• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
27دسمبر 2007، وہ دن جس نے پاکستان کی تاریخ کا رخ موڑ دیا،وہ دن جو بھٹو خاندان کو ایک اور شہید دینے کے ساتھ پوری قوم کو خون کے آنسو رلا گیا، وہ دن جو بلاول،بختاوراور آصفہ کو ہی نہیں لاکھوں جیالوں کو بھی یتیم کر گیا، جو غریبوں،مسکینوں اور محروموں کی آواز کو خاموش کر گیا، اکیاون فیصد خواتین کا فخر چھین کر لے گیا، روشن پاکستان کی امید کو نگل گیا، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کے استعارے کو معدوم کرگیا، اسلام اور مغرب کے درمیان قائم پل کو منہدم کرگیا ، پاکستان کو اس کی شناخت سے محروم کر گیا اور بے نظیر بھٹو کی جان لے کر امر ہو گیا۔ وہ اس حوالے سے غیر معمولی دن تھا کہ ملک میں عام انتخابات کا بگل بج چکا تھا جو 8 جنوری کو منعقد ہونے جا رہے تھے اور انتخابی مہم کے سلسلے میں دو سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف راولپنڈی میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے آ رہے تھے، فضا میں عجیب سا خوف تھا ،میاں نواز شریف ایک انتخابی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے بذریعہ جی ٹی روڈ راولپنڈی کی طرف رواں دواں تھے جبکہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے دیگر صحافیوں کی طرح ہم بھی ساتھ تھے۔ راولپنڈی کی حدود سے ابھی دور ہی تھے کہ ریلی پر فائرنگ ہوئی جس سے بھگدڑ مچی تاہم میاں صاحب نے کارکنوں کا حوصلہ بڑھایا کہ انہیں خوف زدہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن وہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے نہیں ،اپنے قائد کی آواز پر لیگی کارکنوں نے لبیک کہا اورریلی نے دوبارہ پیش قدمی شروع کر دی۔ تھوڑا فاصلہ طے کر کے ریلی راولپنڈی کی حدود میں داخل ہو چکی تھی، آٹھ سال بعد اپنے رہنما کو اپنے درمیان دیکھ کر مسلم لیگ ن کے کارکن خوشی اور جوش سے دیوانے ہو رہے تھے، نعروں کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، انتخابی ریلی بہت بڑی اور شہر کے گنجان آباد حصے میں داخل ہونے کی وجہ سے کچھوے کی رفتار سے رینگ رہی تھی ،شام کے سائے ڈھلنا شروع ہو گئے تھے اور دہشت گردی کا خطرہ بھی موجود تھا کہ اچانک ریلی کے اگلے سرے پرپراسرار خاموشی چھا گئی جو آخری سرے تک سرایت کر گئی، چند لمحات میں ہی ریلی کے شرکاءکو اندازہ ہوگیا کہ کوئی واقعہ پیش آ گیا ہے تاہم اس کی نوعیت معلوم نہیں ہو رہی تھی، چند منٹ میں اطلاعات آنے پر یہ کھسر پھسر شروع ہو گئی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیاقت باغ میں منعقدہ جلسے میں دھماکہ ہو گیا ہے، خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور میاں نواز شریف نے کارکنوں کو ہنگامی طور پر خود آگاہ کیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی ہے اس لئےوہ اس ریلی کو یہیں منسوخ کرتے ہیں۔ تب تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ غروب ہوتا سورج اپنے ساتھ کیا لے گیا ہے۔
میاں نواز شریف کی گاڑی کا تعاقب کرتے ہم بھی سینٹرل اسپتال راولپنڈی پہنچ چکے تھے جہاں چیختے چلاتے پیپلز پارٹی کے جیالے اس جگہ جانے کیلئے دھکم پیل کر رہے تھے جہاں ڈاکٹروں کی طرف سے محترمہ کی جان بچانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ چند بپھرے جیالوں نے میاں نواز شریف کو دیکھ کر نعرے بازی بھی کی،میاں صاحب کے سیکورٹی اسٹاف نے حالات کی سنگینی کے باعث انہیں وہاں سے جانے کی ایڈوائس کی لیکن وہ صورتحال کی نزاکت بھانپ چکے تھے جسکی 6 بجکر16 منٹ پر تصدیق کر دی گئی۔ سیاسی حریف جسے میاں صاحب اپنی بہن قرار دے چکے تھے ،کی اس اندوہناک موت نے انہیں بھی رلا دیا۔ اسپتال میں موجود کوئی فرد ایسا نہ تھا جس کی آنکھیں نم نہ ہوں، وہیں روتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہاکہ انہیں یقین نہیں آ رہا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے،کوئی انسان سوچ بھی نہیں سکتا جو ہوا ہے،یہ تاریخ کا انتہائی افسوسناک سانحہ ہے۔ اس کے بعد بی بی کے چاہنے والوں نے جس طرح اپنے اپنے طریقے سے غم کا اظہار کیا وہ تاریخ ہے۔ جی ہاں وہی تاریخ جس میں 28 سال پہلے جس شہر سے باپ کا تابوت خاموشی سے گڑھی خدا بخش روانہ کیا گیا تھا ایک بار پھر اسی شہر سے بیٹی کا تابوت بھٹو کے آبائی قبرستان بھیجا جا رہا تھا۔ وہ بیٹی جو بے نظیر تھی جس نے آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کرنے کے بعد پاک سرزمین پر قدم رکھا تو وطن سے محبت بے اختیار ان کی آنکھوں سے چھلک پڑی جس کو انہوں نے 27 دسمبر سے چند روز قبل مکمل کی گئی کتاب؛ ری کنسیلی ایشن؛ میں میں خود ان الفاظ میں بیان کیا۔ ؛ میں نے جیسے ہی اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں قائد اعظم انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی پختہ زمین پر اپنے قدم رکھے میں جذبات کی رو میں بہہ گئی حالانکہ میں اپنے جذبات کے اظہار کے معاملے میں حد سے زیادہ محتاط تھی۔ سیاست یا حکومت میں خواتین کی طرف سے جذبات کے اظہار کو کمزوری اور صنف نازک کے بارے میں قائم کئےگئے مفروضوں کی درستی کے مترادف سمجھا جاتا ہے لیکن تنہائی اور مشکل میں گزاری جلا وطنی کے آٹھ سالوں بعد جیسے ہی میرے قدموں نے پیارے پاکستان کی سرزمین کو چھوا تو میں اپنے آنسوئوں کو آنکھوں سے چھلکنے سے نہیں روک سکی۔ بے اختیار میرے ہاتھ اللہ کے حضورشکرانے کیلئے بلند ہو گئے۔ میں پاک سرزمین پرغرور کے ساتھ سراونچا کر کے کھڑی تھی۔ میں نے محسوس کیا جیسے ایک بہت بڑا،تکلیف دہ حد تک بھاری بوجھ میرے کندھوں سے اتر چکا ہے۔ یہ آزادی کا احساس تھا۔ آزاد فضائوں میں سانس لینے کی خواہش رکھنے والی بے نظیر کی وطن سے یہ بے نظیر محبت ہی تھی کہ وہ اس حد تک جانتے ہوئے بھی اپنے پیارے وطن اور اپنے لوگوں کے درمیان آ پہنچیں کہ اس کی جان لینے کیلئے قبائلی علاقوں سے کن خود کش حملہ آوروں کو ٹاسک دیا گیا ہے جو وطن واپسی پر فوری انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ وہ یہاں تک جانتی تھیں کہ نامزد کئے گئے خود کش حملہ آوروں کے نام اور موبائل نمبرز کیا ہیں، یہ اطلاعات انہیں پرویز مشرف کی حکومت یا ملکی ایجنسیوں نے نہیں بلکہ ان سے ہمدردی رکھنے والے ایک اسلامی ملک نے فراہم کی تھیں۔ وہ جان ہتھیلی پر رکھنے کا فیصلہ اپنے عظیم باپ کے ورثے کو اپناتے ہوئے بہت پہلے کر چکی تھیں اور اس ورثے میں پاکستان کے عوام اولین ترجیح تھے۔
عوام سے اسی والہانہ محبت کا اظہار انہوں نے اٹھارہ اکتوبر کو فقید المثال استقبال کیلئے آنے والوں کیلئے ٹرک میں مسلسل دس گھنٹے کھڑے ہوکر کیا،یہاں تک کہ مسلسل ایک جگہ کھڑا رہنے سے ان کے پائوں سوج چکے تھے، یہ وہ خصوصی ٹرک تھا جو پرویز مشرف کی حکومت کی طرف سے درکار سیکورٹی انتظامات نہ کرنیکی وجہ سے ان کے شوہر آصف علی زرداری نے ان کی حفاظت کیلئے تیار کرایا تھا ،اس خصوصی ٹرک کوبم بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 179 افراد کو آنا فانا موت کی نیند سلانے والے اس خوفناک حملے میں وہ محفوظ رہی تھیں۔پاکستان اور پارٹی کے پرچم تھامے جیالوں کو ایک لمحے میں چیتھڑوں میں تبدیل ہوتے دیکھ کر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف ان کا عزم اور مضبوط ہو گیا تھا اور وہ سر پر کفن باندھ چکی تھیں۔ وہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں اسلام کے استحصال کے خاتمے کو اپنا مشن بنا چکی تھیں،وہ آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار تھیں۔ وہ عوام کو ان کے حقوق دے کران کی محرومیاں ختم کرنے کا ایجنڈا تیار کر چکی تھیں، وہ مسلم دنیا میں پائے جانے والے اختلافات کو ختم کرانا چاہتی تھیں اور وہ اسلام اور مغرب کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کا خاتمہ کرنے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کی خواہاں تھیں لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کہ 27 دسمبر آ چکا ہے۔ وہ خونچکاں دن جس نے عوام سے محبت کی قیمت ان سے جان کا خراج لے کر وصول کی۔

.
تازہ ترین