• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری سیاست میں تو آئے دن بھونچال آتے رہتے ہیں جس کے باعث شہریوں کی سیاسی اور اخلاقی تربیت نہیں ہو پاتی اور ہر آن انہونیوں کا ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ 16دسمبر 1971ء کو ایک ایسا ہی سانحہ پیش آیا تھا جب نفرتوں کا آتش فشاں پھٹ پڑا اور قائداعظم کا پاکستان دولخت ہو گیا تھا۔ اِسی طرح 16دسمبر 2014کی صبح انسانیت کے دشمن خونخوار دہشت گرد آرمی پبلک اسکول پشاور میں داخل ہوئے اور سینکڑوں پھول سے بچے اور جواں عزم اساتذہ گولیوں سے چھلنی کر دیے گئے۔ اب اہلِ عزم اپنے حالات معمول پر لانے کیلئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں جس کے باعث اندھیرے چھٹ رہے اور اُمید کے دریچے وا ہو رہے ہیں۔ یہی وہ منظر ہے جب عالمِ وحشت میں احمد مشتاق صاحب کہہ اُٹھے تھے ؎
چاند پھر اِس گھر کے دریچے کے برابر آیا
دل مشتاقؔ ٹھہرا، پھر وہی منظر آیا
منظر بدلتے ہی زمانے کے تقاضے یکسر بدل جاتے ہیں۔ آج کے اہم ترین تقاضے کی طرف ہمارے عہد کے ایک بالغ نظر شاعر نے اشارہ کیا تھا ؎
ایسا مکتب بھی کوئی شہر میں کھولے ناصرؔ
آدمی کو یہاں انساں بنایا جائے
آدمی کو انسان بنانے کے لیے ہمیں اپنا ذہنی، نفسیاتی اور معاشرتی سانچہ تبدیل کرنا اور اپنے اندر جھانکنا ہو گا۔ ہم عجیب لوگ ہیں کہ اکثر اوقات قانون کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں اور جب اِس پر عمل کرنے پر اُتر آتے ہیں، تو بڑے سفاک نظر آتے ہیں۔ قواعد و ضوابط کی روح تو یہ ہونی چاہیے کہ وہ مشکل صورتِ احوال میں امن پسند شہری کی مدد کو پہنچے، مگر آج امن پسند اور شریف آدمی ہی سب سے زیادہ غیر محفوظ اور ناتواں ہے۔ پچھلے دنوں میں ایک اذیت ناک تجربے سے دوچار ہوا۔ وہ 24دسمبر کی ایک دھند آلود سرد رات تھی اور مجھے ایک عزیزہ کی شادی میں شریک ہونا تھا۔ وزیراعلیٰ جناب شہباز شریف نے ایک انقلابی اقدام کے ذریعے شادی کی تقریبات میں ایک نظم پیدا کر دیا ہے۔ اِس قانون سے پہلے میں ایک شادی میں گیا، تو بارات رات کے ایک بجے آئی تھی اور ذہنی کوفت انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ ایسے میں دس بجے شب کی پابندی بہت اچھی لگی، مگر یہی پابندی قانون نافذ کرنے والوں کی سختی سے بہت گراں گزری اور اپنی بے چارگی کا شدید احساس ہوا۔
ہوا یہ کہ بارات کو گوجرانوالہ سے آنا تھا۔ وہ شام کے پانچ بجے روانہ ہوئی اور کالاشاہ کاکو کے قریب پہنچ کر موٹروے کی طرف رُخ کیا جو گہری دھند کی وجہ سے بند تھی۔ بارات واپس جی ٹی روڈ پر پہنچی جہاں گاڑیوں کی قطاریں میلوں تک لگی ہوئی تھیں۔ ہمیں اطلاع ملتی رہی کہ وہ شاہدرہ کے قریب ٹریفک میں پھنسی ہوئی ہے۔ دس بجے رات تک ہماری تشویش میں بہت اضافہ ہو چکا تھا۔ پھر سوچا کہ پورے شہر اور اِس کے قرب و جوار پر دھند چھائی ہوئی ہے اور ضلعی انتظامیہ اِس غیر معمولی صورتِ حال میں نرمی سے کام لے گی۔ کوئی گیارہ بجے کے لگ بھگ بارات شادی ہال کے سامنے پہنچ گئی اور عین اِسی وقت ضلعی انتظامیہ کے ’فرض شناس‘ کارندے شادی ہال پر چھاپا مارنے آ گئے جو پیکو روڈ پر واقع ہے۔ اُن میں سے ایک صاحب نے بتایا کہ میں اقبال ٹاؤن کا ٹی ایم او ہوں اور ڈی سی او کے حکم پر یہاں آیا ہوں۔ بڑی عاجزی سے کہا کہ تمام صورتِ حال آپ کے سامنے ہے۔ گہری دھند اور ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے بارات ابھی پہنچی ہے جس میں بچے اور خواتین بھی ہیں۔ آپ ہمیں ہال کے اندر نکاح پڑھانے کی اجازت دے دیجئے۔ اِس اہلکار نے ہرلحظہ گہری ہوتی ہوئی دھند میں شادی ہال خالی کرا لیا اور اِسے بچوں کے رونے پر بھی کوئی ترس نہیں آیا۔ اُن کا فرمان تھا کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔ میں نے بڑے ادب سے کہا کہ قانون پر عمل درآمد کرانے والے تو اندھے نہیں ہوتے۔
