• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تانگے والا آواز لگا رہا تھا صدر…… صدر……! لیکن یہ ذہن میں رکھئے گا کہ یہ پریذیڈنٹ والا صدر نہیں بلکہ علاقے والا صدر ہے جو ہر بڑے شہر میں ہوتا ہے، جی تو تانگے والا آواز لگا رہا تھا صدر…صدر…! کہ قدرے فاصلے سے ایک
بھاری بھرکم جسم والی سواری نے تانگے والے سے صدر جانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کرایہ پوچھا تو کوچوان نے جواب دیا جناب ویسے تو ہم 10روپے سواری لیتے ہیں لیکن آپ سے سو روپے لوں گا ، بھاری بھرکم سواری جو اب تانگے کے قریب آچکی تھی نے احتجاج کرتے ہوئے کہاکہ یہ زیادتی ہے کہ ویسے 10روپے سواری اور مجھ سے سو روپے ، کوچوان نے سواری کو ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا، بھائی صاحب بھائی صاحب ایک تو آپ کو لے جانے کیلئے ایک نہیں کئی پھیرے لگانے پڑیںگے اور دوسرا آپ کو آگے ہونے سے اس لئے روک دیا ہے کہ اگر گھوڑے نے آپ کو دیکھ لیا تو وہ 500روپے میںبھی لے جانے پر راضی نہ ہوگا ، اور باقی سواریاں بھی اتر جائیںگی، یعنی ایک سواری سب پہ بھاری۔
محترم آصف علی زرداری جو 23دسمبر کو اٹھارہ ماہ ’’جلاوطن علاج‘‘ کے بعد وطن واپس آئے تھے اور ان کی پارٹی اور خصوصاً ان کے نور چشم میاں بلاول بھٹو زرداری نے یہ طبل بجا رکھا تھا کہ 27دسمبر کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا دن ہوتا ہے ان کے مزار کے باہراہم اعلان کرینگے اور پھر دما دم مست قلندر ہوگا، اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو ’’لگ پتہ‘‘ جائے گا ، شروع میں آپ کو تانگے والا ایک چٹکلا بتایا ہے اب ایک اور چٹکلہ بھی پڑھ لیجئے ، ایک ڈرائیور نے اپنے ہیلپر جسے ہم عرف عام میں کنڈکٹر کہتے ہیں کو بلایا اور اسے یہ خوشخبری سنائی کے بیٹا آج سے تمہاری ترقی اور تم آج سے کنڈکٹر کی بجائے ڈرائیور کے عہدے پر کام کروگے ، کنڈکٹر بیچارے نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ لیکن جناب۔۔! میں تو گاڑی چلانا جانتا ہی نہیں ہوں تو ڈرائیور نے کنڈکٹر کو خاموش رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ بیٹا تمہیں صرف ڈرائیور کا عہدہ دے رہا ہوں چلانے کیلئے گاڑی نہیں، گاڑی تو میں خود ہی چلایا کروںگا، ایک زرداری سب پہ بھاری جو پیپلزپارٹی کے کہنے کو تو چیئرمین ہیں اور گزشتہ کئی ہفتوں سے ایڑیاں اٹھا اٹھا کر زور لگا رہے تھے کہ اگر ہمارے چار مطالبات نہ مانے گئے تو ’’ لگ پتہ ‘‘ جائے گا، اور ان کی پارٹی کے عہدیدار جو یہ عندیہ دے رہے تھے کہ بلا ول بھٹو لاڑکانہ سے الیکشن لڑنے کے بعد خورشید شاہ کی جگہ اپوزیشن لیڈر ہونگے ، ایک زرداری سب پہ بھاری نے خود بھی الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے بلاول بھٹو کو یہ باور کرادیا ہے کہ ابھی پیپلزپارٹی کی سیاسی گاڑی وہ خود چلائیںگے، بلاول کو محض ڈرائیور کا عہدہ دیا گیا ہے ، ظا ہر ہے الیکشن جیتنے کے بعد خو د اپوزیشن لیڈر بن کر سابق صدر جناب آصف علی زرداری وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے زیادہ قریب ہوجائینگے ، خیر قریب تو وہ پہلے بھی ہیں لیکن اب قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف والی قربت ہوگی اور دونوں بڑی سیاسی شخصیات ملک کی’’ بہتری‘‘ کیلئے مل کر آئینی فیصلے کریںگی اور ہوسکتا ہے کہ دونوں جب قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے بیٹھیں تو’’ کچھ لو کچھ دو‘‘ کی پالیسی کے تحت اہم جمہوری اور سیاسی فیصلے بھی ہوں، اور ان فیصلوں کے تحت کچھ لوگوں کی رہائی عمل میں لائی جائے کچھ تعیناتیاں ہوں گی اور جمہوریت بہترین انتقام ہے کہ تحت اس ملک کے عوام کو کچھ مزید ’’لالی پاپس‘‘ دے دیئے جائیں گے تا کہ عوام اگلے الیکشن تک انہیں چوستے رہیں اور ان لالی پاپس کا نہ رنگ خراب ہوا اور نہ ہی یہ گھلیں۔میری پیپلزپارٹی کے ایک رہنما سے بات ہوئی جو یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ صرف 27دسمبر کا انتظار کریں پھر آپ دیکھیں گے کہ سیاست کیا ہوتی ہے اور حکومت کس طرح نہ صرف ہمارے پائوں پکڑے گی بلکہ اس کا دھڑن تختہ بھی ہوجائے گا، میرے رابطے پر کہنے لگے بالکل میں اپنی بات پر قائم ہوں ہم وزیر داخلہ چوہدری نثار کا استعفیٰ لے کر چھوڑیں گے چاہیے حکومت کے ذریعے ہو یا عدالت کے ذریعے کیونکہ ہم اپنی بات پر قائم ہیں اور جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ 27دسمبر گڑھی خدا بخش میں تقریر کے دوران ہم نے کوئی یوٹرن لے لیا ہے تو وہ عقل کے اندھے ہیں اور میں نے بھی ان کی اس بات سے اتفاق کیا کہ پیپلزپارٹی نے کوئی یوٹر ن نہیں لیا بلکہ نئی بوتل میں پرانی شراب ڈال کر اسی تنخواہ پرکام کرنے کا اعادہ کیا ہے ۔

.
تازہ ترین