• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آصف علی زرداری صاحب کی پاکستان آمد کی اطلاع پی پی پی کے ذرائع اور خود بلاول بھٹو زرداری دے چکے تھے، تاثر یہ دیا جارہا تھا کہ وہ آکر پاکستان میں مثبت انقلاب برپا کر دیں گے۔ مثبت انقلاب کی تعریف کرنا پڑے گی کہ یہ اصطلاح نئی ہے اسکو اسطرح آسانی سے بیان کیا جاسکتا ہے کہ جمہوری اقدار کے ذریعے حکومت کی تبدیلی، کرپشن سے نجات یا دوسرے معنوں میں پیپلزپارٹی کے جیالوں کو متحرک کرنا، جیالا کافی بددل ہے اسلئے پی پی پی کو پنجاب میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی حتیٰ کہ بلدیاتی انتخابات میں اُن کو کوئی سیٹ نہیں ملی، پنجاب میں پی پی پی کا جیالا ان کی شہرت سے نالاں ہے، اسی لئے بلاول بھٹو زرداری کو پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے الیکشن میں کام کرنے یا تربیت دینے کیلئے میدان میں اُتاراگیا، اگرچہ انہوں نے جیالوں میں قدرے حرارت پیدا کی مگر وہ اتنی نہیں تھی کہ وہ پی پی پی کیلئے اپنی جان نچھاور کردے جو جیالوں کا خاصہ رہا ہے، اسی لئے بلاول بھٹو زرداری کہیں بھی کامیابی حاصل نہ کرسکے، انہیں گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور بلدیاتی انتخابات میں بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا، اگر وہ مسلسل کام کرتے تو کچھ کر بھی لیتے مگر انہوں نے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی بجائے اپنے والد محترم کی طرف دیکھا، جس سے جیالوں کا دل ایک دفعہ پھر ٹوٹا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بلاول بھٹو زرداری میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرلیں یا انہیں کرنے نہیں دیا جائے گا۔ میرے خیال میں دونوں ہی باتیں درست ہیں، خود آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں پی پی پی پر گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی، محترمہ نے انہیں موقع بھی دیا مگر پھر ہاتھ کھینچ لیا تو وہ اداروں کو بُرا کہنے لگے، کئی سیاستداں اِس کے گواہ ہیں کہ زرداری صاحب دبئی میں بستر علالت پر لیٹے ہوئے پاکستانی اداروں کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اُن کو برباد کردیا، مگر ثابت یہ ہوا کہ آصف علی زرداری پی پی پی پر محترمہ کی موجودگی میں قبضہ نہیں کرسکے اور طے یہ ہوا تھا کہ وہ سیاست میں بھی حصہ نہیں لیں گے مگر پھر محترمہ کی شہادت نے اُن کو سیاست میں آنے اور پی پی پی کو اپنے قابو میں کرنے کا موقع فراہم کردیا، پی پی پی میں دراڑیں پڑ سکتی تھیں اگر وہ صدر پاکستان نہ منتخب ہوتے، اسطرح اقتدار میں آکر انہوں نے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرلی اور جس کسی نےذرا بھی مزاحمت کی اُسے سرزنش کا سامنا کرنا پڑا، اسی طرح لگتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو موقع تو دیا گیا مگر اُن کے ساتھ ساتھ وفادارانِ زرداری رہے، پھر لگتا ہے کہ خود بلاول صاحب میں اپنے والد محترم کے بغیر سیاست کرنے کی خواہش نہیں ہے اور وہ اپنے والد کے سائے میں رہ کر سیاست کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں، اسلئے کہ اُن کے والد سیاست کا تجربہ اور مفاہمت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جبکہ بلاول بھٹو زرداری شعلہ بیانی سے کام لیتے ہیں اور آصف علی زرداری ٹھنڈے مزاج کے حامل ہیں، بلاول صاحب اپنے جیالوں کو آواز دے رہے ہیں کہ ایک اور لڑائی کیلئے تیار ہوجائیں۔ بلاول صاحب کا کہنا ہے کہ 4 مطالبات منوانے کیلئے سیاسی لانگ مارچ کی تیاری شروع کرنے شہر شہر جائوں گا اس پر زرداری صاحب کا یہ کہنا بھی عجیب ہے کہ مفاہمت ختم، اب سبق سکھائیں گے، یہ الیکشن نہیں جیتے پھر بھی حکومت دیدی، مغل بادشاہ نے جمہوریت کا خانہ خراب کردیا، میں اور بلاول موجودہ پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے مگر سوال یہ ہے کہ کیا جیالا اُن کی آواز پر لبیک کہے گا، یا واقعی وہ لڑائی چاہتے ہیں، یا وہ اِسکو بطور دبائو کے استعمال کریں گے۔ ہمارا خیال ہے کہ اُن کا جیالا اور وہ بھی پنجاب کا زرداری صاحب کی اڑان کا ساتھ نہیں دے گا، بلاول بھٹو صاحب اب شہر شہر جائیں یا قریہ قریہ اگر خود مسلم لیگ (ن) نے اپنے پیر پر کلہاڑی نہ ماری تو وہ کامیاب نہیں ہوں گے، وہ صرف دبائو ڈالنا چاہتے ہیں، وہ جب ہی کامیاب ہونگے جب وہ سیاسی پارٹیوں کا محاذ بنانے میں کامیاب ہوجائیں، میاں نواز شریف نے پہلے ہی مولانا فضل الرحمان کو آصف علی زرداری کے پیچھے لگا دیا ہے، مگر مولانا صاحب کا کیا پتہ کہ کب راستہ بدل ڈالیں جو زیادہ مراعات دے گا وہ اُسکے ساتھ ہوجائیں گے، اِسکے علاوہ آصف علی زرداری صاحب صدر پاکستان بننے کے بعد اب وزیراعظم پاکستان بننے کے خواہاں ہیں،مگر اس طرح اس پارلیمنٹ میں جا کر جسکی عمر اب سوا سال سے ذرا اوپر بچ گئی ہے، کیا کریں گے، میاں نواز شریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے، مسلم لیگ (ن) میں توڑ پھو ڑ یا سازشیں کریںگے۔
میرا خیال ہے کہ وہ دبائو ڈالیں گے کہ وعدے کے مطابق پہلے ہم نے باری لی اور پھر آپ کو دی اور اب ہماری باری ہے، اسی حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کا خانہ خراب کردیا ہے، زرداری صاحب آکر جمہوریت کا بول بالا کریں گے، اگر کوئی وعدہ ان دونوں پارٹیوں کے درمیان موجود ہے تو وہ یاد دلا رہے ہیں کہ زرداری صاحب کے حکومت میں آنے کا خود نوزشریف سامان پید اکریں، غیرمقبول ہوجائو، غلط کام کرو اور ہمیں موقع دو، زرداری صاحب نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ الیکشن نہیں جیتے پھر بھی ہم نے حکومت دیدی، یہ تو پھر آپ نے غیرجمہوری کام کیا تو واپس آکر آپ کیسے جمہوریت کو قائم رکھ سکیں گے، وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مفاہمت کو خیرباد کہہ رہا ہوں اور اب نواز شریف کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے، یہ بات تو عمران خان بھی کرچکے ہیں اور کوشش بھی تو دل ناتواں نے خوب کی مگر کامیاب نہ ہوسکے، تو کیا اب عمران خان سے مل کر محاذ آرائی کا ارادہ ہے، دونوں پارٹیوں میں بلا کی دوری ہے وہ کیسے ایک دوسرے کے ساتھ ملیں گی، مگر یہ سیاست ہے اور سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ مگر عوامی سیاست سے تو نواز شریف جاتے نہیں، غیر جمہوری طورپرآنےکا راستہ تو بند ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ پھر وہ کیسے سبق سکھائیں گے۔ پھر موصوف کے پاس دوسرے ہتھیار بھی ہیں جنکو وہ بروئے کار لاسکتے ہیں، میاں صاحب اُن کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہیں، کام بھی کررہے ہیں، اسلئے زرداری صاحب کو صلح جوئی سے کام لینا ہوگا جسکا نواز شریف ان کو عندیہ پہلے سے دے چکے ہیں۔

.
تازہ ترین