• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بینظیر بھٹو شہید کی نویں برسی کے موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری کے اعلانات نے کچھ سیاسی جماعتوں خصوصاً پی ٹی آ ئی کو کافی مایوس کیا ہے۔ وہ چاہتی تھیں کہ پی پی پی کے شریک چیئرمین نوازشریف حکومت کے خلاف احتجاج، ہڑتالوں اور دھرنوں کا پروگرام دیتے تاکہ جس طرح کی افراتفری ان کا خواب ہے شروع ہو جاتی۔ آصف زرداری اور بلاول کا قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنا خوش آئند ہے۔ جتنی بھی مدت ایوان زیریں کی باقی رہ گئی ہے اس میں وہ بھرپور پارلیمانی رول ادا کریں گے۔ حکومت نے بھی ایسی سیاست کا خیر مقدم کیا ہے اور ساتھ ہی سکھ کا سانس بھی لیا ہے کہ سابق صدر خرابی پیدا کرنے والوں کی بینڈ ویگن پر نہیں چڑھے۔ بلاول کے سیاسی کیرئیر میں یہ قومی اسمبلی میں پہلی ’’منہ دکھائی‘‘ ہوگی یقیناً آصف رزداری اور بلاول کی ایوان زیریں میں موجودگی اس پارلیمانی چیمبر کی اہمیت میں مزید اضافہ کرے گی۔ ان کا اسمبلی سے باہر رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ بلاول قائد حزب اختلاف بن جائیں گے اور سید خورشید شاہ ان کے ڈپٹی ہوں گے۔ ان کی اور آصف زرداری کی ایوان زیریں میں موجودگی سے پی پی پی بھی اپنا پارلیمانی کردار بھی بہتر طور پر انجام دے سکے گی۔ اگرچہ سابق صدر کی ملک سے لمبی غیر حاضری ان کی مجبوری تھی مگر سیاسی طور پر یہ پی پی پی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ اب جب کہ آصف زرداری واپس وطن آگئے ہیں اور سیاست میں بھرپور حصہ لینے کا عزم کئے ہوئے ہیں تو بلاول کیلئے وہ ویٹو ثابت ہوئے ہیں۔ اس سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بلاول نے اپنے والد کی ملک سے غیر موجودگی میں جس طرح پی پی پی کو چلایا اس سے ان کی جماعت کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوسکی۔
آصف زرداری نے سڑکوں پر نہ آنے کا فیصلہ آخر کیا۔ وجوہات صاف ظاہر ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پی پی پی کی حالت ابھی تک پنجاب میں وہی پرانی ہے جو کہ 2013ء کے عام انتخابات میں تھی۔ اس طرح کی پوزیشن ہی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہے۔ ان حالات کے پیش نظر آصف زرداری کیسے فیصلہ کرسکتے تھے کہ وہ ایجی ٹیشن کی کال دے دیں۔ اندرون سندھ میں پی پی پی یقیناً مضبوط ہے تو کیا وہ اس صوبے میں اپنی حکومت کے خلاف ہی احتجاج شروع کر دیتے؟ لہذا انہوں نے ٹھیک ہی فیصلہ کیا ہے کہ اسمبلی میں آیا جائے اور نوازشریف حکومت سے دو دو ہاتھ کیے جائیں یہی بہترین آپشن ہے۔ اب چونکہ پی پی پی اور دوسری جماعتیں بھی الیکشن موڈ میں چلی گئی ہیں لہذا پی پی پی کی کوشش ہوگی کہ وہ دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر کوئی الائنس بنانے کی کوشش کرے۔ ایسا اتحاد بن تو سکتا ہے مگر اس کے بہت زیادہ جاندار ہونے کے امکانات کافی کم ہیں۔ قاف لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا پی پی پی کے ساتھ الائنس ہوسکتا ہے مگر یہ کوئی بہت طاقتور سیاسی یا انتخابی اتحاد نہیں ہوگا۔ جہاں تک پی ٹی آئی کے ساتھ پی پی پی کے الائنس کا تعلق ہے تو اس کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔ ان کا تعاون فوراً ہوسکتا ہے اگر پی پی پی بھی پی ٹی آئی کی طرح ہلہ گلہ، شور شرابے اور دھرنوں کی سیاست شروع کر دے۔ پی ٹی آئی نے آئندہ سال میں ہر طرح سے کوشش کرنی ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے جن کی وجہ سے وہ 2018ء کے انتخابات میں بہت اچھی کارکردگی دکھا سکے۔ پی پی پی کی بھی یہی کوشش ہے۔
