• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل 25دسمبر تھی۔ اسی روز حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش منائی جاتی ہے۔ اسی روز ہمارے مُحسِن قائد اعظم محمد علی جناح ؒ پیدا ہوئے تھے اور اسی روز ہمارے موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پیدا ہوئے تھے۔ قائد اعظم ؒ اور محمد نواز شریف صاحب سیاسی شخصیات ہیں اسلئے تاریخ ہی ان کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ حضرت عیسیٰ ؑ چونکہ ایک بہت اہم پیغمبر گزرے ہیں ان کا ذکر کلام مجید میں 93 مرتبہ آیا ہے (حضرت موسیٰ ؑکا 136 مرتبہ، حضرت ابراہیم ؑ کا 69 مرتبہ اور ہمارے پیارے رسول ﷺ کا 4 مرتبہ ذکر آیا ہے مگر کلام مجید میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو لاتعداد مرتبہ پیغمبر و نبی کہہ کر یاد فرمایا ہے)۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی اہمیت و اعلیٰ مقام مولانا رومیؒ کی مثنوی کی رونق ہے اور آپ نے ان کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ آپ کی خدمت میں مولانا رومیؒ کے تاثرات پیش کر رہا ہوں۔’’حضرت عیسیٰ ؑکو مسیحا، ایک پیغمبر اور اللہ کے خطاب جس میں اس نے حضرت مریم ؑکو مخاطب کیا اور اپنی روح پھونکنے کا ذکر کیا وہ سورۃ نساء، آیت 171 میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ’’اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور خدا کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو، مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ ؑ نہ خدا تھے اور نہ ہی خدا کے بیٹے بلکہ خدا کے رسول اور اس کا کلمۂ بشارت تھے جو اس نے مریم کی جانب بھیجا تھا اور ایک روح تھے۔ تو خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں اس اعتقاد سے باز آئو کہ یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔ خُدا ہی معبود ِو احد ہے‘‘۔
مولانا رومیؒ نے مثنوی میں پھر کلام مجید کی سورۃ مریم کی آیات 16-26تک میں حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش کا تذکرہ ہے۔ ’’اور قرآن میں مریم کا بھی ذکر ہے جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہوکر مشرق کی طرف چلی گئیں تو انھوں نے ان کی طرف سے پردہ کرلیا اس وقت ہم نے ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا تو وہ ان کے سامنے ٹھیک آدمی کی شکل بن گیا۔ مریم بولیں کہ اگر تم پرہیزگار ہو تو میں تم سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس نے کہاکہ میں تو تمھارے پروردگار کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمھیں پاکیزہ لڑکا بخش دوں۔ مریم نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیوں کر ہوگا جبکہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیںاور میں بدکار بھی نہیں ہوں۔ فرشتہ نے کہا یونہی ہوگا کہ تمھارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ یہ مجھے آسان ہے اور میں اُسے اسی طریقہ سے پیدا کرونگا تاکہ اس کو لوگوں کیلئے اپنی طرف سے نشانی اور ذریعہ رحمت ومہربانی بنائوں اور یہ کام طے پاچکا ہے۔ تو وہ اس بچہ کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں۔ پھر پیدا ہونے والا درد اُن کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی۔ اس وقت فرشتہ نے ان کو آواز دی کہ غمناک نہ ہو، تمھارے پروردگار نے تمھارے نیچے ایک چشمہ پیدا کردیا ہے اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلائو تو تم پر تازہ تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی۔ تو کھائو اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے خدا کے لئے روزےکی منّت مانی ہے تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہیں کرونگی‘‘۔
