• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یونانی کہاوت ہے کہ "قانون" مکڑی کا وہ جالا ہے جس کےجال میں صرف چھوٹے اور کمزور حشرات نما انسان ہی پھنستے ہیں جبکہ امیر اور طاقتور آدمی اس کو پھاڑ کر نکل جاتا ہے، شاید یہ فقرہ آپ نے پہلے بھی سن رکھا ہوگا لیکن اسکا دوسرا پہلو سنئے، بے لگام رہنے کی عادی ریاستوں میں "قانون" نافذ ہی دراصل غریب اور بےقدر آدمی کے لئے کیا جاتا کیونکہ دو اہم بنیادی مقاصد ہوتے ہیں "غریب بغیر اشتعال و مطالبے کے زندگی گزارتا رہے اور بہتر یا بڑا بننے کی بجائے اپنے حد وقد میں رہے جبکہ دوسرا مقصد ہوتاہے کہ بااثر اور طاقتور کو تحفظ ملتا رہے"
قارئین کرام، یوں تو وطن عزیز میں ہر روز نئے سانحات اور حادثات معمول ہیں لیکن جس واقعہ کا ذکر آج میں کرنے جارہا ہوں سمجھ نہیں آرہی کہ اس کو حادثہ کہا جائے یا سانحہ، لیکن اگر سچ کہاجائے تو اس نے "قانون کی حکمرانی" کی ایک عظیم مثال ضرور قائم کردی ہے، معاشرہ ویسے بھی احساس محرومی اور بے حسی کےہاتھوں لاچار ہوچکا ہے اوپر سے کرپشن کےخاتمے کے ذمہ دار ادارے"نیب" نے چند ماہ پہلے کئی دنوں تک میڈیا کی زینت بننے والے کرپشن کے ایک اور اندوہناک کیس کو "پلی بارگین" کی نذر کردیا۔ افسوسناک اور خطرناک پہلو یہ کہ جس ملک میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا عوام بالخصوص نئی نسل کو ہرمعاملے پر ضرورت سے زیادہ باخبر کررہاہے وہاں گھر کی الماریوں، بیڈز، خفیہ درازوں، گاڑی کی سیٹوں سمیت ہر جگہ ’’کرارے‘‘ نوٹوں کی گڈیاں برآمد ہونے کےواقعہ کو محض 2ارب روپے لےکر’’حق حلال‘‘ کی کمائی ثابت کردینے نے نئے سوالات کھڑے کردئیے ہیں، کسی نے تو یہ تک کہہ دیاکہ اگر یہ ڈیل 2 ارب ڈالر کی ہوتی تو عوام کے دلوں پر یہ بجلی کی بجائے محض خبر ہی بن کرگرتی، عوام کی بے دردی سے لوٹی گئی دولت کے رنگے ہاتھوں پکڑے گئےذمہ داروں کی ’’باعزت‘‘ خلاصی کے’’سودے‘‘ نے نام نہاد آزاد و خودمختار اداروں ہی نہیں جمہوریت نما چہرے والے نظام پر بھی ’’کالک‘‘ مل دی ہے۔ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے اپنے 7 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈے میں سب سے پہلے احتساب کا نعرہ لگایا اور اس کی خاطر’’نیب ‘‘ کا ادارہ قائم کیا، نیب آرڈیننس میں ’’پلی بارگین‘‘ کی شق رکھی گئی جس کےتحت بڑی کرپشن کرنے والے بااثر افراد کو لوٹی دولت کا کچھ حصہ دے کر باعزت رہائی مل جاتی ہے، اس قانون بنانے کی معاونت میں شریک مشرف کےایک قریبی ساتھی اورموجودہ سینیٹر کہتے ہیں کہ ’’پلی بارگین‘‘ کی شق کئی ملکوں میں موجود ہے اور پاکستان میں نفاذ اسلئے کیا گیا کہ طاقتور شخص کرپشن میں پکڑنے جانے کے بعد تفتیش اور انصاف کےکمزور نظام کےباعث سزا سے بچ نکلتاہے لہٰذا بہتر ہےکہ کیس لڑنےپرمزید لاکھوں خرچ کرنے کی بجائے، ’’لٹیرے‘‘ سے ہی ڈیل کرکے لوٹی دولت کا کچھ حصہ لے لیا جائے تاکہ قوم وملک مزید کسی نقصان سے بچ جائے، قارئین یہ ’’لاجک‘‘ یقیناً آپ کو پسند آئی ہوگی ایک سوال یہ بھی کہ ’’جمہوریت‘‘ کی بحالی کےبعد5 سال اقتدار میں رہنے والی، ڈکٹیٹر کےکالے قوانین کا خاتمہ کرنے کی دعویدار پیپلزپارٹی نے اس کالے قانون کا خاتمہ کیوں نہیں کیا، ساڑھے تین سال سے برسراقتدار ’’ایماندار و مقبول‘‘ حکمران مسلم لیگ ن نے کیوں اس شق کوختم نہیں کیا؟ شاید ’’جمہوری نظام‘‘ اور’’عوامی مفاد‘‘ کو خطرہ ہوسکتاہے،،
