• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لوگوں کی طرح شہروں کے بھی مقدر ہوا کرتے ہیں۔ لوگوں کے مقدر کون بناتا ہے، الگ بحث ہے۔ لیکن شہروں کے مقدر صرف اور صرف شہر والے بناتے ہیں۔وہ جس شہر کو چاہیں آسمانوں تک پہنچادیں اور جس شہر کے معاملے میں ان کی نیتوں میں فتور ہو وہ اس کے بخئے ادھیڑ دیں۔ چلئے یہ مانا کہ جن شہروں کا حال برا ہو وہ اور زیادہ برا ہو سکتا ہے مگر کوئی یہ کیسے مان لے کہ جو شہر اچھے بھلے ہوں وہ خاک میں کیسے رُل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے میں کراچی کی بات کررہا ہوں۔وہ سنہ پچاس تھا جب میں نے پہلے پہل کراچی میں قدم رکھا تھا۔ آج پینسٹھ برس بعد کسی نے شہر کو ایسا رگیدا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ آج میں آپ کو بتاؤں کہ کراچی کبھی کیسا شہر ہوا کرتا تھا۔ میں جس زمانے کے کراچی کی بات کر رہا ہوں ابھی اس دور کا آنکھوں دیکھا حال سنانے والے موجو د ہیں۔اس پر کسی کی کہی ہوئی ایک بات یاد آتی ہے کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں جب کبھی خوشی، خوشحالی اورسرشاری کے دو تین برس آئے، سارے کے سارے کسی فوجی ڈکٹیٹر کے زمانے میں آئے۔ وہ عجیب برس تھے جب کسی کو عام لوگوں کی بھلائی کا خیال آیاکرتا تھا۔ شہریوں کو صاف اور ملاوٹ کے بغیر دودھ کا ملنا محال تھا۔ اس وقت بہت بڑی کراچی ملک سپلائی اسکیم شروع کی گئی۔ شاید شانتی نگر کے آس پاس بہت بڑی زمین پر جدید ملک پراسسنگ پلانٹ لگایا گیا اور عوام کو خالص دودھ فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت نے سنبھال لی۔وہ بھی کیا زمانہ تھا جب حکام کو خیال آیا کہ زندگی کی بنیادی ضروریا ت میں روٹی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔پھر کسی کی رگ پھڑکی اور حکومت نے ایک اسکیم شروع کی جسے ’پکی پکائی روٹی ‘ کا نام دیا گیا۔ شہر میں اس روٹی کا بڑا پلانٹ لگا اور اس میں ڈھل کر روٹیاں نکلنے اور پیکٹوں میں بند ہو کر بکنے لگیں۔ کسی کو خیال آیا کہ جہاں تک غذا اور خوراک کا تعلق ہے،مچھلی کا کوئی جواب نہیں اور عجیب ہیں یہ کراچی والے کہ ساحل پر رہتے ہیں اور مچھلی سے رغبت نہیں۔ بس لے دے کروہ بائیسکل والا ’پاپلیٹ مچھی،پاپلیٹ مچھی‘ کی صدا لگاتا ہوا آتا تھا اور کراچی والے جانتے بھی نہ تھے کہ یہ پامفرے مچھلی صرف خوش نصیبوں کے علاقوں میں ہوتی ہے۔ اس پر کسی حاکم کو خیال آیا کہ کراچی کے ہر علاقے میں جدید اور صاف ستھرے فش اسٹال کھولے جائیں جن میں ٹھنڈے رہنے والے شو کیس سجے ہوں، ایک گاڑی ہر صبح ہر اسٹال پر تازہ مچھلی پہنچایا کرے اور علاقے کے لوگ دوپہر کے کھانے میں تازہ مچھلی کھایا کریں۔مگر لوگ تو کسی اور طرح کے قبیل کے ہیں، یہ فش اسٹال سونے پڑے رہے۔ لوگوں نے ان میں جھانکنے تک کی زحمت نہیں کی،ایک ایک کرکے وہ بند ہوتے گئے اور کراچی کی جیکب لائن میں بندر روڈ کے کنارے جو فش اسٹال کھلا اوربری طرح ناکام ہو کر ٹھپ ہوگیا اس میں کسی کبابئے کی دکان کھل گئی جو ایسی چلی، ایسی چلی کہ بس۔
