• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں سندھ اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کی رو سے 18 سال سے کم افراد کو زبردستی تبدیلیٔ مذہب ایک جرم قرار دیا گیا ہے۔ قانون تو اچھا ہے لیکن 18 سال کی عمر کا تعین کرنا ناقابل فہم ہے۔ یورپ میں (جس کی ہماری ذہنیت غلام ہے) 12 سے لیکر 15 سال تک کے بچوں کو اپنے اعمال کا خود ذمّہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس قانون کے چند اہم نکات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
(1) جبری تبدیلیِٔ مذہب ایک قابل نفرت اور پُرتشدّد جرم ہے۔یہ مسئلہ سندھ میں عام ہو چکا ہے جہاں زیادہ ترایسے واقعات وقتاً فوقتاً سامنے آتے ہیں۔ (2) جبری تبدیلیِٔ مذہب کو جرم قرار دینا اور اس قابل نفرت عمل کے شکار لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔ (3) عدالت پہلی سماعت کی تاریخ طے کریگی جو کہ پٹیشن کی تاریخ وصولی سے سات دن سے زیادہ نہ ہوگی۔ (4) متاثرہ فرد کو سماعت کی مدّت کے دوران کسی دارالامان کی نگرانی میں عارضی طور پر دیا جائے گا۔ (5) ایسا کوئی بھی شخص جو متاثرہ فرد کی جگہ کے بارے میں بتلائے گا وہ توہین عدالت کی سزا کا مستحق ہوگا۔ (6) کسی بھی فرد کے بارے میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کرلیا ہے جب تک کہ وہ 18 سال کا نہ ہوجائے۔
آپ دیکھتے ہیں یہ شرائط کلام اِلٰہی اور فرمودات رسول اللہ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ میں آپ کو اس کی تشریح کرکے بتاتا ہوں۔ یہ تاثرات پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی، عطاء اللہ خان اور مفتی رشید احمد خورشیدصاحب سے گفتگو کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ دراصل یہ کام اسلامی نظریاتی کونسل کا ہے وہ فوراً اس غیرشرعی قانون کے خلاف آواز بلند کریں۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے۔ (1) ’’اور جب تمھارے لڑکے سنِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو چاہئے کہ وہ بھی (گھر میں داخل ہونے کے لئے) اجازت طلب کیاکریں‘‘ (سورۃ النور آیت 59 )۔ (2) ’’بلاشبہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں ان لوگوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں‘‘ (سورۃ آل عمران، آیت 190 )۔ اس طرح کا مضمون قرآن کی متعدد آیات میں موجود ہے اور ان میں سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے لئے اللہ نے کائنات میں غور کرکے اللہ کی توحید سمجھنے کی ترغیب اور دعوت دی ہے۔ (3)’’ اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے‘‘ (سورۃ یونس آیت 25 )۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے بندوں کو دارالسلام کی طرف دعوت دی ہے اور اس کا واحد راستہ اسلام کو بنایا ہے تو سمجھدار بچے کو اللہ کی دعوت قبول کرنے سے روکنا کسی طرح جائز نہیں۔ (4) جس نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ جنت میں داخل ہوگیا (بخاری و مسلم)۔ یہ حدیث عام ہے اور اس میں بچہ بھی شامل ہے۔ (5) پیدا ہونے والا ہر ایک بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے (بخاری و مسلم)۔ (6) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی بچے کو اسلام کی دعوت دی اور اس نے اسلام قبول کرلیا اور پھر رسول اللہ ؐنے اس پر اللہ کی حمد و ثنا کی (بخاری، حدیث 1290 )۔
اسلام ایک عبادت ہے تو جس طرح دوسری عبادت مثلاً روزہ، نماز، حج، عاقل سمجھدار بچے کی درست ہے تو اس کا اسلام لانا بھی درست ہے اور جس طرح اس کی دوسری عبادات کو رَد نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اس کے اسلام قبول کرنے سے بھی نہیں روکا جاسکتا۔
آئیے آپ کو چند اور حقیقی واقعات بتلاتا ہوں:
