• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹوبہ ٹیک سنگھ میںزہریلی شراب پینے سے کتنے افراد ہلاک ہوگئے ؟ کچھ رپورٹس 35،جبکہ کچھ 44 ہلاکتیں بتاتی ہیں۔ جو بھی اعداد و شمار ہوں، یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے۔ ہلاک ہونے والوں کا تعلق مسیحی برادری سے ہے، جو غالباً کرسمس پر تفریحی موڈ میں تھے۔لیکن اُن کی خوشی غم میں بدل گئی۔
خطرناک تفریح اور اس کے نتائج سے زیادہ اس سوال کا تعلق اُس طبقے، جیسا کہ پیسہ اورحیثیت، سے ہے۔ اگر سانحے کی لپیٹ میں آنے والے تفریح کے متلاشی مالی طور پر اتنے کمزور نہ ہوتے تو وہ قریبی شہر، فیصل آباد چلے جاتے اور عمدہ مشروب فراہم کرنے والے کسی بھلے آدمی کی خدمات حاصل کرلیتے۔ اس اسلامی جمہوریہ میں سنہری مشروب کی صنعت کوکوئی زوال ؟سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اس کی پیداوار برآمد کی جاتی ہے، اور ایسی اقلیتوں کا حلق تر کرنے کا سامان کیا جاتا ہے جن کے مذہب میں اسے نوش کرنا ممنوع نہیں۔
تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ان افراد کی جیب میں معیاری مال حاصل کرنے کے لئے اتنی رقم نہیں تھی،چنانچہ وہ اس ڈرائونے خواب کا شکار ہوگئے۔ آفٹر شیو لوشن سے حاصل کیا گیا زہریلا موادان کی جان لے گیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ روس کے شہر ارکتسک(Irkutsk)میں پیش آیا جہاں باتھ آئل سے تیار کیے گئے جعلی مشروب نے 75افراد کی جان لے لی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ارکتسک وڈکا مشروب کا ’’آبائی گھر ‘‘ ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے واقعہ کی سمجھ آتی ہے لیکن ارکتسک میں ہونے والی ہلاکتیںعقل سے باہر ہیں۔ جب میں 1970 کی دہائی کے وسط میںسفارت خانے کے سیکنڈ سیکرٹری کے طور پر روس میں فرائض سرانجام دیتا تھاتو وہاں وڈکا کی فراوانی تھی اور اسے حاصل کرنا اتنا ہی سہل تھا جتنا عام اشیائے خورونوش خریدنا۔ اس کی قیمت بھی طے شدہ تھی۔ اُس وقت وہاںروٹی کی قیمت 13 کوپکس (پاکستان کے 13 پیسے ) تھی، اسی طرح دودھ بھی سستااور انتہائی خالص تھا، اور ملاوٹ شدہ غیرمعیاری دودھ کی فروخت پر کسی محترم چیف جسٹس کو نوٹس نہ لینا پڑتا۔ ماسکو انڈرگرائونڈ ریلوے،چاہے کتنا ہی طویل سفر کیوں نہ ہو، کا ٹکٹ پانچ کوپکس تھا، اور یہ نرخ اسٹالن کے دور سے جوں کے توں تھے۔
آپ کو دکانوں پر ٹائلٹ پیپرز نہیں ملتے تھے اور نہ ہی فینسی جوتے یا ملبوسات تھے، نہ ہی ملبوسات پر کسی مہنگے ڈیزائنرکا لیبل لگا ہوتا تھا۔ چند ایک غیر ملکی کرنسی قبول کرنے والی دکانوں پر، جو سیاحوں، سفارت کاروں یا پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کے لئے مخصوص تھیں، ہی ایسی اشیا دستیاب تھیں۔ تاہم دنیا اِ دھر کی اُدھر ہوجائے، وڈکا کی بوتل کی قیمت چار ووبل (بارہ یا چودہ روپے )تھی۔ روسی شمپین کی بھی یہی قیمت تھی۔ اہم بات یہ کہ چاہے کوئی ریستوران ہو یا کیفے، قیمت ایک سی رہتی تھی۔ بہرحال اس دوران ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اُس وقت اوسط روسی ورکرز کی اوسط تنخواہ 150 روبل تھی، چنانچہ چار روبل کی وڈکا بوتل کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے، لیکن یہ بات طے کہ روس میں جعلی شراب کا کوئی تصور بھی موجود نہ تھا۔ میخائل گوربا چوف کے ہاتھوں اس ملک کو پہنچنے والے دیگر نقصانات میں سے ایک نقصان یہ بھی تھا کہ اُنھوںنے نہ صرف وڈکا کو مہنگا کردیا بلکہ اس کی فروخت کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ اس کی وجہ سے جعلی مشروبات بھی عام ہوگئے۔
قانون کے ذریعے حماقت کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔امریکہ میں پابندی لگانے کی کوشش کی گئی، لیکن اس ’’پرہیزگاری‘‘ کا نتیجہ شکاگو میں ال کپون (منظم جرائم پیشہ مافیا کا سرغنہ)کی جرائم کی سلطنت اور شراب کی غیر قانونی فروخت کی صورت نکلا۔ اخلاقیات کو قانون کے ذریعے کنٹرول کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ نہیں ہوتا، لوگ دیگر ذرائع تلاش کرلیتے ہیں۔ انسانوں کو عقوبت خانوں میں ڈالا جاسکتا ہے، اُنہیں عقائد کی بنیاد پر قیدکیا جاسکتا ہے، گولی ماری جاسکتی ہے، لیکن جب بشری خامیوں کی بات آئے تو وہاں تمام تبلیغ اور پابندیاںدھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ انسانی فطرت یہی ہے۔ کیا جیل خانوں میں جنسی جذبات مقید ہوجاتے ہیں؟کیا انتہائی حالات میں اسموکنگ یا پینے کی خواہش دم توڑ جاتی ہے؟ دنیاکے قدیم ترین پیشے کو جو بھی کہہ لیں، جب سے انسان جانتا ہے، یہ دنیا میں موجود۔ اب چونکہ پاکستان میں مے نوشی پر پابندی، تو پاکستانیوںکو گنے کا رس پی کر سرِ شام ہی سوجانا اور انتہائی عبادت گزار بن جانا چاہئے، اور ’’مال کی فراہمی کا دھندہ ‘‘ کرنے والے معززین کو فاقہ کشی کا شکار ہوجانا چاہئے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں۔ ہر غروب ہوتا ہوا سورج ان کے دھندے کی چمک میں اضافہ کرتا ہے۔
مزید یہ کہ پابندی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ پارسا نہیں ہوا، نہ ہی ہم دیگر دنیا کے لئے ماڈل ریاست قرار پائے جہاں نہ کوئی رشوت لیتا ہے، نہ بدعنوانی کا کوئی شائبہ ہے اور نہ ہی ملاوٹ اور جرائم کاکوئی گزر۔ تحمل، بردباری، سادگی اور سچائی کا دور دورہ ہے۔ اگر ایسا نہیں تو حدود آرڈیننس کے تحت تجویز کی گئی سخت سزائوں کے کیا معانی؟ ان کی وجہ سے لاہور کی رقاصائوں کا کام ختم ہوجاتا، اور وہ ’’کاروبار کو ترقی دیتے ہوئے دبئی کارخ کرنے ‘‘ کی بجائے گھرگرہستی کے کام سیکھ کر خاتون خانہ بن کر رہنے کو ترجیح دیتیں۔اور پھر جب فضل و کرم کا دور دورہ ہوتا تو پاکستان کا جی ڈی پی بھی بڑھ جاتا، اقوام ِعالم رشک بھری نظروںسے ہمیں دیکھتیں، غیر ملکی سیاح ہمارے کامیاب مقدس تجربے کودیکھتے۔