اب پھر 27؍دسمبر آرہی ہے، مجھے اپنی نظم تمہاری رخصتی پر یاد آرہی ہے، ’’چار کہار تری ڈولی اٹھائے/ کس گھر جاوت ہیں/ تو تو گھر کی رانی تھی کیوں مٹی ڈالت ہیں/ وہ آنکھیں جنہیں دنیا جانے، وہ آنکھیں جنہیں دنیا پوجے، بند کراوت ہیں۔‘‘بی بی بینظیر! جب تم شہید ہوئی تھیں، اس وقت میں نے اس کو تمہاری رخصتی کہا تھا، تم نے جاتے جاتے جو ان ہوتے ہمارے بچے بلاول کو ایک دم سنجیدہ کردیا تھا، معلوم نہیں تمہاری وصیت میں کیا کچھ لکھا تھا، مگر یہ تو نہیں لکھا تھا کہ پڑھتے پڑھتے نوجوان اس سیاست کی اوکھلی میں سر دے بیٹھے جہاں نہ لوگوں کو اپنی عزت کروانی آتی ہے اور نہ دوسروں کو عزت سے بلا سکتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے تم نے سیاست کی منافقیں اپنی نوجوانی میں اس وقت سے دیکھنی شروع کردی تھیں جب تمہیں سکھر جیل میں قید کیا گیا تھا، رہا ہونے کے بعد، تم لندن گئیں، تمہارے کان میں تکلیف تھی، وہاں جس شخص نے تمہاری دلداری کی اس کو دیکھ کر تم متاثر ہوگئی تھیں، تم خوبصورت تھیں، ذہین تھیں، اعتماد والی اس خاتون نے دلداری کرنے والے شخص سے شادی کی، تمہاری شادی کے دعوت نامے کے باعث سات سال سے جلا وطن فہمیدہ ریاض کو اس کی فیملی سمیت ہمارے سفارت خانے نے ذرا دیر نہیں لگائی اور سب کیلئے پاسپورٹ جاری کردیئے، یہ وہی فہمیدہ ریاض ہے کہ میں جب دلی گئی اور وہ مجھ سے میرے شوہر کی ناگہانی موت پر تعزیت کرنے روتی ہوئی آئی تھی تو ہمارے سفارتخانے نے، فوری اطلاع دی تھی کہ کشور ناہید، پاکستان سے نکالی گئی فہمیدہ ریاض سے مل رہی ہے۔
بی بی بینظیر! شادی کے کچھ عرصے بعد تم نے ہرا جوڑا پہنا اور مسکراتی ہوئ، وزارت اعظمی کا حلف اٹھانے اسٹیج پر آئیں میں چونکہ تم سے تجربے اور عمر میں بڑی تھی، مجھے تمہارا ایسا موڈ اچھا نہیں لگا، میں غلط تھی، تم تو مسلم دنیا کی پہلی وزیراعظم تھیں، تم نے سرڈھکنا کیا شروع کیا، میرے ملک کی جو عورت بھی سیاست میں آئی اس نے سرضرور ڈھکا، تمہارے ساتھ ناہید خان ہوتی تھی، وہ تمہارا ہر طرح سے خیال رکھتی تھی، بھٹو صاحب کی برسی پر جب تم گڑھی خدا بخش میں جلسہ کرتی تھیں تو کھانے کے دوران، جھولی پھیلائے، وہ بھٹو صاحب کے مزار کی عمارت کے لئے، تمہارے ممبران اور وزیروں سے چندا مانگتی تھی، یہ تو تمہاری وصیت میں نہیں لکھا تھا کہ میرے مرنے کے بعد، ناہید خان کو بھی الگ کردیا جائے، مگر ہوا یونہی، تم نے اپنی زندگی میں فہمیدہ اور مجھے نئی پوسٹوں پر لگایا اور جہاں کہیں مرد افسروں نے ہمیں تنگ کرنے کی کوشش کی تو شہناز وزیرعلی نے بڑھ کر،ان لوگوں کو منہ توڑ جواب دیا۔
