• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں مفاد پرست طبقوں نے سیدھی سادی سچائیوں اور اصولوں کی جگہ اپنے مفادات کے لئےہمیشہ ایسے ایسے نظریات پیش کئے جنہیں’’نظریاتی گورکھ دھندے ‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ انہی کی وجہ سے جہاں ہم نے محض 23برسوں میں اپنے ملک کا بڑا حصہ گنوا دیا۔ وہیں ہم بدامنی ، قتل و غارت گری اور بدترین انتہا پسندی کا مرکز بن گئے۔ لیکن نظریاتی انتشار اور کنفیوژن کا یہ سفر اب تک جاری ہے۔ پوری قوم کو مختلف ٹرکوں کی بتیوں کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جن کی کوئی منزل نہیں۔ آج کا ترقی یافتہ انسان صدیوں کی ٹھوکروں کے بعد بڑی مشکل سے اپنی ذاتی زندگی اور امورِ مملکت کے بارے میں کچھ واضح اور نا قابلِ تردید نتائج اور حقائق وضع کرنے کے قابل ہوا ہے۔ جن کی وجہ سے وہ دنیا کی امامت کے جلیل القدر عہدے پر فائز ہے۔ مثلاََ امورِ سلطنت میںعوام کی شرکت اور ذاتی زندگی میں قانون کا احترام جس طرح دنیا کے تمام انسان اپنی انا ٹومی اور فزیالوجی کے حوالے سے ایک جیسے ہیں۔ اسی طرح انکی ترقی اور تنزّلی کے اصول بھی ایک جیسے ہی ہیں۔ جن میں تعلیم ، اخلاقی اقدارکی پاسداری اور رائج الوقت قانون کا احترام شامل ہے۔ لیکن اقتدار کی خاطر ہر اصول کو پسِ پشت ڈالنے والے طبقوں نے ہمیں کسی اور سیارے کی مخلوق بنا دیا ہے۔ جن کی فلاح و بہبود کا اس دنیا کی ’’آفاقی سچائیوں ‘‘ سے کچھ لینا دینا نہیں مثلاََ یہ مضحکہ خیز صورتِ حال صرف ہمارے جیسے ملکوں میںہی نظر آتی ہے جہاں ایک غاصب آمر اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جو آمرانہ نظام نافذ کرتا ہے اسے ’’حقیقی جمہوریت ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس قسم کی شعبدہ بازی ہم نے ایوب خان کے بی ڈی سسٹم ، جنرل ضیاء کی مجلسِ شوریٰ اور پرویز مشرف کے ڈی جی سسٹم میں ملا حظہ کی۔ ہر مرتبہ یہ نوید سنائی گئی کہ یہ ’’اصلی اور وڈی جمہوریت‘‘ بہت جلد ساری دنیا کے ممالک اپنانے والے ہیں۔ لیکن جھوٹ اور منافقت کی بنیاد پر بننے والے یہ نظام چند سال کے اندر یوں بدنام اور ناپید ہوگئے کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ البتہ قوم ان نظریاتی بھول بھلیوں میں کھو کر تباہی اور بربادی کے راستے پر چل پڑی ۔ ہم آج بھی خوفناک فرقہ بندی ، گروہی اور لسانی تضادات میں گرفتار ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کا کوئی نظریہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ اور جو ہاتھ میں کاسہ لئے پھر رہے ہیں جہاں صحت ، تعلیم ، روزگار اور امن وامان کی صورتِ حال دنیا بھر میں بدترین ہے۔ تو کیا وہ لوگ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم آج جس حال کو پہنچے ہوئے ہیں وہ اُن کے خود ساختہ نظریے کا نتیجہ ہے؟ دنیا میں ہر ملک اور قوم کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور اپنی مملکت کے وجود کی سلامتی اور استحکام جبکہ یہاں عوام بدحال اور اصل مملکت معدوم ہو چکی ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت پر شب خون مارنے والے غاصب آمر اور سیاست میں مذہب کو ملّوث کرکے مذہبی تقدّس اور سیاسی اقدار کو پامال کرنے والے اُن کےحمایتی اپنے نظریے کی پشت پناہی کے لئے قائد اعظم کو ڈھال کے طور پر پیش کر تے ہیں۔ حالانکہ قائدِ اعظم نہ تو غاصب یا آمر تھے اور نہ ہی اُن معنوں میں مذہبی شخصیت تھے جو انہیں بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بلکہ معروف معنوں میں مذہبی سیاسی شخصیات قائد ِ اعظم کی بدترین دشمن تھیں۔ وہ تو تقسیم ِ ہند اور قیامِ پاکستان کی بھی مخالف تھیں۔ کیونکہ قائدِ اعظم وضع قطع اور لائف ا سٹائل میں اُن کے تصورِ مسلمانی پر پورے نہیں اترتے تھے۔ انہوں نے ایک ہندو جو گندر ناتھ منڈل کو وزیرِ قانون اور ایک قادیانی سر ظفر اللہ کو وزیرِ خارجہ بنا دیا تھا۔ یعنی آج کے صالحین کے مذہبی نظریاتی ملک کے عوام کے لئے قانون سازی کا فریضہ ایک غیر مسلم ہندو کے سپرد کر دیا گیا تھا اور بیرونِ ملک اس کے تشخص کوا ُجاگر کرنے کی ذمہ داری ایک قادیانی کو دے دی گئی تھی۔ لیکن یہ لوگ اپنی تاویلوں سے یہ پوری طرح ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ پاکستان کی نظریاتی اساس اُن کے خود ساختہ مذہبی انتہا پسندی کے فارمولے پر رکھی گئی تھی۔ بلاشبہ اسلام سمیت تمام مذاہب نے تہذیب کے تمام اصول انسان دوستی کی شکل میں بنی نوع ِ انسان کو دئیے ہیں ۔ جنہیں ہم ’’آفاقی سچائیوں‘‘ (Universal Truths)کے نام سے جانتے ہیں۔ جن میں ایمانداری ، سچائی ، پورا ناپ تول اور انسانوں سے پیار کرنا شامل ہے۔ اور یہ وہ اصول ہیں جن پر دنیا کے کسی مذہب ، رنگ و نسل اور خطّے کے لوگوں میں اختلاف نہیں پایا جاتا۔ لیکن انسانی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے انہیں بھی متفقہ اصول نہیں رہنے دیا۔ جسکی وجہ سے معاشرے دائمی انتشار کا شکار ہوتے رہے۔قتل وغارت گری ہوتی رہی ۔ کیونکہ ہر ایک کی مذہبی تاویلیں اپنی اپنی ہوتی تھیں ۔ اس طرح جہاں ایک طرف معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا رہا ، تو دوسری طرف مذہبی تقدّس تباہ ہوتا رہا جس کا نتیجہ مذہب سے بیزاری کی شکل میں نکلتا رہا ۔ جس کا حل یہ نکالا گیا کہ ان آفاقی سچائیوں کو مذہب کا نام لئے بغیر نافذ کر دیا جائے۔ کیونکہ مقصد نام نہیں عمل ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاست میں مذہبی پیوند کاری کے بعد جو میٹریل طالبان اور مذہبی انتہا پسندوں کی شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے کیا یہی ہماری نظریاتی ریاست کی منزل ہے؟

.
تازہ ترین