• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رواں سال 5ستمبر کی شام کور کمانڈر کوئٹہ کے گھرلان میں لاہور سے آئے چند صحافیوں کے اعزاز میں کھانے کا اہتمام تھا ۔میرے دائیں طرف کمانڈرن سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض اور بائیں جانب آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن (جو اب لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد کور کمانڈر بہاولپور تعینات ہو چکے ہیں)براجمان تھے ۔پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں تب بھی سخت گرمی تھی مگر کوئٹہ میں شام کے بعد موسم سرد ہوجاتااور خنکی بڑھ جاتی۔مگراس بے تکلفانہ نشست میں گرما گرم بحث کے باعث کسی کو سردی کا احساس تک نہ ہوا۔جنرل عامر ریاض لگی لپٹی اور ملفوف بات کرنے کے قائل نہیں بلکہ دوٹوک اور غیر مبہم بات کرتے ہیں ،کئی سوالات کے جواب میں انہوں نے بلا جھجھک جواب دے ڈالا تو میں نے ہنستے ہوئے کہا ،جنرل صاحب ! آپ واقعی لاہوری ہیں کیونکہ بالعموم فوجی کم گو ہوتے ہیں اور لب کشائی سے گریز کرتے ہیں مگر آپ کو جو کہنا ہو کہہ جاتے ہیں۔اس پر ایک سینئر صحافی نے لقمہ دیا،جنرل صاحب اسے تعریف نہ سمجھئے گا اور محفل کشت زعفران بن گئی۔آج وہ محفل اور غیر رسمی نشست اس لئے یاد آئی کہ چند روز قبل جنرل عامر ریاض نے ایف سی ہیڈ کوارٹر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک غیر متوقع اور دھماکہ خیز پیشکش کر ڈالی ہے۔انہوں نے ایف سی کے جوانوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بھارت سے کہا کہ دشمنی کا سلسلہ ترک کر کے سی پیک منصوبے میں شامل ہو جائے۔ اس ملاقات میںکئی گھنٹے گوادر ،سی پیک ،بلوچستان کی تعمیر و ترقی اور امن و امان کے قیام پر بات ہوتی رہی مگر ہر مرتبہ بات گھوم پھر کر بھارت کے کردار پر ختم ہوتی ۔بھارتی مداخلت کا ذکر ہوا۔جنرل عامر ریاض نے کہا کہ سی پیک منصوبہ مکمل ہو جائے تو دس سال بعد پاکستان غیر ملکی قرضوں کا محتاج نہیں رہے گا اور بلوچستان کی تقدیر بدل جائے گی۔
بعض دوستوں نے اکسانے کی کوشش کی کہ فوج تو ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے اورملکی بقا و سالمیت کے لئے قربانیاں دے رہی ہے مگر یہ نگوڑی حکومت بہت نکمی اور نااہل ہے۔یہاں جنرل صاحب قدرے محتاط دکھائی دیئے اور کہنے لگے اگر آپ کا خیال ہے کہ حکومت کچھ نہیں کرر ہی تو پھر آپ کو حکومت پر دبائو بڑھانا چاہئے کیونکہ جو ان کے کرنے کا کام ہے وہ تو انہوں کو ہی کرنا ہے کوئی اور نہیں کر سکتا ۔میں نے ترنت پوچھا،جنرل صاحب ! معذرت کے ساتھ،کیا آپ کا بھی یہی خیال ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی؟قہقہے لگاتے جنرل نے سپاٹ لہجے میں کہا،میری رائے نہ ہی لیں تو اچھا ہے کیونکہ میری بات ذاتی رائے نہیں بلکہ ادارہ جاتی موقف بن جائے گی۔بھارت سے دوستی کا ذکر ہوا تو ایک صاحب نے ڈھکے چھپے الفاظ میں نواز شریف کی بات کی ۔جنرل عامر ریاض نے واضح کیا کہ بھارت سے دوستی اور اچھے تعلقات قائم کرنے کی راہ میں فوج کا نوازشریف سے کوئی اختلاف نہیں ۔