مجھے یاد ہے تم بیگم بھٹو کے ساتھ بی ایم کی گیلری میں پینٹنگز کی نمائش دیکھنے ضرور جاتی تھیں، تمہیں تو خبر بھی نہیں ہوگی کہ جب بھٹو صاحب وزیراعظم تھے تو گورنر ہائوس لاہور میں کبھی شاکر علی تو کبھی فیض صاحب کے ساتھ شام کو کافی پیا کرتے تھے، وہ دراصل تمہاری تربیت میں فن کو سمجھنے اور احترام کرنے کا سلیقہ شامل کرنا چاہتے تھے، شاید اسی سبب جب تم دوسری دفعہ وزیراعظم بنیں تو تم نے بی ایم کی ہچکیوں کا علاج کرنے کیلئے بی ایم کو کلچرل منسٹر بناکر آسٹریلیا، بھیج دیا تھا۔ اس نے کونسا علاج کروانا تھا، اور بھی زیادہ پینے لگا تھا، واپس آیا کچھ عرصہ اپنے فلیٹ میں رہ کر خاموشی سے ساتوں رات چلا گیا۔بی بی بینظیر! مجھے یاد ہے جب تم بلاول کو بغل میں لئے جہاز سے اتر رہی تھیں تو ساری دنیا کے اخباروں نے تمہاری یہ تصویر بڑے افتخار کے ساتھ شائع کی تھی کہ پاکستان کی وزیراعظم نے ا پنے بیٹے کو خود اٹھایا ہوا ہے، مجھے وہ تصویریں یاد ہے جب تم کراچی جیل کے باہر کسی اینٹ پر بچوں کو لئے بیٹھی تھیں کہ تم زرداری صاحب سے بچوں کو ملوانے لائی تھیں، تم ملک کی وزیراعظم دو مرتبہ رہیں مگر گھر میں ہرطرح کا دکھ سکھ اٹھایا اور اپنے تک رکھا، جب آصفہ کو پھل بیری ہوگئی تو تم نے پریشان ہوکرانڈیا، پاکستان ہی کیا، ساری دنیا کے ہومیوپیتھک، آیورویہ کے نسخے اور دوائیاں استعمال کیں، تم دبئی میں تھیں، جو کوئی میرا جیسا بھی تم سے ملنے آتا، اس سے آصفہ کے علاج کیلئے بڑی دلسوزی کیساتھ بیان کرتیں، اب میں آصفہ کو دیکھتی ہوں، بھرپور اعتماد کیساتھ چلتے ہوئے اور کام کرتے ہوئے، تو تم پھر یاد آجاتی ہو۔
بی بی بینظیر! تم نے جوانی ہی میں اپنے تمام ’’انکلز‘‘ کی بے وفائی دیکھ لی تھی، جب پہلی مرتبہ وزارت ختم ہوئی اور جب دوسری مرتبہ ختم ہوئی، تو طوطا چشمی کرنے والے سیاست دانوں کو نزدیک سے دیکھا، دل تو دکھتا تھا مگر اس کا اظہار کم کرتی تھیں، تم نے عدالتوں کو بھی اپنے ساتھ اچھا سلوک کرتے نہ دیکھا، اس پر بولیں بھی، دوسری دفعہ الیکشن سے پہلے تم جس حالت میں تھیں، پھر بھی خود اعتمادی کے ساتھ لاہور میں سیڑھیاں چڑھ کر اسٹیج پر پہنچی تھیں ہم سب عورتیں ہاتھ اٹھا کر دعائیں تمہاری صحت کیلئے کر رہے تھیں۔
مگر جب تم جانے لگیں،اس دن تم جامنی رنگ کے سوٹ اور بے شمار گتھے ہوئے پھولوں کے ہار پہنے، بہت خوبصورت لگ رہی تھیں، تم اتنی خوش تھیں کہ بغیر کسی کے کہے گاڑی کی چھت کھول کر عوام کے سامنے ہاتھ ہلانے لگیں، وہ آخری ہاتھ، تھوڑی دیر میں خون میں لت پت نیچے ڈھلک گیا، پورے میں میں آہ وبکا تھی، تم نے جاتے وقت بھی یہ نہیں یتایا کہ تم نے وصیت کیوں لکھی، یہ سوال مجھے آج بھی تنگ کررہا ہے۔
.