• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے افسوس سے یہاں یہ بات ریکارڈ پر لانا پڑرہی ہے کہ کئی دنوں سے سندھ کے اندر اور اردگرد ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں جس کے باعث خاص طور پر سندھ کی نئی نسل کافی مشتعل ہے۔ میں یہ کالم 15 مارچ سے ملک بھر میں مردم شماری کرنے کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے کئے جانے والے فیصلے کے حوالے سے لکھ رہا ہوں‘ ’’شریف حکمران‘‘ اور ایشوز کی طرح مردم شماری کے ایشو کو بھی آئین کے تحت کرانا نہیں چاہتے‘ ورنہ اب تک مردم شماری کرائی نہ جاتی؟‘ آئین کے تحت اس ایشو کے بارے میں سارے فیصلے سی سی آئی کو کرنے ہوتے ہیں مگر اب تک اس سلسلے میں کتنی بار سی سی آئی کو یہ ایشو ریفر کیا گیا لہذا سندھ کے اندر سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا ہے کہ ملک میں مردم شماری کرانے کیلئے مرکزی سطح پر سی سی آئی کی طرف سے ایک بین الصوبائی کمیٹی بنائی جائے جس میں چاروں صوبوں کی برابر کی نمائندگی ہو۔ میں یہ بات کرتا چلوں کہ مجھے اس ایشو پر اس بار اس کالم میں اس وقت قلم اٹھانا ضروری محسوس ہوا جب میری نظر سے میرے ایک ساتھی کالم نگار کا کالم گزرا جس میں انہوں نے اس ایشو کے حوالے سے کافی اہم باتیں کی ہیں‘ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت افغان مہاجرین کو باقاعدہ پاکستانی شہریت دینے پر غور کررہی ہے‘‘ مجھے نہیں پتہ کہ یہ بات کہاں تک درست ہے مگر ہے بڑی اہم بات‘ اسی دوران بلوچستان سے بھی ایک خبر آئی تھی جس کا ذکر بھی اس کالم میں کیا گیا ہے۔ اس خبر کے مطابق محمود خان اچکزئی نے بھی ایسا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی ایک اور عجیب و غریب مطالبہ کیا کہ ’’افغان مہاجرین کا علیحدہ صوبہ بنایا جائے اور اس کا نام ’’افغانیہ‘‘ رکھا جائے‘‘ اس کے ردعمل میں بلوچستان کے بلوچ رہنما میر حاصل بزنجو نے اس مطالبہ کی سختی سے مخالفت کی اور واضح طور پر کہا کہ چاہے کچھ ہوجائے بلوچستان میں افغان مہاجرین کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا‘ ’’ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ بلوچستان کے ایک سینیٹر نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کے آئین میں ہندوستان کے آئین میں شامل اس آرٹیکل کے طرز کا آرٹیکل شامل کیا جائے جس کے تحت کوئی غیر کشمیری‘ مقبوضہ کشمیر میں نہ زمین خرید سکتا ہے اور نہ شہریت حاصل کرسکتا ہے‘ بعد میں سندھ کی نوجوان نسل نے بھی اس تجویز کی حمایت کی تھی‘ سندھ میں تو ویسے بھی یہ ایک مضبوط رائے ہے کہ نئی مردم شماری کرانے سے پہلے 2010 ء اور 2011ء میں کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کی گئی رولنگز پر عملدرآمد کیا جائے جن میں کہا گیا ہے کہ سندھ اور خاص طور پر اس کے بڑے شہر کراچی میں لاکھوں کی تعداد میں آباد غیر ملکی تارکین وطن آباد ہیں ان کو واپس اپنے اپنے ملکوں میں بھیجا جائے‘ عدالت نے کراچی میں ایسے غیر قانونی آباد کاروں کی تعداد غالباً 30 لاکھ سے زیادہ بتائی تھی‘ سندھ کے عوام اور خاص طور پر سندھ کی نوجوان نسل شاید ایسی مردم شماری کو قبول نہ کرے جس سے پہلے ان غیر قانونی تارکین وطن کو یا اپنے اپنے ملکوں کو واپس نہیں بھیجا جاتا یا کم سے کم ان کو کیمپوں میں منتقل نہیں کیا جاتا۔ سندھ کے ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ان غیر قانونی تارکین وطن کو این آئی سی جاری کئے گئے ہیں اور ان میں سے اکثر کے نام کراچی کے ووٹرز کی فہرستوں میں بھی شامل ہیں‘ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر ایسی ووٹر فہرستوں کے ذریعے ووٹ بھگتائے جاتے ہیں تو سندھ کے لوگ ایسے انتخابات کو کیسے قبول کریں گے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے اس فل بینچ نے اپنے احکامات کے ذریعے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ کراچی میں جو حلقے بنائے گئے ہیں وہ متعلقہ قانون کے تحت بنانے کی بجائے نسلی بنیادوں پر بنائے گئے ہیں‘ سندھ کے عوام شاید ایسے انتخابات کو بھی قبول نہ کریں جو ایسے حلقوں کی بنیاد پر کرائے جاتے ہیں‘ کچھ نوجوانوں نے ایک خبر کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ کچھ دن پہلے ایم کیو ایم پاکستان کے قائد فاروق ستار وکالت کررہے تھے کہ کراچی میں غیر قانونی طور پر آباد ہونے والے بنگالیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے۔ واضح رہے کہ کراچی میں غیر قانونی طور پر آباد ہونے والوں میں اکثریت بنگالیوں‘ برمیوں‘ ہندوستانیوں‘ ایرانیوں اور افغانیوں کی ہے‘ ان لوگوں کے مطابق فاروق ستار کی پارٹی کے امیدوار اب تک ان ہی غیر قانونی آباد کاروں کے ووٹوں پر منتخب ہوتے رہے ہیں۔
سندھ کے لوگ ان سب لوگوں کو سندھی پاکستانی تصور کرتے ہیں جو پاکستان بننے کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے انتہائی کسمپرسی کے عالم میں سندھ آکر آباد ہوئے‘ سندھ کے لوگوں نے اس وقت ان سے جس محبت کا اظہار کیا تھا وہ تاریخ کا حصہ ہے‘ سندھ کے لوگوں کو افسوس ہے کہ ان میں سے بھی کچھ لوگ خود کو مہاجر کہلاتے ہیں‘ حالانکہ ان کی نئی نسل سندھ میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی‘ سندھ ان کی ماں اور وہ سندھ کے سپوت ہیں‘ اسی طرح ہندوستان سے سندھ آنے والے کئی ایسے بھائی انتقال کرگئے اور اب سندھ کی گود میں سو رہے ہیں‘ کیا فاروق ستار اور ان کے ساتھی ان مرحومین کو بھی مہاجر کہیں گے۔ سندھ کے دو نوجوانوں نے مجھے ٹیلی فون کرکے کہا ہے کہ ان کی طرف سے یہ بات آگے لائی جائے کہ ہم سندھی پاکستان سے عشق کرتے ہیں مگر اس کے برعکس اگر سندھ کو ’’کالونی‘‘ بنانے کی کوشش کی گئی تو پھر سندھ کے نوجوان بھی اپنا ردعمل دینے پر مجبور ہوجائیں گے‘ ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہم نے سندھ اور پنجاب کی ’’اشرافیہ‘‘ پر مشتمل قیادت کو ترک کردیا ہے‘ اب سندھ کی نئی نسل سندھ کی قیادت کرے گی‘ کئی دنوں سے ان اندیشوں کی روشنی میں سندھ بھر میں ادیبوں اور دانشوروں کے اجتماعات ہورہے ہیں یا نوجوانوں کے اجتماعات ہورہے ہیں‘ ان اجتماعات سے جو اشارے ملے ہیں ان کے مطابق شاید سندھ کی کوئی نئی نوجوان قیادت آگے آئے جن کی بنیادیں سندھ کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہوں گی اور شاید ان کے فوری مطالبات ہوں کہ: ’’پاکستان کو ایک حقیقی وفاق بنایا جائے‘ قومی اسمبلی میں چاروں صوبوں کو ایک سی نمائندگی دی جائے‘ مردم شماری کرنے والے ادارے میں افسر سے نچلے ملازمین تک چاروں صوبوں کو ایک سی نمائندگی دی جائے۔

.
تازہ ترین