• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لگتا ہے بھلے دن آئیں گے اور آگے بڑھنے میں ہی بھلا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے جن کو قابو کرنے میں کافی آگے بڑھ رہا ہے، گو کہ مذہبی و فرقہ وارانہ انتہاپسندی کی فکری و سماجی جڑیں کاٹنی ابھی باقی ہیں۔ کراچی تا فاٹا حالات بد سے بہتر ہوئے ہیں، مگر بلوچستان پر سیاسی نظرِ کرم کی ابھی بہت کمی ہے۔ پاکستانی معیشت بھی سنبھل رہی ہے اور Forbes میگزین کے مطابق شرح نمو 6% تک پہنچنے کو ہے۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج کی حاصلات گزشتہ سات برس میں 400% سے تجاوز کر گئی ہیں۔ افراطِ زر 4%، مالی خسارہ 4/5%، شرح سود 5/6% اور سب سے بڑھ کر چین پاکستان اکنامک کاریڈور میں سرمایہ کاری اب بڑھتے بڑھتے 5,700 ارب تک پہنچنے کو ہے۔ 2016ء کی ہنگامہ آرائیاں دم توڑتے توڑتے ابھی شاید چند ماہ اور لیں کہ اگلے بجٹ کے بعد سے انتخابی سرگرمیاں زور شور سے چل نکلیں گی۔ اِس دوران وزیراعظم نواز شریف کی چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاقِ جمہوریت) کی یاددہانی بھی خوش آئند ہے اور آصف زرداری کی واپسی بھی۔ پانامہ کیس سپریم کورٹ میں پھر سے آئے گا اور عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ سبھی کو منظور ہونا چاہئے۔ فوجی بغاوت کا شبہ ہے نہ سول ملٹری تعلقات میں ابھی کوئی کھنڈت دکھائی پڑتی ہے۔ پاک چین اور روس کے اشتراک سے افغانستان میں مصالحت اور استحکام کے پھر سے نئے امکان اُبھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ رہے پاک بھارت تعلقات تو لگتا ہے کہ نریندر مودی پنجاب اور یوپی کے انتخابات کے بعد پھر سے میاں نواز شریف کی امن کی آشا پہ غور کریں اور بات چیت کا سلسلہ پھر سے چل نکلے۔ اب نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کیا گل کھلاتے ہیں، سیٹ بیلٹ باندھے رکھنے کی ضرورت ہے۔ 2016ء کا اختتام تو اچھا ہو رہا ہے، غالباً 2017ء اور بھی بہتر ہوگا اور پاکستان اپنے جمہوری عبور کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے 2018ء کے انتخابات کے منصفانہ انعقاد کی جانب بڑھ جائے گا تو بس سمجھیں خیر ہی خیر ہے۔گزشتہ برس خوب ہنگامہ رہا۔ عمران خان چوکے چھکے لگاتے اور بنا میچ جیتے پویلین میں پہنچ گئے۔ امپائر کی انگلی کھڑی ہونی تو دُور کی بات، سپہ سالار پیشہ ورانہ فرائض بخوبی انجام دے کر گھر سدھارے (اور اب سعودی عرب پہنچ گئے)۔ پانامہ کے شور شرابے نے ساری قومی توجہ کرپشن کی جانب مبذول کیے رکھی، لیکن سرا ہے کہ ہاتھ لگتا نظر نہیں آتا۔ وزیراعظم نے تو کیا پھنسنا تھا وہ جو پانچ سو کے قریب کھاتہ دار تھے، اُن میں سے بھی کوئی ہاتھ نہ آیا۔ آخر کب کرپشن کے مؤثر سدباب اور احتساب کیلئے ہم کوئی قابلِ اعتماد نظام تشکیل دے پائینگے اور فقط ماضی کے گھپلوں کی مٹی چھانتے پھریں گے؟ بہتر ہے کہ عمران خان کسی مؤثر نظامِ احتساب کا خاکہ پیش کریں جس میں اچھی حکومت کو یقینی بنانے کے اقدامات بھی ہوں۔ اور پارلیمنٹ اتفاقِ رائے سے سبھی کے احتساب اور بڑوں کے احتساب کا نظام مرتب کر دے جس کے تحت سبھی حکمران لوگ جوابدہ بھی ہوں اور قابلِ گردن زدنی بھی۔ پچھلے برس سول ملٹری تعلقات بھی مضمحل رہے اور میڈیا کا بڑا حصہ جانے کیوں اُچھل اُچھل کر جمہوری نیّا ڈبونے پہ اُدھار کھائے بیٹھا تھا یا پھر اپنے ہی قتل کا بندوبست کرنے پہ مائل رہا۔ ایسے چھچھوروں کے ہاتھ میں میڈیا کی تلوار آ گئی جو اپنا ناک کان ہی کاٹنے پہ مصر نظر آئے۔ افواج کا پچھلی نشستوں پہ بیٹھنا ہی اُن کیلئے اور جمہوریہ کیلئے اچھا ہے اور لگتا ہے جنرل باجوہ اس جانب مائل ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابیوں کو آگے بڑھائیں گے اور سرحدوں پر امن و امان کے قیام کیلئے وزیراعظم کی اعانت کریں گے۔ جنگِ عظیم دوئم میں برطانیہ کے وزیراعظم چرچل نے تو کہا تھا کہ جنگ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اسے جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہمارے ہاں کم از کم خارجہ امور کو سویلین ہاتھوں میں رہنے دیا جائے تو سلامتی اور عالمی امور بہتر طور پر سلجھائے جا سکیں گے۔