ریل کا سفر غریبوں کے لئے سائنس کا ایسا تحفہ ہے جو کسی کرشمے سے کم نہیں۔ کراچی دور دور تک پھیلتا جارہا تھا اور لوگوں کو لمبے فاصلے طے کرکے سٹی یا کینٹ اسٹیشن جانا پڑتا تھا۔اچھے زمانے تھے۔ حکام کے دلوں میں عوام کے لئے درد جاگا کرتا تھا چنانچہ کراچی میں کئی جگہ ریلوے کے ایسے بکنگ آفس کھولے گئے جہاں پورے ملک کے کسی بھی اسٹیشن کا ٹکٹ مل جاتا تھا اور اس سے بڑا کمال یہ تھا کہ اگلی گاڑی پر جانے والے مسافروں کے لئے وہیں ایک جدید بس تیار کھڑی ہوتی تھی۔ یہ بس راستے کے تمام بکنگ آفسوں سے مسافر اٹھاتی ہوئی بڑے اسٹیشن پر اتار دیتی تھی۔ مثال کے طور پر میں حیدر آباد گیا۔ واپسی پر میں نے کراچی کا نہیں، اپنے محلے ناظم آباد کا ٹکٹ خریدا، آخر سٹی اسٹیشن پر اترا جہاں ناظم آباد کی بس تیار کھڑی تھی۔ میں اس میں سوار ہونے والا واحد مسافر تھا۔ میر ا خیال ہے کہ ہوتے ہوتے اس تنہا مسافر نے بھی پیٹھ دکھا دی اور یہ عجیب وغریب نعمت راہ ہی میں دم توڑ گئی۔ایک نعمت اور۔ کسی نے شہر کے تمام گول چوراہوں کے وسط میں سکّے سے چلنے والے ٹیلی فون لگوادئیے۔ نئے نکور فون بوتھ کراچی کی سڑکوں پر بہت بھلے لگے لیکن ان ٹیلی فونوں کو زندگی کی اگلی صبح دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ لوگ راتوں کو ٹیلی فون کے آلات کاٹ کر لے گئے جو کسی کام کے نہیں۔
اور جو آخری ستم ہوا اس شہر پر وہ کراچی سرکلر ریلوے کا شدید بدنظمی اور غضب کی خیانت کی بھینٹ چڑھ جانا تھا۔ شہر کا بھلا چاہنے والے لوگ خدا جانے کیا ہوئے، اُن دنوں ایسے لوگوں نے سنجیدگی سے کراچی کے گرد دائرے کی شکل میں ریلوے لائن ڈالنے کا بھاری بھرکم منصوبہ بنایا۔ سنہ 1969ء میں یہ ہوا کہ ہمارے گھروں کے قریب ریل گاڑیاں دوڑنے لگیں، ہمارے پچھواڑے اسٹیشن کھل گیا۔ ٹرین کی آواز اور انجن کی سیٹیاں سنائی دینے لگیں۔کہیں گاڑی کسی کے آنگن سے نظر آتی، کہیں گاڑی مکان کی بالائی منزل کی بالکنی سے لگی لگی گزرتی۔پھر کیا ہوا؟ کہتے ہیں کہ ایک خلقت نے ٹکٹ کے بغیر سفر شروع کردیا۔ ٹکٹ چیک کرنے والے کہیں آنکھیں موند کر سو رہے اور سرکلر ریلوے زبردست کرپشن کے تلے کچل کر ریزہ ریزہ ہوگئی۔ گلشن اقبال میں آتے جاتے ایک ریلوے اسٹیشن نظر آتا ہے جو کچرے کے ڈھیر میں یوں دب رہا ہے جیسے مصر کے آثار قدیمہ دریائے نیل کی ریت کے تلے دفن ہوگئے تھے، مگر اس میں ہزاروں سال لگے تھے، گلشن اقبال کے اسٹیشن کو غارت کرنے میں ہم نے چند برس لگائے۔ میں اپنا لکھنا یہیں ترک کرتا ہوں۔ایسے ہی موقعو ں پر پوچھا جاتا ہے کہ اور کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائیں گے آپ؟

.
تازہ ترین