• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دونوں کا ایک دفتر تھا، دونوں ایک ساتھ آتےتھے اور ایک ساتھ جاتے تھے، یہ عجیب محبت تھی جس کا اظہار پورا دن ہوتا تھا، دونوں کے پاس علم بہت تھا، دونوں ہی کمال تھے، ایک نومبر میں بچھڑ گیا، دوسرا دسمبر میں جدا ہوا، جی ہاں! میں جنگ کے ادارتی بورڈ کی شان شفیق مرزا اور سید انور قدوائی کی بات کررہا ہوں۔ اب دونوں منوں مٹی تلے ہیں، دونوں کی یادیں باقی ہیں، زندگی بھی کیا چیز ہے، مرنے والا مر جاتا ہے مگر زندگی گزارنے والوں کے لئے یادوں کے خزانے چھوڑ جاتا ہے۔ یہ یادیں موتی بن کر آنکھ سے ٹپکتی ہیں اور پھر قرطاس پر بکھر کر خوبصورتی کا لباس پہن لیتی ہیں، جناب شفیق مرزا سے کبھی کبھار بات ہو جاتی تھی، میں ان کی قابلیت کا معترف ہوں، میرے لئے وہ ہمیشہ شفیق رہے۔
سید انور قدوائی سے متعلق مجاہد منصوری، حامد میر اور علامہ سعید اظہر کی تحریریں تو آپ پڑھ چکے ہیں لہٰذا بہت سی باتوں کو دہرانا مناسب نہیں، میرے لئے یہ اعزاز ہے کہ سید انور قدوائی نے جس آخری تقریب کی صدارت کی وہ مجھ خاکسار کے اعزاز میں تھی اس تقریب کا احوال میں بعد میں لکھوں گا، پہلے میں یہ بتا دوں کہ سید انور قدوائی کا میرے ساتھ پہلا تعارف کہاں ہوا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مشرف اقتدار میں تھے اور شریف فیملی کے مرد جیلوں میں تھے، میں اپنے دوست سردار یعقوب ناصر کے ہمراہ اسلام آباد سے لاہور آیا، ہم دونوں لاہور کے علاقے ماڈل ٹائون میں بیگم کلثوم نواز سے ملنے گئے، ابھی ہم وہیں تھے کہ سید انور قدوائی جنگ کی ایک خاتون رپورٹر فاخرہ تحریم کے ساتھ تشریف لائے، ہمارا آپس میں تعارف بیگم کلثوم نواز نے کروایا، یہ پہلا تعارف تھا پھر زندگی نے مصروف کار رکھا، کبھی ان سے ملاقات نہ ہوسکی البتہ فون پر بات ہوتی تھی چند ماہ پہلے چکوال کے حوالے سے ملک اسلم کا نام لکھا تو انہوں نے مجھے فون کر کے پوچھا کہ آپ نے چکوال کیسے لکھ دیا ملک اسلم کا تعلق تو خوشاب سے ہے، میں نے وضاحت کی کہ آپ غالباً عمر اسلم کے والد ملک اسلم کی بات کررہے ہیں جبکہ میں چکوال سے تعلق رکھنے والے تنویر اسلم کے والد ملک اسلم کی بات کررہا ہوں۔ یہ واقعہ رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انور قدوائی صاحب چھوٹی چھوٹی بات پر بھی خوب تحقیق کیا کرتے تھے۔ وہ ایک سچے عاشق رسولؐ تھے، پکے پاکستانی تھے، ختم نبوت کے بہت بڑے داعی تھے اور پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں کے بھی حددرجہ مخالف تھے۔
سید انور قدوائی سے دوسری ملاقات، آخری ملاقات ثابت ہوئی گویا پہلی تعارفی ملاقات تھی اور دوسری الوداعی، باقی برس زندگی کھا گئی۔ یہ دس دسمبر کی سہ پہر تھی، لاہور کے ایک ہوٹل میں ضیاء نقشبندی نے قلمکاروں کو جمع کررکھا تھا، تقریب اس خاکسار کے اعزاز میں تھی اگرچہ اس تقریب کا تذکرہ آپ مجاہد منصوری، اعجاز حفیظ خان اور ناصر اقبال خان کے کالموں میں پڑھ چکے ہیں مگر میرے لئے اس تقریب میں دو بزرگوں کی آمد کسی تحفے سے کم نہ تھی جناب جمیل اطہر سرہندی اور سید انور قدوائی، مجھ ناچیز کے دائیں بائیں تشریف فرما تھے۔ تقریب کے آغاز سے پہلے قدوائی صاحب، پرویز بشیر صاحب کو موجودہ حکمرانوں کے حوالے سے چھیڑتے رہے۔ جناب انور قدوائی جملہ کستے تو پرویز بشیر مسکرا دیتے۔ خیر تقریب شروع ہوئی میرے بارے میں اہل قلم نے جو کہا سو کہا مگر جو گفتگو یہاں جمیل اطہر سرہندی اور سید انور قدوائی نے کی وہ چاندی کے ورق پر زعفران سے لکھنے کے مترادف تھی سید انور قدوائی نے اسلام اور پاکستان کا مقدمہ خوبصورت انداز میں پیش کیا، ان کی دبنگ آواز میں ایک رعب تھا، دبدبہ تھا، انہوں نے پاکستان کو ایک نعمت قرا ردیا، اسلام کا قلعہ قرار دیا، وہ پاکستان کی مخالفت کرنے والوں پر برستے رہے، پاکستان سے غداری کرنے والوں کو کوستے رہے، اس روز سید انور قدوائی نے پاکستان کی کرپٹ سیاسی قیادت کو خوب ہدف تنقید بنایا، انہوں نے پاکستانی میڈیا سے متعلق بھی خوب باتیں کیں، جب وہ کاسہ لیسوں پر تنقید کررہے تھے تو ناجانے کیوں انہوں نے مجھے امید کی کرن قرار دے دیا۔ میرے لئے ان کے ادا کردہ لفظ اعزاز سے کم نہیں۔ سید انور قدوائی پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو پاکستان سے مخلص تصور نہیں کرتے تھے۔ خدائے لم یزل انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، کاتب تقدیر ان کے مقدر میں حضورؐ کی شفاعت رقم فرمائے۔
پاکستان کی حالیہ سیاست پر کیا تبصرہ کروں کہ اب تو مک مکا کی سیاست بالکل ہی بے نقاب ہوگئی ہے۔ یہ نقاب کشائی 27 دسمبر کو ہوئی جب گڑھی خدا بخش میں اپنے خطاب کے دوران آصف علی زرداری نے فرمایا ’’.....پہلی خوشخبری یہ ہے کہ میں اور بلاول دونوں قومی اسمبلی میں جارہے ہیں، ہم کرسی کھینچنے نہیں آرہے، تمہیں سبق سکھانے آرہے ہیں، تم نے خود کو مغل بادشاہ سمجھ رکھا ہے، تم شہزادہ سلیم بن بیٹھے ہو، تم الیکشن نہیں جیتے تھے، ہم نے امانت کے طور پر اقتدار تمہارے حوالے کیا تھا.....‘‘
آصف علی زرداری نے جو خوشخبری لوگوں کو سنائی، اس سے نہ لوگ خوش ہوئے نہ ہی ان کی پارٹی خوش ہوئی۔ رہی بات سبق سکھانے کی تو آصف علی زرداری اسمبلی میں اگلے الیکشن کی تیاری کیلئے آرہے ہیں وہ ن لیگ کے ساتھ مل کر مرضی کے امپائرز بنانا چاہتے ہیں جیسے پہلے بنائے گئے تھے۔ 2013ء کے الیکشن کے بارے میں مجھے ایک بات سینیٹ کے سابق چیئرمین سید نیئر حسین بخاری نے بتائی تھی لیکن ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ بات اگلے الیکشن تک حلفاً باہر نہیں نکلنی چاہئے۔ آصف علی زرداری مغل بادشاہ کہنے کی بجائے اگر قطر یا کسی دوسری عرب ریاست کا حوالہ دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا لوگ ان کی بات کو موجودہ حالات کے تناظر میں پرکھتے۔ مغل بادشاہوں میں سے بھی انہوں نے شہزادہ سلیم کا نام لیا۔ زرداری صاحب کی تقریر لکھنے والے کو یہ پتہ ہی نہیں شہزادہ سلیم تو ڈھنگ کے مغل بادشاہوں کی پہلی صف میں ہے کون نہیں جانتا کہ دنیا میں تین عدل مشہور ہوئے۔ ایران کے بادشاہ نوشیروان کا عدل، حضرت عمر فاروقؓ کا انصاف اوریا پھر عدل جہانگیری۔ تیسرے مشہور ہونے والے عدل کا سارا کریڈٹ مغل بادشاہ جہانگیر یعنی شہزادہ سلیم کو جاتا ہے۔ رہی بات الیکشن کی تو 2013ء کا الیکشن دھاندلی زدہ تھا، اس میں کوئی شک ہی نہیں۔
لوگو! دولت اور طاقت کے کھیل میں پاکستان کی بہتری کیلئے دعا کرو، اس دعا سے بہت سی نیک روحوں کے ساتھ سید انور قدوائی کی نیک روح بھی خوش ہوگی۔ زندگی اور موت کی کشمکش کے سنگم پر ریحانہ قمر کی شاعری یاد آتی ہے کہ؎
پھر پھول کھلیں شاید
اس بار تو لگتا ہے
ہم پھر نہ ملیں شاید

.
تازہ ترین