گزشتہ برس چین پاکستان اکنامک کاریڈور پر صوبوں خاص طور پر پختون خوأ اور سندھ کے تحفظات چھائے رہے۔ بلوچستان سے جائز آوازیں اُٹھتی رہیں کہ اس ترقی میں بلوچ کہاں ہیں؟ لیکن چین پاکستان اقتصادی راہ داری کیلئے مشترکہ کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں شہباز شریف کے علاوہ سبھی وزرائے اعلیٰ موجود تھے۔ کیٹی بندر گھارو دھابیجی کے ـصنعتی زون، کراچی سرکلر ٹرین سمیت توانائی کے تین منصوبوں کی منظوری کے بعد سندھ کے وزیراعلیٰ خوش خوش لوٹے ہیں۔ جبکہ پختون خوأ کے وزیراعلیٰ بھی اپنے صوبے کے کچھ منصوبے منوا کر آئے ہیں۔ اب تمام صوبوں میں ایک ایک صنعتی زون بنے گا۔ صوبائی دارالحکومتوں میں سرکلر ٹرین، پاکستان ریلویز کی تعمیرِ نو، بلوچستان اور خیبر پختون خوأ میں مزید سڑکوں کی تعمیر اور سب سے بڑھ کر گوادر کی توسیع اور ماسٹر پلان پر عمل درآمد میں پیش رفت، حالیہ اجلاس کا ثمر ہے۔ اب سبھی صوبے اس اقتصادی شاہراہ میں شامل ہو گئے ہیں۔ البتہ بلوچستان کا معاملہ کہیں زیادہ توجہ کا طالب ہے۔ بلوچستان میں سیاسی حل کے ساتھ ساتھ بلوچوں کو گوادر پورٹ کے ثمرات سے بھرپور طور پر مستفید ہونے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ بجلی کے دس ہزار میگاواٹ کی پیداوار کے منصوبوں پر عمل درآمد جاری ہے اور اُمید ہے کہ 2018ء میں لوڈشیڈنگ بالکل ختم نہیں تو بہت کم ہو جائے گی اور پاکستان بجلی کے بحران سے اگلے سالوں میں بالکل نکل جائے گا۔ بہتر ہے اب پانی و بجلی کے منصوبوں پر توجہ مبذول کی جائے کہ توانائی سستی ہو اور پانی میسر ہو۔2016ء میں ہی بڑی کامیابی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں رہی۔ فاٹا سے دہشت گردوں کا صفایا ہو گیا ہے، کراچی میں امن بحال ہو چکا ہے اور قتل و غارت گری میں تین چوتھائی کمی واقع ہو گئی ہے۔ اب نیشنل ایکشن پلان کے اُن حصوں پر عمل درآمد کی ضرورت ہے جن پر کم توجہ دی جا سکی ہے۔
مذہبی انتہاپسندی، مدرسوں میں اصلاحات، متبادل جمہوری اور امن پرور اور رواداری کا بیانیہ، بلوچستان کی شورش کا جمہوری سیاسی حل، پولیس اور سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اصلاح و مضبوطی، عدالتی نظام کی اصلاح اور اندرونی سلامتی کیلئے مجوزہ اداروں پہ پیش رفت ایسے معاملات پر توجہ درکار ہے۔ فوج نے اپنا کام کر لیا اب معاملہ سویلین اداروں کا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں زیادہ سرعت سے سنبھالیں۔ فاٹا کی اصلاحات اور بے دخل لوگوں کی بحالی سرفہرست ہونی چاہئے۔
اب وقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی جانب متوجہ ہوں اور حکمران جماعتیں اپنی اپنی کارکردگی کے جائزہ کیلئے خود کو عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے تیار ہوں۔ 2017ء کو حکومتی، انتظامی، عدالتی اور سماجی شعبوں کی ترقی اور غریب عوام کی خوشحالی کی جانب توجہ دیں۔ سندھ حکومت بدنما حکمرانی کے داغ دھوئے اور خیبرپختون خوأ کی تحریکِ انصاف کی حکومت دعوئوں سے بڑھ کر کارکردگی بڑھانے پر توجہ دے۔
دریں اثنا موجودہ پارلیمنٹ، انتخابی اصلاحات، مردم شماری، اچھی حکومت کے قیام کی اصلاحات، احتساب کے مؤثر نظام کی تشکیل اور سیاسی و اخلاقی ضابطۂ اخلاق کی تشکیل پر توجہ مرکوز کرے۔ وزیراعظم کو اپنے علاقائی وژن کو آگے بڑھانے کیلئے خطے میں امن، دہشت گردی کے خاتمے اور معاشی و علاقائی تعاون کیلئے پہل قدمی کرنی چاہئے۔ وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے عہد کو آگے بڑھانے کیلئے پارلیمنٹ کے اعتماد اور قومی اتفاقِ رائے سے آگے بڑھیں۔ 2017ء کی تکمیل پر جب 2018ء شروع ہو تو قوم آگے بڑھے اور اگلے انتخابات میں سیاسی جماعتوں، سیاسی قائدین اور عہدیداروں کا اُن کی کارکردگی اور آئندہ کیلئے لائحۂ عمل کی بنیاد پر احتساب و انتخاب کرے۔ لگتا ہے بھلے دن آئیں گے اور آگے بڑھنے میں ہی بھلا ہے! (کاش! سب اچھا رہے)۔



.
تازہ ترین