• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ جانتے ہیں کہ ’’ملاوٹ‘‘ میرے مرغوب ترین موضوعات میں سے ایک ہے۔ بھاری اکثریت کے برعکس میں نے اسے ’’قبول‘‘ نہیں کیا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ نسلیں تباہ کر دینے والی لعنت ہے۔ یہ قوم کو اندر سے گلانے سڑانے اور سلو پوائزن کے ذریعہ تل تل موت کے گھاٹ اتارنے کے مترادف ہے۔ یہ باقاعدہ حملے اور اسلحے کے بغیر قتل عام ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی یہ رپورٹ لرزا دینے والی ہے کہ صرف پنجاب میں 44فیصد بچے مناسب جسمانی نشوونما سے محروم ہیں، 62فیصد بچوں میں فولاد، 39فیصد میں زنک کی کمی ہے۔ خواتین میں زنک، آئرن اور فولک ایسڈ کی کمی کا تناسب 39سے 51فیصد ہے جبکہ مجموعی آبادی 64سے 59فیصد وٹامن اے اور ڈی کی کمی کا شکار ہے۔ کیا ہم لوگ اس بھیانک حقیقت سے واقف ہیں کہ ایسے اجزاء کی غیر موجودگی قوت مدافعت میں کمی، بڑھوتری میں سست روی، بھوک کے خاتمہ، سانس کی بے قاعدگی، پیلاہٹ زدہ جلد، سستی تھکاوٹ، رویوں میں بگاڑ، نیند میں کمی اور ذہنی تنائو کا باعث بنتی ہے۔ صرف ’’رویوں میں بگاڑ‘‘ اور ’’ذہنی تنائو‘‘ کے حوالہ سے ہی دیکھیں تو ہمارا معاشرہ اس کا شہکار نظر آتا ہے۔ اول تو عام آدمی کو مناسب اور متوازن خوراک ہی نصیب نہیں کیونکہ وہ محدود آمدنی اور لامحدود مہنگائی کی وجہ سے افورڈ ہی نہیں کر سکتا لیکن بدقسمتی کی انتہاء دیکھیں کہ جو افورڈ کر سکتے ہیں، وہ بھی اکثر و بیشتر زہر اور غلاظت ہی کھانے پر مجبور ہیں۔ ان کے فرشتوں کو بھی اندازہ نہیں کہ وہ اور ان کے بچے کیا کچھ نوش جان فرمانے پر مجبور ہیں۔ میں اکثر دودھ میں ملاوٹ پر ماتم کرتا ہوں تو ذرا غور فرمایئے یہاں جسے ’’دودھ‘‘ سمجھا جاتا ہے، بیشتر وہ ’’دودھ‘‘ ہوتا ہی نہیں حالانکہ بنیادی طور پر بچوں کی غذا ہے۔ دودھ میں پانی کی ملاوٹ کرنے والے تو ’’فرشتے‘‘ ہیں ورنہ یہ درندے، بھیڑیئے تو WHEY POWDER،نمک اور ویجی ٹیبل فیٹس کی ملاوٹ سے جعلی دود بیچ رہے ہیں۔ دودھ سے کریم نکال کر غذائیت سے عاری دودھ کی فروخت عام ہے، دودھ میں یوریا کھاد ملا کر گاڑھا کرنا یا THICKER AGENTاستعمال کرنے کی پریکٹس بھی عام ہے۔ گوشت کی دکانوں پر بھنبھناتی مکھیاں، دیگر حشرات الارض کو چھوڑیں، اس میں پانی انجیکٹ کر کے وزن بڑھانے کو بھی نظر انداز کر دیں لیکن جب موذی امراض کا شکار جانور، ذبح کر کے بیچا جاتا ہے تو وہ آپ کے ساتھ کیا کرتا ہو گا؟ کتے، گدھے اور چوہے کے علاوہ مردہ جانوروں کا گوشت اور پھر ان کی آلائشوں سے کوکنگ آئل تک کی تیاری اور پھر اس ’’پاکیزہ گوشت‘‘ اور کوکنگ آئل کے پہلو بہ پہلو مصالحہ جات جن میں لکڑی کے رنگین برادے، اینٹوں کی خاک اور جانوروں کا چوکر تک استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فوڈ گریڈ رنگوں کی بجائے مضر صحت رنگوں کا استعمال بھی بہت مقبول ہے۔ رہ گئے مشروبات تو عموماً ان کی تیاری میں پیسے بچانے کے لئے کم اجزاء پر اکتفا کیا جاتا ہے بلکہ کثافت کی مقررہ مقدار کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔ نام نہاد جوس کے محلول میں پھل کی مقدار کم، مصنوعی اجزاء کا استعمال کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ مصنوعی رنگوں کو ترجیح دی جاتی ہے تاکہ شرح منافع میں اضافہ کیا جا سکے، چینی اور سکرین کا عام استعمال، محلول میں دھاتی ذرات ہی نہیں مائیکرو بائیولوجیکل ذرات کی موجودگی بھی عام ہے۔ اب چلتے ہیں نام نہاد ’’دیسی گھی‘‘ کی طرف جس میں ویجی ٹیبل فلور کی ملاوٹ ہوتی ہے یا کوکونٹ آئل استعمال کیا جاتا ہے۔ آئس کریم کی تیاری میں کنڈینسڈ ملک، مکھن کی بجائے ویجی ٹیبل فیٹ ضروری ’’ایسی این ایف‘‘ کی کمی، غیر معیاری یا مصنوعی دودھ کا استعمال بھی عام ہے۔ بچوں کی فیورٹ ٹافیوں، گولیوں، چاکلیٹ کی تیاری میں جیلاٹن کھٹے پھلوں کی بجائے کیمیکلز کا استعمال، ویجی ٹیبل فیٹ، کینسر کا سبب بننے والے رنگ، ناقص، جعلی مصنوعی دودھ کا استعمال بھی بہت ’’مقبول‘‘ ہے۔ ویجی ٹیبل فیٹ اور پائوڈر ملا کر خشک دودھ بنایا جاتا ہے (پائوڈر بھی دو نمبر سب سٹینڈرڈ) مصنوعی ڈائی، رنگ اور بھوسے سے چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے بھی استعمال ہوتے ہیں اور استعمال شدہ پتی کو بھی ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ عام آٹے سے تمام صحت بخش اجزا میدہ، سوجی، فائبر نکالا جا چکا ہوتا ہے۔ شہد کی تیاری میں گلوکوز اور شوگر سیرپ کا استعمال عام یا شہد کی پالتو مکھیاں گڑ کے گند پر پالی جاتی ہیں اور ’’کیچپ‘‘ کا تو جواب ہی نہیں جسے ضائع شدہ گاجر، کدو اور سیب سے تیار کیا جاتا ہے اور بذریعہ کیمیکل ٹماٹر کا مصنوعی ذائقہ پیدا کرتے ہیں اور گاڑھے پن کے لئے آٹا۔ خوفناک ترین حرکت کی ٹی وائیٹنر (TEA WHITNER)نباتاتی چکنائی اور سکمڈ ملک میں چینی ڈال کر بنایا جاتا ہے۔ ایک طویل قابل نفرت پراسیس سے گزر کر تیار ہونے والا یہ دودھ ۔۔۔ نہ دودھ ہے نہ اس کا متبادل۔ خشک دودھ سے چائے بنانے والے اس محلول میں آکسیڈائزڈ کولیسٹرول (خطرناک ترین قسم) شامل ہوتا ہے جو خون کی روانی میں خلل کا باعث بنتا ہے۔ قارئین! میں نے یہ چند بنیادی معلومات ’’پنجاب فوڈ اتھارٹی‘‘ کا ایک اشتہار پڑھ کر اکٹھی کی ہیں جس کا عنوان تھا۔ ’’ٹی وائٹنر، فروزن ڈیزرٹ اور مارجرین بنانے والی کمپنیز متوجہ ہوں‘‘ یہ اشتہار کسی ہارر فلم سے کم نہیں بشرطیکہ، کسی کو سمجھ آ جائے ’’پنجاب فوڈ اتھارٹی‘‘ جہاد اکبر میں مصروف ہے کہ عوام اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں اور صحت کی حفاظت سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے؟کاش ہمارے مذہبی، سیاسی اور فکری رہنما بھی اس پر فوکس کریں کہ صرف سیاسی اشرافیہ ہی نہیں۔ ہمیں اور بہت سے عوام دشمنوں کے نرغے سے بھی نکلنا ہے اور ان کی ہوس زر سے اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ کرنا ہے۔

.
تازہ ترین