نہ صرف پی ٹی آئی کی طرح کی سیاسی جماعتیں بلکہ پی پی پی کے بہت سے رہنما بھی یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ آصف زرداری 27 دسمبر کو بہت بڑا دھماکہ کریں گے اور حکومت اور سیاست میں بھونچال آجائے گا۔ یہ پریشانی بلاجواز اور بے معنی ہے۔ پی پی پی کی جو خوفناک پوزیشن 2013ء کے الیکشن میں سامنے آئی تھی اس کے ذمہ دار صرف اور صرف آصف زرداری ہیں جو اسے بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اکیلے ہی لیڈ کرتے رہے لہٰذا اب اسے بحال کرنا اور پرانی حالت میں لانے کا بوجھ بھی انہی کے کندھوں پر ہے۔ پی پی پی کے اس زوال کی وجہ سے جو سیاسی خلاپیدا ہوا تھا اس پر قبضہ پی ٹی آئی نے کر لیا ہے جبکہ اس میں سے نون لیگ کو کم ہی حصہ ملا ہے۔ اب پی پی پی کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہی یہی ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے یہ ووٹ بینک کیسے واپس لے۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ نہ ہی آصف زرداری جو کہ اپنے آپ کو سیاسی گرو گردانتے ہیں اور نہ ہی بلاول نے اپنی 27 دسمبر والی تقاریر میں پی ٹی آئی کا رتی برابر ذکر کیا جو کہ ان کا حکومت کے ساتھ ساتھ اصل نشانہ ہونا چاہئے تھی۔ جب تک یہ اپنی پالیسی کو تبدیل نہیں کریں گے تو ان کی سیاسی حالت ایسی ہی رہے گی۔ ان کے سخت ترین سیاسی مخالفین نون لیگ اور پی ٹی آئی ہیں اور انہیں ان دونوں کے ساتھ برابر کا سلوک کرنا چاہئے۔ آصف زرداری اور بلاول نے اس امید پر پی ٹی آئی کو مکمل طور پرا سپیئر کیا تا کہ ’’گرینڈ الائنس‘‘ کے امکان کو نقصان نہ پہنچے مگر یہ ان کی خام خیالی ہے اور غیر سیاسی اپروچ ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ آصف زرداری 18 ماہ خود ساختہ جلاوطنی میں کیوں رہے اور واپس کیوں آئے۔ ان کا خیال ہے کہ آرمی کمانڈ میں تبدیلی سے ان کیلئے حالات میں کافی بہتری آگئی ہے۔ تاہم ان کے قریب ترین دوست انور مجید کے دفاتر پر رینجرز نے عین اس وقت چھاپہ مارا جب کہ ان کا چارٹرڈ جہاز دبئی سے کراچی لینڈ کرنے والا تھا انہیں صاف پیغام دیا گیا کہ آرمی کمانڈ کی تبدیلی سے بھی ان کیلئے حالات کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوئے اور کرپشن اور مافیاز کے خلاف پرانی رفتار سے ہی آپریشن جاری رہے گا۔ آصف زرداری حکومت پر دبائو ڈال کر پی پی پی کی حالت تو یقیناً بہتر کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین، انور مجید، اویس مظفر ٹپی اور دوسرے بہت سے ان کے قریبی دوست اور پی پی پی کے رہنمائوں کے خلاف رینجرز اور دوسرے ریاستی اداروں کی کارروائیاں فوراً بند کی جائیں تاہم ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا لہذا ان کے اور حکومت کے درمیان کھنچائو اور تنائو بڑھتا رہے گا اور اتنے میں اگلے عام انتخابات آ جائیں گے۔

.
تازہ ترین