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ نو سال کے تھے کہ آپ کے سینے میں ایمان کی شمع جگمگ جگمگ کرگئی۔ ان کے والد کا نام ’’جلاس‘‘ تھا، جو بہت سخت رویہ رکھتے تھے اور اسلام کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ ان کے بیٹے حضرت عمیر ابھی بچے تھے کہ اسلام کا نور ان کے دل میں داخل ہو کر اندر کے جہان کو آباد کر گیا۔ اسلام کی حلاوت و تراوٹ ان کے کانوں میں رس گھولتے ہوئے دل و دماغ میں جاگزیں ہو کر روح و دل پر اثر کرچکی تھی۔ والد نے بہت سختی کی، منع کیا، ڈانٹا، ڈرایا اور دھمکایا۔ حضرت عمیر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر یہ اطلاع بھی دے دی کہ میرے والد نے آپ کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب کیا تو انکار کرنے لگے۔ پھر اسی سلسلے میں قرآن کریم کی یہ آیت: ’’ یحلِفون بِاللہِ ماقالوا، ولقد قالواکلِم الکفر۔‘‘ نازل ہوئی۔ روایات کے مطابق بعد میں یہ بھی توبہ تائب ہوکر مسلمان ہوگئے تھے۔ (سیرۃ ابن ہشام ج3 ص53،مکتبہ دارلجیل، بیروت)
حضرت عمیر بن ابی وقاص ؓنے کتنی کم عمری میں اسلام قبول کیا ہوگا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سولہ سال کی عمر میں آپ میدانِ بدر میں جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ یہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے چھوٹے بھائی تھے۔ فرماتے ہیں کہ جب میدان بدر کیلئےشرکاء کا انتخاب کیا جارہا تھا تو یہ باربار کبھی کسی کی اوٹ میں چھپ جاتے تو کبھی کسی کے پیچھے کھڑے ہوجاتے۔ پوچھنے پر فرمانے لگے کہ میں اس لئے ادھر ادھر چھپتا پھر رہا ہوں کہ کہیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم مجھے کم عمر اور چھوٹا سمجھ کر واپس نہ کردیں۔ چنانچہ حضرت سعدؓ فرماتے ہیں کہ یہ بدر میں شریک ہوئے اور ان کے تلوار کی نیام میں نے باندھ کر دی کہ یہ بہت چھوٹے ہونے کی وجہ سے خود نہیں باندھ سکتے تھے۔ یوں شریک ہوئے اور شہادت کے مرتبے سے سرفراز ہوئے۔ (الاصاب فی تمیز الصحاب ج4 ص725، بیروت)۔
حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ میدان بدر میں جب جنگ شروع ہوئی، میں نے اپنے دونوں جانب دیکھا تو دونوں جانب دو بچے کھڑے تھے۔ میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اگر کوئی طاقتور نوجوان میرے آس پاس ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ اتنے میں ان میں سے ایک بچے نے پوچھا کہ ہمیں بتائیے کہ ان لوگوں میں سے ابوجہل کون سا ہے؟ حضرت عبد الرحمان بن عوف فرماتے ہیں کہ مجھے حیرت بھی تھی کہ یہ بچے کیوں پوچھ رہے ہیں، لیکن ابوجہل سامنے آیا تو میں نے ان کو بتایا کہ یہ ہے تمہارا مطلوبہ شخص۔ فرماتے ہیں کہ میرا یہ بتانا تھا کہ اتنے میں ایک بچہ لپکا اور اس کی ٹانگ پر وار کرکے اس کو گرایا اور دوسرے نے جھپٹ کر اس کا کام تمام کردیا۔اسکے علاوہ حضرت زید بن ثابت، حضرت رافع ابن خدیج، حضرت سمر ابن جندب، حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ، حضرت ثعلبہ ابن عبدالرحمان، حضرت انس رضی اللہ عنہم اجمعین اور دیگر کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کم عمری میں اسلام قبول کیا۔
(سیر اعلام النبلا ج2 ص428، اور ج3 ص 397/ 181 م: بیروت) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کم عمر صحابہ کے ساتھ خصوصی شفقت اور محبت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے اور کیوں نہ فرماتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد اور نزول وحی کی واحد غرض ہی یہی تھی کہ لوگوں کو دین کی طرف بلایا جائے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے، مرد ہوں یا خواتین، جوان ہوں یا بوڑھے، ہر شخص کو دین کی دعوت دی جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری زندگی اس مقصد، اسی مشن، اسی نظریے اور اسی وژن کو سامنے رکھتے ہوئے بسر کی۔ آپ تو ہر وقت اسی غم میں پریشان و فکرمند رہتے تھے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ اس قدر فکرمندی کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرما کر تنبیہ فرمائی کہ اس قدر غم اور فکر آپ کرتے ہیں کہ اپنی جان کو ہی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اتنا غم اور اتنی کڑھن، اتنا درد اور اتنی فکر، اتنا اضطراب اور اتنی بے چینی صرف اس بات کی کہ لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں۔