حضرت جبرائیل ؑ کی حضرت مریم سے ملاقات کو مولانا رومیؒ نے اپنے طریقے سے مثنوی میں بیان کیا ہے۔ وہ براہ راست عوام کو مخاطب کرتے ہیں اور کہتے ہیں،’’قبل اس کے کہ تمھارے ہاتھ سے ہر چیز نکل جائے حضرت مریم کی پیروی کرو اور دنیاوی چیزوں کو نظرانداز کرکے کہو میں تم سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں (مثنوی III ، 3700 )۔ بعد میں مولانا رومیؒ حضرت مریم کی گفتگو اپنی اصلی حالت میں بیان کرتے ہیں کہ دنیاوی چیزوں سے بچائو کی واحد جگہ اللہ تعالیٰ کی پناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سےروح پھونکے جانے سے پیدائش کی وجہ سے حضرت عیسیٰ ؑکو اللہ تعالیٰ نے قوّت معجزات عطا فرمائی کہ مُردوں کو زندہ کر سکتے تھے اور بیماروں کو شفایاب کردیتے تھے۔ حضرت عیسیٰ ؑنے فرمایا۔ ’’اور حضرت عیسیٰ ؑبنی اسرائیل کی جانب پیغمبر بن کر جائینگے اور کہیں گے کہ میں تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ تمھارے سامنے مٹی کی مورت بشکل پرند بناتا ہوں اور پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے سچ مُچ جاندار پرندہ بن جاتا ہے اور اندھے اور ابرص کو تندرست کردیتا ہوں اور خدا کے حکم سے مُردے میں جان ڈالدیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو کچھ اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو سب تم کو بتا دیتا ہوں۔ اگر تم صاحب ایمان ہو تو ان باتوں میں تمھارے لئے قدرت ِ خدا کی نشانی ہے‘‘ (سورۃ آلِ عمران، آیت 48 )۔ کلام مجید میں صاف صاف بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو زندگی دینے والی سانس یا روح اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور اس حقیقت کو مولانا رومیؒ نے بھی تسلیم کیا ہے۔ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح تمھاری شبیہ دل میں داخل ہوجاتی ہے اور ایک نئی روح کی شکل اختیار کرلیتی ہے (دیوان۔ 1847 )۔
مولانا رومیؒ نے حضرت عیسیٰ ؑپر تبصرہ کرتے ہوئے دو اہم باتوں کا ذکر کیا ہے اوّل اللہ تعالیٰ کی طرف بھیجا من و سلویٰ اور دوئم حضرت عیسیٰ ؑ کا گدھا۔
دستر خوان کا ذکر کلام مجید میں سورۃ المائدہ، آیات 111-115 ، میں صاف صاف بیان کیا گیا ہے۔ اس سورۃ میں دنیاوی معاملات سے نکل کر روحانی دنیا کا ذکر ہے۔ مولانا رومیؒ کہتے ہیں ہمیں ہر چیز پر دنیاوی سہولتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے لیکن جب ہم روزہ رکھتے ہیں تو یہ تعلق اچانک ٹوٹ جاتا ہے اور ہمارا انحصار رب العالمین کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور ہم پاکیزگی اختیار کرلیتے ہیں ،یہی نہیں بلکہ ہمارا حضرت عیسیٰ ؑ سے قرب اور رابطہ بڑھ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم (مولانا رومیؒ کی زبانی) ہے کہ پہلے ہاتھ دھو اور پھر کھانا کھائو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے دستر خوان بمعہ خوراک عطا کردیا گیا ہے۔ مولانا رومیؒ مزید فرماتے ہیں کہ جب روزہ رکھو تونعمت خداوندی کا انتظار کرو کیونکہ یہ اُبلے ہوئے گوبی سے کہیں بہتر ہے۔جہاں تک حضرت عیسیٰ ؑ کے گدھے کا تعلق ہے کلام مجید میں مجھے کہیں اس کا ذکر نہیں ملا۔ مولانا رومیؒ نے اس کا تذکرہ اپنی مثنوی (M 11:1850-1853, 1855-1860) میں تفصیل سے کیا ہے اور اس کا لب لباب یہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ حضرت عیسیٰ ؑ پر، ان کے رتبہ پر دھیان دے نہ کہ ان کے گدھے پر۔ حضرت سعدیؒ نے البتہ حضرت عیسیٰ ؑ کے گدھے پر ایک شعر کہا ہے:
خَرِ عیسیٰ ؑ اگر بہ مکہ رَور
چوں بہ آید ہنوز خر باشد
یعنی حضرت عیسیٰ ؑ کا گدھا (ان کے ساتھ) لاتعداد مرتبہ مکّہ گیا لیکن جب بھی واپس آیا گدھا کا گدھا ہی تھا۔
کلام مجید اور صحیح بخاری میں حضرت عیسیٰ ؑکے بارے میں جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں وہ مولانا رومیؒ نے نہیں بیان کی ہیں۔


.
تازہ ترین