• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کے بڑے بڑے ملک دیکھ لیں جہاںہر طرح کی آزادی ہے لیکن یہ آزادی ذمہ داری کیساتھ استعمال کی جاتی ہے مگر پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں اس آزادی کا بے مہار اور غیر ذمہ دارانہ استعمال ہے جو شاید دنیا کے کسی ملک میں بھی نہ ہوتا ہو، ویسے تو اٹھتے بیٹھتے جسکا جو دل چاہتا ہے کسی کو گالیاں دے دیتا ہے، اور نہ جانے کیا کیا الزامات لگا دیئے جاتے ہیں —لیکن کرپشن کرنے کی جو آزادی ہے اسکی مثال بھی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں مل سکتی کہ اِدھر کھربوں کی کرپشن کریں اور اُدھر کرپشن ختم کرنے کیلئے بنائے گئے ادارے سے ڈیل کر کے کھربوں کی کرپشن کے عوض چند ارب روپے دیکر اپنے آپکوپاک صاف کروائیں ، ’’ نوکرپشن‘‘ کی مہر لگوائیں اور پھر کرپشن کرنے کی نئی راہوں پر چل نکلیں۔—ملکی دولت لوٹ لوٹ کر غیر ملکی بنکوں میں منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوائیں ، کبھی پاناما لیکس انکشافات ہوں تو کروڑوں روپے وکیلوں کو دیکر کیسوں کو ایسے الجھائیں کہ نشاندہی کرنیوالا عبرت کا نشان بن جائے اور دوسری طرف چند روپے یا سونے کی ایک ڈلی چرانے یا کرپشن کرنیوالوں کی نشاندہی کی پاداش میں آپکو برس ہا برس جیلوں میں ڈال دیا جائے . یہ بڑی تلخ حقیقتیں ہیں جن سے اس ملک میں بسنے والے ہر کسی کا واسطہ پڑ تا ہے اور ہر ایک صبر اور برداشت کے اپنے پیمانے کو بڑے سے بڑا کرتا جاتا ہے۔ لیکن اس ملک کے ہر محب وطن کے صبر اور برداشت کی حدیں اُس وقت ختم ہوجاتی ہیں جب اپنی ہی ’’ دھرتی ماں‘‘کے خلاف زہر اُگلا جاتا ہے ، اُسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازشیں کی جاتی ہیں اور غیر ملکی آقائوں کیساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے اس ملک کا نہ نمک یاد رہتا ہے اور نہ ہی سکون دینے والی اس زمین کی گود اور اس پر حکمرانوں کی خاموشی سے تو لگتا ہے کہ شاید وہ بھی اس عمل کے حصہ دار ہیں ؟ایسے ماحول میں حکمراںجماعت کا حلیف سیاستدان ، محمود خان اچکزئی جسکے خاندان کے دس کے قریب افراد حکمرانی کے مزے لے رہے ہوں ، بھائی گورنر بلوچستان ہووہ اس ملک کو توڑنے اور اس کیخلاف سرعام سازشیں کریں ،افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کا مطالبہ کرے اور یہ بھی کہے کہ وزرا، پارلیمنٹرین اور پاکستان کی آدھی آبادی دہری شریت رکھتی ہے تو افغان مہاجرین کو شہریت کیوں نہیں دی جاسکتی اور بات یہاں تک ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ بارڈر سے لیکر اٹک اور میانوالی تک ان کیلئے افغانیہ کے نام کا الگ صوبہ بنایا جائے ، پھر یہ شخص محب وطن پشتونوں کو غداری پر مجبور کرے کہ یہ زمین ہمیں ہمارے آبائواجداد سے ورثہ میں ملی ہے اور ہم کسی ایسے پاکستان کے متحمل نہیں ہو سکتے جس میں میرا بھائی چوکیدار ہو۔
پاکستانیوں کی یادداشت کمزور سہی مگر حب الوطنی کمزور نہیں، انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ یہ وہ شخص ہے جسکی جماعت نے تو قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اور جب کبھی اسے موقع ملا اس نے پاکستان کے خلاف زہر اگلا ، آج سے تیس برس پہلے جب افغان مہاجرین کو پاکستان لایا جا رہا تھا تو یہ اِسکے مخالف تھے کیونکہ اُس وقت انکے مفادات اور تھے —ملک کے خلاف زہر اگلنے والے اِنکے خیالات کوئی نئی بات نہیں، انہوں نے 25جون2012ء کو کوئٹہ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کھلم کھلا دھمکی دی تھی کہ اگر پشتونوں کو ان کا حق نہ دیا گیا تو کسی کو حکومت کے مزے نہیںلینے دیں گے ۔ یہ بھی دھمکی دی کہ خیبر پختوانحوا افغانوں کا علاقہ ہے افغان مہاجرین یہاں آ جائیں انہیں کسی مہاجر کارڈ کی ضرورت نہیں،پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ انہوںنے پختون قوم پرستی کی بنیاد پر ہمیشہ سیاست کی مگر اب اس مردہ گھوڑے میں جان نہیں ڈالی جا سکتی ۔ لوگ جانتے ہیں کہ یہ افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ سمجھتے ہیں مگر جب پاکستان کی ریاست کی بات آتی ہے تو وہ سرحدوں کو بھول جاتے ہیں۔ عوام کو انکی یہ دھمکی بھی یاد ہے کہ پشتون کے گھر یا زمین پر مہمان غلط نگاہ ڈالیں تو اسکا حشر بہت بُرا ہوتا ہے ۔ عوام کو معلوم ہے کہ انکی ہمددریاں ہمیشہ بھارت اور افغانستان کیساتھ رہیں ،وہ خطے میں ہر خرابی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے رہے اور اسی سے فائدہ بھی اٹھاتے رہے لیکن اب اس ملک میں قوم پرستی کے نام پر سیاست نہیں چل سکتی،اب ہر محب وطن ایسے عناصر کیخلاف آواز اٹھائے گا۔ ایک اور وطن کیخلاف اٹھنے والی آواز سن لیجئے یہ آواز سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا شیرانی کی ہے جو دو ہفتے پہلے ہی اس عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں، یہ مولانا 32سال تک بلوچستان جے یو آئی ف کے صدرر ہے ، قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر آئین پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا اور آج اس ملک کیخلاف زہر اُگل رہے ہیں کہ یہ پاکستان جناح کا نہیں بلکہ یحیٰی خان کا بچایا ہوا ہے،میں مستقبل قریب میں اسکو پانچ ٹکڑوں میں بٹتے دیکھ رہا ہوں ۔ جس میں سندھ و پنجاب قومی وطنیت کی بنیاد ، پشتونستان اور بلوچستان نسلی بنیاد ، کراچی قومیت کی بنیاد پر الگ ریاست بنیں گے اور سی پیک حکمرانوں کی شعبدہ بازی۔ یہ مولانا اور انکی جماعت حکمران پارٹی کی حلیف ہے اور انہوں نے ہر موقع پر ہر حکومت سے اپنے مفادات حاصل کئے ۔ انکے اکابرین نے قیام پاکستان کی مخالفت کی ،آج اگر یہ کہہ رہے کہ یہ قائدکا پاکستان نہیںتو انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایسی وفاقی وحدت ہے جسے محض نسلی عصبیت سے آلودہ خیالات کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ آخر میں عوام کا حکمرانوں سے سوال ہے کہ وہ خاموش کیوں ہیںاور یہ لوگ جو ملک کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف ہیں کے خلاف غداری کا مقدمہ کیوں نہیں کیا جاتا ۔ کیا انہیںحکمرانوں کی پشت پناہی حاصل ہے؟
انور قدوائی — عملی صحافت کی تاریخ
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ادارہ جنگ کے ایڈیٹوریل سیکشن کے سینئر ساتھی شفیق مرزا اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ، اب اسی سیکشن سے وابستہ ہمارے سینئر بزرگ صحافی کالم نگار، سیدانور قدوائی بھی ہمیں چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملے ۔ قدوائی صاحب 25 سال تک نوائے وقت میں رپورٹنگ سے وابستہ رہے ، پھر انہوں نے 1996ء میں روز نامہ جنگ سے اپنی محبت کا آغاز کیا اور آخری دم تک یہ محبت نبھائی ۔ 23دسمبرکے روز بھی باقاعدہ آفس آئے اور ڈیوٹی کے بعد گھر واپس گئے تو انہیں دل کا دورہ پڑا اورجانبر نہ ہو سکے۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ موت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے جوانسان اس دنیا میں آیا ہے اس کو پلٹ کر خالق حقیقی کے پاس جانا ہے، یہ اُسی کی رضا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ اُنکی مغفرت کرے اور انہیںجوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ (آمین ) میں ایک بات یہاں شیئر کرنا چاہتاہوں کہ ادارتی سیکشن کا جو آفس ہے وہاں شفیق مرزا اور انور قدوائی صاحب بیٹھتے تھے ، جب شفیق مرزا صاحب وفات پاگئے تو انور قدوائی صاحب اُنکی کرسی پر نہ بیٹھتے کئی بار یہ بھی کہتے کہ مجھ سے یہاں بیٹھا نہیں جاتا۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ شفیق مرزا صاحب کی وفات کے بعد وہ بجھ سے گئے تھے، کہاں روزانہ اکٹھے دفتر میں بیٹھنا ، پھر اکٹھے رکشے پر جانا اور اب زیادہ وقت خاموش اور اُداس رہنے لگے اور آخرخاموشی ہی اختیار کر کے ہم سب کو اداس کر گئے!

.
تازہ ترین