• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر فرد بلکہ قوم کا عمومی طور پر ایک خاص مزاج ہوتا ہے جس کے زیر اثر وہ زندگی یا زندگیاں بسر کرتے ہیں۔یہ سعادت صرف اور صرف بہت ہی عظیم قیادت کو حاصل ہوتی ہے کہ وہ عوام کے انفرادی، اجتماعی مزاج کو تبدیل کرکے ان کی تقدیر میں تبدیلی کا سبب بن سکے ورنہ بنیادی طور پر کوئی قوم اعلیٰ یا ادنیٰ ،بدترین یا بہترین نہیں ہوتی۔جو نام نہاد قیادتیں مختلف قسم کے ’’پراجیکٹس ‘‘ کو تقدیر میں تبدیلی کے طور پر دیکھتی اور پیش کرتی ہیں وہ سطحی قسم کے ٹنل وژن والے لوگ ہوتے ہیں کیونکہ دولت کبھی عزت و عظمت کی ضمانت نہیں ہوتی ورنہ پٹرولیم کی ’’برکت‘‘سے راتوں رات امیر ترین بن جانے والے ملک دنیا کی قیادت کر رہے ہوتے لیکن ’’کیمل ٹوکیڈلک‘‘ جیسے مقبول محاوروں کی ’’موجد‘‘ قومیں آج بھی ان قوموں کی کرالری اور ’’سائیڈ ککس‘‘ ہیں جن کے مزاج تبدیل کر دیئے گئے تھے ۔مزاج تبدیل ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی کاگھر، گاڑی، لباس، رہن سہن تبدیل ہو گیا۔ اونٹ سے بینٹلے، کچے کوٹھے سے ولاز تک پہنچنے کو تبدیلی نہیں کہتے کیونکہ یہ تبدیلی کی سطح ترین قسم ہے۔ جوہری تبدیلی کسی اور شے کا نام ہے علم اور عقل سے خالی سر کے اوپر قیمتی ترین دستار رکھ دینے سے اس کی سوچ نہیں بدلتی، رویے تبدیل نہیں ہوتے۔تبدیلی کا مطلب ہے رویوں میں تبدیلی، سوچ میں تبدیلی، عمل اور ردعمل میں تبدیلی اور یہ کارنامہ للو پنجو ٹائپ قیادتیں سرانجام نہیں دے سکتیںکیونکہ ان کا تمام تر فوکس اور سارا زور ’’ظواہر ‘‘ پر ہوتا ہے ۔’’ظواہر ‘‘ کا تعلق روحانی دنیا سے ہو یا مادی دنیا سے کبھی فیصلہ کن نہیں ہوتا۔ اقبال جب یہ کہتا ہے ؎جومیں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صداترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں تو وہ دراصل ’’روحانی ظواہر ‘‘ کو  ہی ہائی لائٹ کر رہا ہے۔اسی طرح اگر کوئی قوم بڑی بڑی عمارتیں بنالے، وسیع عریض شاہراہوں کے جال بچھا دے، سیون سٹار ہوٹلوں کی قطاریں کھڑی کرلے، عالیشان پارکس بھر لے، شاپنگ مالز کے ڈھیر لگا دے تو بھی کارزار ہستی اور کاروبار حیات میں اس کی حیثیت ALSO RANسے بڑھ کر کچھ بھی نہ ہوگی۔عجیب بات ہے کہ انسانی تاریخ میں زوال ہی ان کو آیا جو تمول کے کمال پر تھے اور وہی تہی دامن دنیا پر چھاتے چلے گئے جن کے پلے بظاہر کچھ بھی نہ تھا۔وہ خالی ہاتھ اٹھے اور بڑے بڑوں کو روند کر گزر گئے تو اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ تھی یعنی رویوں میں تبدیلی کیونکہ رویوں میں تبدیلی ہی وہ شے ہے جو ترجیحات میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے اور ترجیحات میں تبدیلی ہی درحقیقت تقدیر تبدیل کرنے کی کلید ہوتی ہے ورنہ ’’پیکنگ‘‘تبدیل کرنے سے ’’پراڈکٹ ‘‘ تبدیل نہیں ہوتی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افراد اور اقوام کے رویے تبدیل کر دینے والی قیادت یہ معجزہ کیسے دکھاتی ہے ؟ کیا یہ کوئی جادوگر ہوتے ہیں؟ ان کے پاس کوئی طلسمی ڈنڈا یا چراغ ہوتا ہے ؟ یہ درختوں پر اگتے ہیں، قیمتی نایاب معدنیات کی طرح زمین کی گہرائیوں سے برآمد ہوتے ہیں یا موتیوں کی طرح سیپیوں سے نکالے جاتے ہیں ؟ ان سب کے برعکس یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے قول اور فعل میں ایٹم جتنا تضاد بھی نہیں ہوتا۔ یہ قوانین ، قواعد وضوابط، آئین وضع کرتے ہی نہیں خود ان پر عمل پیرا ہو کر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کوئی دوسرا ان سے انحراف کا تصور تک نہ کرسکے ۔یہ اپنے اپنے عہد ، اپنے اپنے عصر اور زمانوں کے حساب اور ضروریات کے مطابق ادارے تخلیق کرکے انہیں مضبوط تر کرتے چلے جاتے ہیں۔یہ وہ افراد ہوتے ہیں جنہیں اپنے ’’فانی‘‘ ہونے پر صحیح معنوں میں یقین ہوتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اداروں کی عمر افراد سے کہیں زیادہ لمبی ہوتی ہے ۔ پھر انہی اداروں کے بل بوتے پر ایسا ماحول تخلیق کیا جاتا ہے جس میں ’’خدابندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ‘‘  والی کنڈیشنز جنم لیتی ہیں ۔ تعمیر، تخلیق ، ایجاد و اختراع صرف چند قوموں تک ہی محدود اس لئے ہے کہ وہ لامحدود امکانات کے طلسم ہوشربا میں داخل ہو چکے جبکہ باقی خرافات کے ظلمات میں خیالی شہسواری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔مختلف خیالات کا یہ ہجوم مجھے کچلے جا رہا ہے تو اس کے پیچھے یہ ’’معمولی ‘‘ سی خبر ہے کہ آئندہ چند عشروں کے اندر اندر کوئی انسانی مرض لاعلاج نہیں رہے گا کیونکہ سائنس دانوں نے جو ہم جیسے انسان ہی ہیں، ڈی این اے کی ایڈیٹنگ کا نیا طریقہ دریافت کر لیا ہے جس سے دماغ کے متاثرہ جینز کو ٹھیک کرنے سمیت ناقابل علاج سمجھے جانے والے امراض کے علاج کو بھی ممکن بنایا جا سکے گا۔ اس پیش رفت کو جینیاتی دنیا کا سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے ۔ اب آنکھوں، دل، دماغ اور جگر تک کے ٹشوز کے ڈی این اے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی حاصل ہو جائے گی۔اللہ اکبر  ایک طرف یہ جینیاتی دنیا، دوسری طرف ہماری تعویذ گنڈوں اور چلوں کی جناتی دنیا اور عامل بابے، اسی کو رویوں اور تقدیروں کا فرق کہتے ہیں لیکن ہماری لگامیں ان کے ہاتھوں میں ہیں جو ’’سی پیک ‘‘ سے اپنی پھٹی ہوئی تقدیر سینا چاہتے ہیں۔




.
تازہ ترین