے نے بچے پیپلزپارٹی پر دوبارہ ’’جوانی‘‘ کبھی نہیں آئے گی۔ یہ بیچاری اسی رفتار کے ساتھ ’’بوڑھی ‘‘ ہوتے ہوتے گڑھی خدا بخش تک سمٹ جائے گی کہ جن لوگوں نے لاڑکانہ کو کھنڈر سے بھی بدتر حال کو پہنچا دیا۔ ان کا مستقبل لاڑکانہ کے حال سے بہتر کیسے ہو سکتا لیکن شاید پیپلز پارٹی والوں کو مزید ایک دو انتخابات تک ’’معرفت‘‘ کا یہ کلام سمجھ نہیں آئے گا۔ 




.
تازہ ترین