البتہ اس عمل میں بھارت خود رکاوٹ ہے اور پاکستان کی طرف سے یکے بعد دیگرے کی جانے والی امن کی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا جا رہا۔ریاست مکران کا ساحلی شہر گوادر کبھی خان آف قلات کی ریاست کا حصہ ہوا کرتا تھا۔1783ء میں مسقط و عمان کے شہزادے سید سلطان بن احمد بن سعید البوالسعیدی نے ملک میں شورش کے باعث قلات کے حاکم میر محمد نصیر خان کے ہاں پناہ لی تو خان آف قلات نے ازراہ عنایت گوادر کا علاقہ عرب شہزادے کے تصرف میں دیدیا ۔تاریخی دستاویزات کے مطابق اس وقت گوادر کی آمدنی 84تنکا تھی1797ء میں شہزادہ تو واپس چلا گیا مگر گوادر کا علاقہ بدستور اس کے تصرف میں ہی رہا۔1861 ء میں برطانوی فوج کے ایک افسر میجر گولڈ اسمتھ نے اس علاقے پر قبضہ کرلیا۔برطانوی حکومت نے یہاں پولٹیکل ایجنٹ کا تقرر کیا اور برٹش اسٹیم نیوی گیشن نامی کمپنی نے پہلی مرتبہ گوادر کو بطور بندرگاہ استعمال کرنا شروع کیا۔تقسیم ہند کے بعد یہ علاقہ ایک مرتبہ پھر ریاست عمان و مسقط کے زیر انتظام آگیا۔وزیر اعظم فیروز خان نون نے یہ علاقہ واپس لینے اور پاکستان میں شامل کرنے کی غرض سے سفارتی کاوشوں کا آغاز کیا اور آخر کار سلطان سعید بن تیمور یہ علاقہ پاکستان کے حوالے کرنے پر رضامند ہو گئے۔8ستمبر 1958ء کو وزیر اعظم نے ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے خوشخبری دی کہ گوادر کا علاقہ پاکستان میں شامل ہو چکا ہے۔تب سے اب تک ہر حکومت نے کوشش کی کہ گوادر کو عالمی بندرگاہ میں تبدیل کرکے ایک عالمی تجارتی مرکز میں تبدیل کر دیا جائے اور اب یہ دیرینہ خواب پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ایران پہلے ہی سی پیک منصوبے میں شمولیت کی خواہش ظاہر کر چکا ہے اگر بھارت بھی دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزاحمت کے بجائے معقولیت کا راستہ اختیار کرے اوراس منصوبے کا حصہ بن جائے تو صرف بلوچستان اور پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے اور بھارتی مصنوعات کے لئے نئی تجارتی منڈیوں کی راہیں کھل سکتی ہیں اور جنوبی ایشیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔
کمانڈرن سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض کی طرف سے امن و آشتی کا پیغام اور بھارت کو سی پیک منصوبے میں شمولیت کی پیشکش اس لئےبھی اہمیت کی حامل ہے کہ ایک فوجی ہی جنگ و جدل کی تباہ کاریوں اور مضمرات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔لیکن بصد احترام صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ اگر کوئی اور ادارہ یا فرد امن کی بات کرے یا بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کرے تو اسے ملک دشمنی اور غداری قرار نہ دیا جائے۔ہم سب پاکستانی محب وطن ہیں اور ہمارے لئے ملکی مفادات ہی مقدم ترین درجہ رکھتے ہیں اگر صاحب بصیرت لوگ بھارت سے دشمنی کا سلسلہ ترک کر کے دوستی اور اچھے تعلقات کی بات کرتے ہیں تو اس کے پیچھے یہ سوچ پوشیدہ ہوتی ہے کہ ہمسایوں سے تعلقات بہتر کئے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

.
تازہ ترین