دنیابھرکے افراد پاکستان آنا چاہتے، گرین پاسپورٹ کی انتہائی توقیر ہوتی، اسے دیکھتے ہی دنیا بھرمیں امیگریشن کائونٹر پر بیٹھے ہوئے افراد کی نظریں فرط ِ عقیدت سے جھک جاتیں اور وہ اسے ادب سے بوسہ دیتے ہوئے اس پر مہر لگادیتے۔ آخر پابندیوں کا اس دنیا میں بھی تو پھل ملتا۔ لیکن چونکہ ان پابندیوں کے نتائج مطلق حوصلہ افزا نہیں، اور نہ ہی ان کی وجہ سے پاکستان میں اخلاقی تطہیر دکھائی دی، بلکہ اخلاقی اعتبار سے ہم 1977 کی دہائی، جب پابندی لگائی گئی، سے بھی بدتر ہوچکے ہیں۔ اب جبکہ ہم اُس دور سے بہت آگے بڑھ آئے ہیں، شاید اب نتائج پر غور کرتے ہوئے تمام معاملے کا از سر ِ نوجائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
یقیناً مے نوشی بری عادت ہے، اس پر دو آرانہیں، لیکن، میرا خیال ہے کہ اخلاقیات کے چیمپئن بھی اتفاق کریں گے کہ جعلی اور ہلاکت خیز مشروب بنانا بدترین حرکت ہے۔ تو ہم جعلی مشروبات بنانے کے اس دھندے، جو بلا مبالغہ الئےس اسلامی جمہوریہ کے ہر چھوٹے بڑے قصبے میں بہت پھیل چکا ہے، کے بارے میں کیا کر سکتے ہیں؟مجھے اچھی طرح یادہے کہ پابندی سے پہلے میرے شہر، چکوال میں اس کی بہت زیادہ طلب نہیں تھی۔ اب اس کی طلب اس قدر زیادہ ہے کہ اسے پورا کرنے کیلئے کشید کرنا ایک’’ گھریلو صنعت ‘‘ بن چکا لیکن رسد طلب کا ساتھ دینے سے قاصر ہے۔ چنانچہ جو پینے کی عادت میں مبتلا ہیں، اُن کی صحت نہ صرف غیر معیاری مشروب سے خراب ہوتی ہے بلکہ ریاست کے محصولات کوبھی نقصان پہنچتا ہے۔ قہر یہ ہے کہ ہم ان معاملات پرقومی سطح پر بھی بات بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے ہاں یہ شجر ممنوع کا درجہ رکھتے ہیں۔
پاکستان کے دوچہر ے ہیں۔ ایک وہ جس کا ہم دکھاوا کرتے ہیں، اور دوسراوہ جو ہم اصل میں ہیں۔ ہم اس دہری اور منقسم شخصیت کے ساتھ خوش ہیں۔ چنانچہ جائے حیرت نہیں کہ منافقت ہمارا قومی خاصا بن چکی،اور ایسا صرف پینے تک ہی محدود نہیں، بہت سے دیگر معاملات اسی منافقت کا شاہکار ہیں۔ ہم ایک بات کہتے ہیں، جبکہ ہمارے افعال قطعی طور پر اس کے برعکس ہوتے ہیں، لیکن ہمارے ضمیر اتنے ’’پاک صاف ‘‘ کہ خلش کا کوئی گزر ہی نہیں۔ درحقیقت ہمارے ملک میں ایک بات کی تفہیم مشکل ہے۔ اپنے معاملات اور منافقت پر پریشان ہونے کی بجائے ہم نے دوسروںکی اخلاقی بہتری کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ دیگر ممالک، فرض کریں یورپی ممالک میں،جب مسلمان رمضان میں روزہ رکھتے ہیں تو بارز اور نائٹ کلب کھلے رہتے ہیںاور خواتین کا لباس بھی ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے ‘‘ کی مثال، لیکن وہاں ہمارے روزے ان سے متاثر نہیں ہوتے۔ جب وہ دوران ِپرواز روزے کی حالت میں ہوتے ہیں تو ان کے قریب بیٹھے دیگر افراد کھا پی رہے ہوتے ہیں۔ تاہم یہاں وطن میں کوئی چیز ان کی طبع نازک پر گراں گزرے تو وہ اس کے خلاف فوراً میدان میں اتر آتے ہیں۔ کیوں؟

.
تازہ ترین