یہ تو چند صحابہ کا ہم نے بطور نمونہ ذکر کیا۔ یہ فہرست تو کافی طویل ہے۔ اس سے ہٹ کر اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مبارک حدیث پر غور کریں جس کو امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے اپنی صحیحین (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1292۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2658 )میں نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی بناتے ہیں، نصرانی بناتے ہیں یا مجوسی بناتے ہیں جیسے ایک جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے۔ کیا تم نے اس میں کوئی ناک کٹا دیکھا؟‘‘۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد حضرت ابوہریرہ ؓ قرآن کریم کی یہ آیت بھی پڑھتے ہیں ’’فطر اللہ التِی فطر الناس علیہا، لاتبدیل لخلقِ اللہِ ذلِک الدِین القیم‘‘ یعنی اس آیت کو ذکر کرکے ابوہریرہ ؓ نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ فطرت سے مراد دین فطرت ہے اور وہ دین اسلام ہے۔
محدثین نے اس حدیث کی تشریح میںیہ بات لکھی ہے کہ جب کوئی بچہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو یہ اس ماحول کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوتا، بلکہ اپنی اصل فطرت کی وجہ سے مسلمان رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان اور ہر بچے کی فطرت میں جو مذہب رکھا ہے وہ مذہب اسلام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نے اس حدیث شریف میں یہ نہیں فرمایا کہ ’’یا اسے مسلمان بنا دیتے ہیں‘‘۔ اگر ماحول کی وجہ سے ہی مسلمان ہوتا تو حضور یہ بھی ارشاد فرماتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ہونا یہ فطرت کا تقاضا ہے۔ ہاں اگر کوئی بچہ غیرمسلم گھرانے میں پیدا ہوتا ہے اور بڑا ہوکر وہ غیرمسلم رہتا ہے تو اس کا سبب اس حدیث کی روشنی میں اس کے والدین اور اس کا گھرانہ اور ماحول ہے چنانچہ علم الاقوام کے ماہرین (Ethnologists) کا سالوں کے مناظروں اور مباحثوں کے بعد اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ انسانیت کا پہلا دین توحید ہے۔ یہ وہ زمینی حقیقت ہے جس کا مسلم تو مسلم کافر بھی معترف ہیں۔
اس ساری تفصیل سے یہ بات بالکل کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ بچے کو اسلام قبول کرنے سے روکنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ اس کو دیکھنے سے روکیں، سننے سے روکیں، بات کرنے سے روکیں، چلنے پھرنے سے روکیں۔ جس طرح یہ ساری چیزیں اس کی فطرت کا حصہ ہیں، بعینہ اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر دین اسلام اس کی فطرت اور سرشت کا لازمی حصہ اور جز ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے بچے کو تعلیم اسلئے نہ دلائے کہ نہ جانے یہ بڑا ہو کر تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے یا نہیں؟ پتا نہیں یہ ریاضی پڑھنا چاہتا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی شخص اس بنیاد پر اپنے بچے کو تعلیم سے ناآشنا رکھے تو اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہوگی؟ تو کیا دین سے دور رکھنا اور بے دین بنانے کو ہم اس سے بھی کم درجے کی چیز سمجھ بیٹھے ہیں۔




.
تازہ ترین