• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عظیم لیڈرز قوموں کی قسمتیں بدلتے ہیں اور زندہ قومیں ہمیشہ اُنہیں یاد رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھی قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے عظیم لیڈرز عطا کئے جنہوں نے بے شمارقربانیاں دے کر ہمیں ایک ملک دیا اور پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنایا۔ آج میں شہید بینظیر بھٹو کی نویں برسی کے موقع پر اُنہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ان کے ساتھ گزارے گئے تاریخی لمحات قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا تاکہ آنے والی نسلوں کو ان کی پاکستان کیلئے دی گئی قربانیوں کے بارے میں آگاہی ہوسکے۔
میرا اور میری فیملی کا شہید بینظیر بھٹو سے بڑا قریبی تعلق رہا ہے۔ ان کے ساتھ کام کرکے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ میری رول ماڈل تھیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں ان کے پائے کے بہت کم لیڈر ہیں۔ شہید بینظیر بھٹوسے میری ملاقات 1994ء میں اس وقت ہوئی جب انہوں نے وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کی ایوارڈ تقریب میں ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے اور بیمار صنعت کی کامیاب بحالی پر مجھے ایوارڈ دیا۔ اس موقع پر محترمہ کے پوچھنے پر میں نے انہیں بتایا کہ میں نے اپنی ڈاکٹریٹ پاکستان میں بیمار صنعتوں کی بحالی پر کی ہے جس پر انہوں نے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین صفدر عباس کو ہدایت کی کہ ’’آپ بیگ صاحب سے ملک میں بیمار صنعتوں کی بحالی کیلئے رہنمائی لیں۔‘‘ بعد ازاں وقتاً فوقتاً محترمہ کو مختلف میٹنگز میں ملکی معیشت اور توانائی کے بحران پر مختلف تجاویز و پروپوزل دیتا رہا۔ وہ مجھے برطانیہ، کوریا، اسپین، مراکش، ترکمانستان اور دیگر کئی ممالک کے سرکاری دوروں پر وفد کے ہمراہ لیکر گئیں۔ بینظیر بھٹو اپنے خصوصی طیارے کی روانگی کے تھوڑی دیربعد عموماً وفد کے اراکین کو فرداً فرداً بلاکر ان کے متعلقہ محکموں کی تجاویز اپنے ایجنڈے میں شامل کرتی تھیں جبکہ وہ اچھی انگلش بولنے، لکھنے اور خوش لباسی کو بے حد پسند کرتی تھیں۔ اپنے دور حکومت میں بینظیر بھٹو نے مجھے صنعتی ترقی کیلئے کے ای ایس سی اور سائٹ لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں اہم ذمہ داریاں سونپیں تاہم 5 نومبر 1996ء کو پی پی حکومت ختم کردی گئی۔
اپوزیشن دور میں میرے دوست انور ٹاٹا نے ملک کے ممتاز صنعتکاروں کے ساتھ بینظیر بھٹو کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا۔ عشایئے سے واپسی پر جب میں اپنی گاڑی کی طرف جارہا تھا تو محترمہ نے مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کوکہا۔ اس طرح ہم بلاول ہائوس پہنچے جہاں انہوں نے مجھے ایک اہم کام سونپا جسے کامیابی سے مکمل کرنے پر ان کا مجھ پر اعتماد میں اضافہ ہوا۔ دبئی میں جلاوطنی کے دوران میں اور میرے بھائی اشتیاق بیگ محترمہ کے بہت قریب رہے۔ میری مرحومہ بھابھی نازیہ حسن سے محترمہ کی نہایت قریبی دوستی تھی۔ 2002ء کے الیکشن کے دوران بینظیر بھٹو نے مجھے کراچی کے حلقہ NA-250 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے کہا جس کیلئے میں بالکل تیار نہ تھا لیکن مخدوم امین فہیم اور سینیٹر رضا ربانی کے اصرار پر محترمہ کو انکار نہ کرسکا۔ یہ الیکشن میری سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔ اس سلسلے میں بینظیر بھٹو نے مجھے یمن کے اعزازی قونصل جنرل ہونے کے ناطے غیر ملکی سفارتکاروں سے تعلقات رکھنے اور پیپلز بزنس فورم کی ذمہ داری سونپی جو بزنس کمیونٹی اور پیپلزپارٹی کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا تھا۔ ہم نے برطانوی پارلیمنٹ کے چند ارکان جو ہمارے قریبی دوست ہیں، کے ذریعے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر سے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کی حمایت حاصل کی۔ اسی طرح امریکہ نے بھی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کے ذریعے بی بی کو پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے کہا اوربالآخر بینظیر بھٹو نے 18 اکتوبر 2007ء کو وطن واپسی کا اعلان کیا۔ ان کے اعلان کے وقت پارٹی کے تمام سینئر لیڈرز اور ورکرز بلاول ہائوس میں جمع تھے۔ محترمہ کی کراچی واپسی ہم سب کیلئے خوشی کیساتھ ایک چیلنج تھا کہ ہم کس طرح ان کا شایان شان طریقے سے استقبال کریں۔ اس سلسلے میں استقبالیہ کمیٹی بنائی گئی جس میں مجھے بھی شامل کیا گیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کراچی بالخصوص بلاول ہائوس کا حلقہ NA-250 محترمہ کی خوبصورت قد آور تصاویرسے سجایا گیا جس کے باعث وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم نے نہ صرف میرے گھر پر پولیس چھاپے پڑوائے بلکہ مجھ سمیت قائم علی شاہ اور دوسرے لیڈرز کو پیپلزپارٹی کی ریلی سے گرفتار کرواکے ڈیفنس تھانے میں بند کروادیا۔ ہماری رہائی کیلئے خورشید شاہ، رضا ربانی، یوسف تالپور اور میرے وکلا رات گئے کوشش کرتے رہے۔ بعد میں ٹی پی او کلفٹن نے مجھے بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے میرے علاوہ تمام لیڈرز کی رہائی کا حکم دیا ہے جبکہ وہ مجھ سے تحریری معافی نامہ اور بینظیر بھٹو کے استقبال کی تیاریوں میں حصہ نہ لینے کا حلف چاہتے تھے جس پر میں نے ٹی پی او کو صاف انکار کردیا تاہم جب دیگر پی پی رہنمائوں کو رہا کیا جانے لگا تو انہوں نے میری رہائی تک تھانہ چھوڑنے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں رات گئے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے فون پر رابطہ کرکے مجھ سمیت تمام پی پی رہنمائوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔
بینظیر بھٹو کا شایان شان استقبال اور سانحہ کارساز تاریخ کا حصہ ہیں۔ میں نے الیکشن اور بی بی کے استقبال کی مصروفیات کی بناء پر اپنے بھائی اشتیاق بیگ کو بی بی کے ہمراہ دبئی سے کراچی آنے کیلئے کہا۔ وطن واپسی پر بینظیر بھٹو نے طیارے سے اترتے وقت میرے نام کی پی پی الیکشن کیپ نہ صرف خود پہنی بلکہ طیارے میں سوار تمام افراد کو کیپ پہننے کی ہدایت کی جسے دنیا بھر کے چینلز نے دکھایا۔ بینظیر بھٹو اپنے قریبی ساتھیوں کومختلف ذمہ داریاں دیکر آزماتی تھیں۔ کراچی میںمحترمہ نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت الیکشن آفس میں ہنگامے کے بعد واپسی پر بلاول ہائوس میں ایک اہم میٹنگ کی جس میں فہمیدہ مرزا، ذوالفقار مرزا، شیری رحمن، رضا ربانی، رحمن ملک، قائم علی شاہ اور دیگر اہم پارٹی رہنما بھی شریک تھے۔ اجلاس میں طے پایا کہ سیکورٹی کے پیش نظر محترمہ بینظیر بھٹو اپنے کاغذات نامزدگی کی تصدیق کیلئے دوبارہ الیکشن کمیشن آفس نہیں جائیں گی۔ اس موقع پر میں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ ہمیں الیکشن کمیشن سے آپ کی حاضری کا استثنیٰ حاصل کرنا چاہئے جس پر انہوں نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے فوراً الیکشن کمیشن کے سیکریٹری سے رابطہ کیا اور انہوں نے بینظیر بھٹو کو الیکشن کمیشن آفس میں حاضری سے استثنیٰ دے دیا۔ ابھی میں یہ بات محترمہ کو بتانا ہی چاہتا تھا کہ رحمن ملک نے الیکشن کمیشن سے تحریری اجازت نامہ لینے کا کہا اور الیکشن کمیشن نے اتوار کا دن ہونے کے باوجو کچھ دیر بعد تحریری اجازت نامہ بلاول ہائوس فیکس کردیا جسے میں فخریہ انداز میں لے کر محترمہ کے پاس پہنچا۔ تحریری اجازت نامہ دیکھ کر محترمہ نے مجھے Welldon کہا۔ اس موقع پر وہاں موجود ذوالفقار مرزا نے محترمہ سے مذاقاً کہا۔ ’’میڈم! ایسے کام صرف ’’مرزا ‘‘ہی کرسکتے ہیں۔‘‘ محترمہ نے جواب میں کہا ۔’’نہیں صرف ’’بیگ ‘‘کرسکتے ہیں۔‘‘ محترمہ کی یہ بات میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔ بعد ازاں بینظیر بھٹو نے مجھے لندن کے پارٹی اجلاس میں NA-250 کراچی کے ٹکٹ کیلئے نامزد کردیا، اس طرح ملک بھر میں صرف میں ہی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا مشترکہ امیدوار تھا جبکہ مجھے اے این پی، جے یو آئی اور سنی تحریک کی حمایت بھی حاصل تھی۔ 2008ء میں ہونے والے انتخابات میں، میں نے ریکارڈ ووٹ حاصل کئے کیونکہ میرا اور پارٹی کے تمام کارکنوں کا یہ عزم تھا کہ بلاول ہائوس کے حلقے کی یہ نشست پیپلزپارٹی کی ہو مگر ایم کیو ایم نے طاقت کے زور پر بیلٹ باکس خالی بیلٹ پیپرز سے بھرکر عوامی مینڈیٹ کا جو مذاق اڑایا، وہ دنیا کے سامنے تھا۔ بعد میں ہائیکورٹ میں دائر پٹیشن پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مرحلے پر مفاہمت کے تحت پارٹی کے شریک چیئرمین کی ہدایت اور پارٹی ڈسپلن کے باعث اپنی پٹیشن واپس لینا پڑی جس کا آج بھی مجھے سخت افسوس ہے۔بینظیر بھٹو کی شہادت کے کئی روز بعد اُن کےبلیک بیری سے شریک چیئرمین آصف زرداری کا ایک میسج آیا کہ ’’شہید بی بی کے آخری پیغامات میں آپ کو کیا گیا یہ ایس ایم ایس بھی شامل تھا۔‘‘ دراصل وہ میسج میں نے اپنے حلقہ NA-250 میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر شکریہ کیلئے کیا تھا جس کے جواب میں بی بی نے مجھے میسج کیا کہ
"Are you happy, now you must win this seat, good luck"
میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ بی بی سے یہ میری آخری گفتگو ہوگی۔

.
تازہ ترین