قارئین (Plea)کی لفظی مطلب ہوتاہے کہ موقف اپنانا یا دینا، لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ واضح ثبوتوں کے ساتھ پکڑا گیا مجرم اسی اندھا دھند لوٹی گئی دولت کا ہی کچھ حصہ دے کر رہائی پاجائے اور قوم کی نظروں میں بے گناہ ثابت کردیا جائے، نیب کی موجودہ بھرپور اور سخت ’’کارروائی‘‘ نے چھوٹے بچوں اور طلباء کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے، ایسا ملک جس کی تمام تر امیدیں موجودہ پچاس فی صد نوجوان آبادی سے وابستہ ہیں انہیں اس طرح کے’’انصاف ‘‘کاعملی نمونہ پیش کرنا ملک کےمستقبل کو تباہ وبرباد کرنے کی سفاک حرکت سے کم نہیں، لیکن بدقسمتی سے تویہاں تو معاملہ ہی کچھ الٹ ہے، بجائےاس فیصلے پرشرمندہ ہوا جاتا یا کم ازکم نظرثانی کی جاتی نیب کے ’’طاقتور‘‘ حکام کہتے ہیں کہ فیصلہ قانون وانصاف کےمطابق ہے اور ’’اب یہ افراد معاشرے میں منہ دکھانے کےقابل نہیں رہیں گے‘‘ کاش کوئی وضاحت کرے کہ وطن کی ’’خدمت ‘‘ کرنے والےیہ افراد منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے یا پورا معاشرہ ان کو ان کی ’’گرانقدر‘‘ خدمات کے باعث منہ دکھانے کےقابل نہیں رہے گا؟ عام طور پر کہا جاتاہےکہ ہرشخص کو اس کےکئے کی سزا ملتی ہےجتنا بڑا جرم اتنی بڑی سزا اور وحدہ ہو لاشریک اللہ پاک کا بھی وعدہ ہےکہ وہ اپنے حوالے سے گناہوں کو معاف کرسکتا ہے لیکن انسان کے دوسرے انسان پرکئے گئے ظلم وزیادتی کےمعاملے میں معافی نہیں دلواسکتا، پھر ہر ذی شعور دل ودماغ مطمئن ہونے کی بجائےکیوں سراپا سوال ہےکہ ہم کسی بھوکے شخص کو ایک روٹی چرانے پر تو مار مار کر لہولہان کرکے انصاف کے تقاضے پورے کردیتے ہیں، ایک پائوں سے ننگے شخص کو جوتے چرانے جیسے کئی چھوٹے جرائم پر ساری سزائیں اور قضائیں لاگو کرنا لازم اور فرض سمجھتےہیں لیکن انصاف کے حقیقی نظام اور زندگی کے ہر شعبےمیں فرض شناسی کےتصور کو نہیں اپنانا چاہتے، کیوں ہم دوسروں کو انصاف کی بھینٹ چڑھا کر خود کو انصاف سے بچانا چاہتے ہیں خود کو پوچھ گچھ کےعمل سےہی مبرا سمجھتےہیں؟ کیوں ہم مسند اقتدار کو محض اپنے تحفظ اور دوسروں کو جوابدہ بنانے پر مصر رہتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب شاید کوئی نیا جواز ہی ہوسکتا ہے، عوام کی آنکھوں میں انصاف اور احتساب کے نام پر محض دھول جھوکنا ہی مقصود ہے تو پھر ذرا ایک نظر ادھر بھی،، کیوں نہ عوام کے زخموں پر مرہم کی خاطر ہی سہی کچھ مزید ’’پلی بارگین‘‘ کی جائیں، کیوں نہ 700سو ارب کے معاف کرائے گئے قرضوں کی واپسی، ملک کی تقریبا 50فی صد سے زائد بااثر افراد کے زیرقبضہ قیمتی ترین اراضی کی ملکیت کی واپسی، کوڑیوں کےدام بکنے والے قومی اداروں کی واپسی، جمہوریت کےنام پر عوام کے سلب کئےگئے حقوق کی واپسی اور پھر سب سے آخر میں ان کی زندگیوں کےتحفظ کےلئے اور کچھ نہیں کرسکتے تو ’’پلی بارگین‘‘ کرلیں، کیوں نیب تو وہی کررہاہے جو آپ اور ہم سب، پہلے ہی کررہےہیں، اب سوشل میڈیا پر ایک طنزیہ مسیج کے ذریعے چیئرمین نیب کو خط لکھ کر پوچھا جارہاہے کہ ’’درخواست گزار اربوں روپے کی کرپشن کرنا چاہتاہے وہ نیب کےممنون ہوں گے اگر پلی بارگین کی ایڈوانس ادائیگی کے لئےبطور حصہ مطلوبہ رقم کے بارے میں پیشگی آگاہ کردیاجائے‘‘ تاہم میری نظر میں نیب کا کردار ایک فیکٹری مزدور کو پیش آنے والی صورت حال سےزیادہ مختلف نہیں جب وہ ایک سستے کھانےکے ہوٹل پہنچتا جہاں ہوٹل کی طرف سے (plea) لکھا ہوتا ہےکہ یہاں کباب کے لئےمرغی اور گائے کاگوشت 50/50 استعمال ہوتا ہے۔ مزدور بل ادا کر کے حیران ہو کر بیرے سےپوچھتاہےکہ مرغی کی قیمت زیادہ اور وزن محض ایک یا دوکلو جبکہ گائے کے گوشت کی قیمت کم جبکہ وزن کئی من ہوتا ہے، یہ کیسی ڈیل ہے؟ بیرا کہتاہےکہ صاحب ہماری بارگین یہی ہے اسی لیے کھانا بھی سستا ہے، دراصل ہم 50/50 فارمولے کے تحت ایک ہی مرغی اور ایک ہی گائے کا گوشت کبابوں کےلئے استعمال کر تے ہیں۔۔۔۔۔!

.
تازہ ترین