جناب وزیراعلیٰ سے بات کرنے کا خیال آیا کہ انہوں نے اپنے لیے ’خادمِ اعلیٰ‘ کا لقب پسند کیا ہے، مگر دوسرے ہی لمحے یہ سوچ کر ایک جھٹکا سا لگا کہ اُن سے فوری رابطہ ممکن نہیں ہو گا کہ اُنہیں اپنے کارنامے شمار کرنے سے فرصت ہی نہیں۔ عالمِ اضطراب میں عزیزی مجیب الرحمٰن شامی کی طرف دھیان گیا کہ وہ مشکل وقت میں سہارا بنتے ہیں۔ انہیں فون کیا جس پر انہوں نے وزیراعلیٰ صاحب کے ایک نہایت قریبی شخص سے رابطہ کیا۔ چند ساعتوں بعد اُن کا فون آ گیا، کہنے لگے کہ ٹی ایم او سے میری بات کرا دیجئے، مگر ٹی ایم او نے فون سننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ڈی سی او سے بات کی جائے۔ اُن کا دوبارہ فون آیا کہ ڈی سی او صاحب فون نہیں اُٹھا رہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے دل ہی دل میں کہا کہ میرِ شہر کو اِس سے کیا غرض کہ اہلِ شہر پر کیا بیت رہی ہے۔ دولہا کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے، تو اُمید کی کہکشاں نمودار ہوئی اور شادی ہال کے مالک جناب رانا امداد حسین نے اعلان کیا کہ میرا گھر میزبانی کے لیے حاضر ہے۔ اِسی شب غالباً اِسی گھر میں اُن کے بیٹے کا ولیمہ بھی تھا۔ اُن کی عظمت اور دریا دلی نے پورا منظرنامہ تبدیل کر دیا اور مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں رقص کرنے لگیں، مگر میں کرسی پر بیٹھا دیر تک سوچتا رہا کہ قانون کے محافظ کب قانون کی روح سے واقف ہوں گے اور کب وزیراعلیٰ انہیں آنکھوں سے دیکھنے اور حالات کی روشنی میں شہریوں کو بروقت ریلیف پہنچانے کے احکام صادر کریں گے۔
شادی کی تقریبات کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ قائداعظم نے مارچ 1948ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے اُردو کو رابطے کی زبان بنانے کا اعلان کیا تھا۔ 1973ء کے دستور میں اِسے قومی زبان کا درجہ دینے اور پندرہ سال کے اندر اندر اِسے دفتروں، تعلیمی اداروں اور عدالتوں میں نافذ کرنے کی مہلت دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ اِس دستوری بندوبست کے فوری قیام کا حکم صادر کر چکی ہے، مگر ہمارے معاشرے کے اندر جو رجحانات پرورش پا رہے ہیں، وہ اُردو زبان کے بارے میں حددرجہ تشویش ناک ہیں۔ شادی کے دعوت نامے انگریزی میں بھیجے جا رہے ہیں اور ہمارے گھروں سے اُردو زبان غائب ہوتی جا رہی ہے۔ بچوں کو انگریزی تعلیم دینے والے اداروں کی تعداد حیرت انگیز طور پر بڑھتی جا رہی ہے۔ ٹی وی کے بیشتر پروگرام اُردو میں ہوتے ہیں، لیکن اُن میں انگریزی غالب آتی جا رہی ہے۔ ہماری نئی نسل اُردو پڑھنے کی اہلیت کھوتی جا رہی ہے۔ حالات اگر یہی رہے، تو ہماری معاشرتی زندگی میں اُردو شناسی کا سلسلہ ٹوٹ جائے گا، جبکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی زبان میں دسترس حاصل کیے بغیر قوم کی تخلیقی صلاحیتیں فروغ نہیں پاتیں۔ زبانیں زیادہ سے زیادہ سیکھنی چاہئیں، مگر بنیادی تعلیم قومی زبان میں دینے سے علوم و فنون کا حصول سہل ہو جاتا ہے۔ اِن حالات میں ایک عوامی تحریک اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ معاشرتی تقریبات کے لئے انگریزی میں دعوت نامے بھیجنے والوں کا بائیکاٹ کیا جائے اور اپنے میل ملاپ اور بول چال میں اُردو زبان کو کلیدی اہمیت دی جائے۔ اِس وقت اُردو زبان کے تحفظ کا مسئلہ نہایت سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جو اُس کے نفاذ کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

.
تازہ ترین