• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع کامیابی اور ان کی انتخابی مہم میں اسلام مخالف اور بھارتی حمایت میں بیانات سے پاکستانیوں کے ذہنوں میں یہ سوالات جنم لے رہے تھے کہ جنوری 2017ء سے نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کیلئے اپنی پالیسیوں میں کیا کوئی تبدیلی لائے گی اور اُس کے پاک امریکہ تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انہی سوالوں کے جواب کیلئے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ڈپلومیٹک افیئرز کے چیئرمین اشتیاق بیگ نے گزشتہ ہفتے نئے امریکی قونصل جنرل گریس شیلٹن، سیاسی و معاشی امور کے ماہر فرینک پی تالیتو اور ان کی 5 رکنی ٹیم کے ہمراہ فیڈریشن ہائوس میں ایک اہم میٹنگ منعقد کی جس میں میرے علاوہ ٹی ڈیپ کے چیف ایگزیکٹو ایس ایم منیر، فیڈریشن کے زبیر طفیل، حنیف گوہر، سمیع خان اور گلزار فیروز کے ہمراہ بڑی تعداد میں ملک کے ممتاز صنعتکاروں، ایکسپورٹرزاور بزنس لیڈرز نے شرکت کی۔ اس موقع پر میں نے پاکستانی ایکسپورٹرز کو امریکہ میں مارکیٹ رسائی کیلئے ایک پریذنٹیشن دی جو آج قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔میں نے بتایا کہ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر، سرمایہ کار اور معاشی مددگار ملک ہے جس کے ساتھ مل کر پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1950ء سے پاک امریکی تعلقات کا ایک تاریخی پس منظر ہے جس میں بڑے نشیب و فراز اور قربت و فاصلے دیکھنے میں آئے۔ 1965ء میں پاکستان پر پابندیوں کے باعث چین پاکستان کے قریب آیا جہاں سے پاک چین اسٹریٹجک تعلقات شروع ہوئے۔ 1970ء کی دہائی میں ایٹمی پھیلائو کے روک تھام کے سلسلے میں امریکہ کے دبائو اور چین کی حمایت دیکھنے میں آئی لیکن 1978ء میں سوویت یونین، افغان سرد جنگ سے پاک امریکی تعلقات میں نہایت قربت پیدا ہوئی۔ 1990ء میں سوویت یونین کی سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ پاکستان تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے اور پاکستانیوں میں یہ احساس جاگا کہ امریکہ نے سوویت یونین سرد جنگ میں پاکستانیوں کو استعمال کیا اور اس بات کا اعتراف خود سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کیا کہ ’’پاکستان کی موجودہ خراب صورتحال کا ذمہ دار امریکہ ہے۔‘‘ 2000ء میں طالبان، القاعدہ اور دیگر مجاہدین افغانستان میں سرد جنگ ختم ہونے کے بعد پاکستان منتقل ہوئے اور یہاں انتہا پسندی کا آغاز ہوا۔2001ء میں امریکہ میں پیش آنے والے 9/11 واقعہ کے بعد دنیا میں صورتحال یکسر بدل گئی جس نے پاک امریکی تعلقات کو ایک نئی سمت دی اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور نیٹو فورسز کا فرنٹ لائن اتحادی بنا جس میں ہمیں بے انتہا معاشی نقصانات اٹھانے پڑے۔2001ء سے 2016ء تک پاکستان کو مجموعی طور پر 118 ارب ڈالر (9869 ارب روپے)کا نقصان ہوا جبکہ 322 امریکی ