• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور جو کبھی زندہ دلان کا شہر تھا، جہاں کی ہر تقریب کبھی بڑی یاد گار اور انمول ہوتی تھی۔ اب یہ شہر گند، گرد و غبار، روایات سے عاری اقدار سے عاری، اچھے لوگوں سے خالی شہر بن گیا ہے۔ صبح، شام کیا بلکہ ہر وقت اس شہر کے باسی لڑائی جھگڑا کرنے کے لئے آپ کو تیار ملیں گے۔ اس شہر کو چنگ چی اور موٹر سائیکلوں نے تباہ و برباد کردیا باقی کسر اورنج ٹرین نے پوری کردی۔یہ شہر ا س وقت زیادہ صاف ستھرا اور نکھرا نکھرا تھا جب یہاں تانگے چلا کرتے تھے، بارش ہوتی تھی تو شہر میں ایک سوندھی سوندھی خوشبو اور سارے شہر پر ایسا نکھار آتا تھا کہ گویا ابھی نیا نیا تعمیر کیا گیا ہو۔ اب بارش ہوتی ہے تو یہ شہر مزید گندا اور بدبودار ہوجاتا ہے۔ یہ ہے ہماری70برس کی منصبہ بندی کا نتیجہ۔چھوڑیں کیا دل جلانا۔ اس ہفتے ہم کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) جا پہنچے بلکہ ہم تو اس ادارے میں پچھلے چالیس برس سے بڑی باقاعدگی سے جارہے ہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ یہ ادارہ ہمارا اپنا ہے اور ہم یہاں زیر تعلیم رہے ہیں۔ اس اطالوی طرز کی عمارت اور عمارت کے اندر لکڑی کی سیڑھیوں سے ہمیں بہت پیار ہے۔یہ خدا کا شکر ہے کہ اس ادارے کو پروفیسر فیصل مسعود کی صورت میں ایک ایسا مسیحا ملا ہے جو اس کالج کے اصل تعمیراتی حسن اور اس کو عالمی سطح پر لانے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب موجودہ وائس چانسلر کی محنت سے یہ ادارہ دنیا کے بہترین اداروں میں شامل ہوجائے گا، اگرچہ بعض لوگ اس ادارے کی ساکھ خراب کرنا چاہتے ہیں، مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ اس کالج(اب یونیورسٹی) سےفارغ التحصیل افراد کی بڑی تعداد امریکہ میں نا صرف کام کررہی ہے بلکہ وہ ہر سال اپنے مادر علمی کی جس طرح خدمت کرنے آتے ہیں، وہ ایک قابل ستائش اور قابل تقلید ہے۔ ہم تو مدتوں سے یہ دیکھ رہے کہ یہاں کے فارغ التحصیل امریکہ سے آتے ہوئے مشینیں اور آلات بھی لاتے ہیں اور اس ادارے کے لئے کروڑوں روپے بھی دے کر جاتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں سے بیماریوں کے علاج اور سرجری کے حوالے سے جو بھی نئی تکنیک، ریسرچ اور طریقہ علاج سیکھتے ہیں اس سے یہاں کے ڈاکٹروں کو لیکچرز کے ذریعے آگاہ کرتے ہیں۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کا آغاز 1860ء میں لاہور میڈیکل اسکول کے نام سے ہوا تھا۔ اس مرتبہ اس یونیورسٹی میں ہونے والی دو تقریبات انتہائی قابل ذکر ہیں۔ پہلی تقریب کی انفرادیت یہ تھی کہ اس کے مہمان خصوصی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج(جب یہ کالج تھا) کے آخری پرنسپل اور جب یہ یونیورسٹی بنا تو اس کے پہلے وائس چانسلر نامور فزیشن پروفیسر ممتاز حسن (ستارہ امتیاز)تھے۔ پروفیسر ممتاز حسن نے اس کالج کو بڑ ی جدوجہد اور کوششوں سے یونیورسٹی کا درجہ دلایا۔ باہر سے آنے والے ا سٹوڈنٹس کا اپنے استاد کے ساتھ پیار اور احترام کو دیکھ کر ہم حیران رہ گئے یعنی پروفیسر ممتاز حسن نے جن ڈاکٹروں کو پڑھایا تھا وہ بھی اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں مگر جو انہوں نے عزت دی جو بیان سے باہر ہے۔ دوسری تقریب اور بھی منفرد اور زبردست تھی۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی کالج کے91سالہ سابق پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر خواجہ صادق حسین تھے جو پروفیسر ممتاز حسن کے بھی استاد ہیں یعنی ایک ایسی تقریب جس میں دادااستاد نے شرکت کی، ناصرف شرکت کی بلکہ ماشااللہ بڑی طویل تقریر بھی کی۔ ڈاکٹر خواجہ صادق حسین کی باتوں میں جو اثر تھا اور جو گہرائی تھی وہ واقعی محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر خواجہ صادق حسین نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں1944میں ہندوستانی شہری کی حیثیت سے داخلہ لیا اور 1949میں پاکستانی ڈاکٹر کی حیثیت سے ایم بی بی ایس کیا۔ یہ ایک منفرد اعزاز ہے اسی طرح اس کالج کے ایک قدیم طالبعلم ڈاکٹر رشید اعرابی کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے1929ءمیں کے ای ایم سی سے ایم بی بی ایس کیا اور1930ءمیں بی ڈی ایس کیا۔ وہ پہلے ہندوستانی ڈاکٹر تھے جنہوں نے ایم بی بی ایس کرنےکے بعد پی ڈی ایس کیا اور 59سال تک لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں پریکٹس کی اور اپنے کلینک پر عام بیماریوں کے مریضوں کے علاوہ دانتوں کا علاج بھی کرتے تھے اور ڈینٹل چیئر بمعہ سازو سامان کے رکھی ہوئی تھی اور پانچ سال تک کالج کے بہترین اتھلیٹ رہے اور کالج کے سو سالہ جشن میں وہ مہمان خصوصی تھے اس سو سالہ جشن کی ہم نے کوریج بھی کی تھی۔جو بات ہم یہاں پر خاص طور پر بیان کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ1944سے1947تک کا زمانہ ایسا تھا جب تحریک پاکستان عروج پر تھی قتل و غارت، لوٹ مار ہورہی تھی مگر کے ای ایم سی میں پڑھائی کا کوئی شیڈول متاثر نہیں ہوا۔ وہاں کے طلبا نے پانچ برس میں ہی ڈاکٹری کا امتحان پاس کیا۔ہماری بات جب پروفیسر خواجہ صادق حسین سے ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے زمانے میں ہڑتال کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ہم نے میو اسپتال کے وارڈز میں آنے والے زخمی قافلوں کی مرہم پٹی بھی کی۔ نائٹ ڈیوٹی بھی کی، کسی طالبعلم نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ امتحانات ملتوی کردو یا حالات خراب ہیں ہم کونہیں پڑھنا۔ اب تو ڈاکٹر بات بات پہ ہڑتال کردیتے ہیں ایسا ہمارے زمانے میں کبھی نہیں ہوا تھا۔
ہمارے خیال میں والی ڈی اے کو اپنے ان بزرگ اساتذہ سے کچھ تو تربیت لینا چاہئے۔ یہ سینئر اساتذہ بڑا قیمتی اثاثہ ہیں ہم یہاں پر کے ای ایم یو کی انتظامیہ سے درخواست کریں گے کہ وہ کچھ عرصہ بعد ان سینئر اساتذہ کو اپنے ہاں بلا کر ان ینگ ڈاکٹروں سے مکالمہ کرایا کریں شاید کہ اتر جائے ان کے دل میں کوئی بات اور یہ رحم کھائیں مریضوں پر۔
لیںجی پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بھی مدتوں سے ترقی کا انتظار کرتے کرتے اور بوڑھے ہونے کے قریب قریب اپنے کانسٹیبلز، ہیڈکانسٹیبلرز، اے ایس آئی، ایس آئی، انسپکٹر اور ڈی ایس پی صاحبان کا پروموشن کردیا ہے۔695کانسٹیبل کوہیڈ کانسٹیبل، 94ہیڈ کانسٹیبل کو اے ایس آئی، 26اے ایس آئی کو سب انسپکٹر اور 40 سب انسپکٹر کو ڈی ایس پی اور 17ڈی ایس پی کو ایس پی کردیا گیا۔ پنجاب میں لاہور پہلا ضلع ہے جس میں پرموشن بورڈ نے اتنی زیادہ ترقیاں دی ہیں۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے تمام اضلاع کے افسروں کو ہدایت کی ہے کہ اگر ان کے ہاںاے سی اوز اورپرموشن بورڈ ہر وقت نہیں ہوں گے تو وہ ان افسروں کی اے سی اوز نہیں لکھیں گے۔ دوسری جانب ایس ایس پی ایڈمن نے سپاہیوں کی مشکلات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ کسی بھی پولیس کے سپاہی اور ہیڈ کانسٹیبل کی ترقی نہیں رکے گی جو انتظامی صلاحیتوں کے باعث بہت اچھی شہرت رکھتے ہیں۔
اس وقت لاہور میں سی سی پی او ایک مدت سے پولیس ملازمین کی ویلفیئر اور خصوصاً شہدا کے خاندانوں کے لئے کئی ویلفیئر کے کام کررہے ہیں جو واقعی قابل ستائش ہے اگر لاہور میں دو ماہ میں تین پرموشن بورڈ ہوسکتے ہیں تو باقی اضلاع اور صوبوں میں کیوں نہیں ہوسکتے۔

.
تازہ ترین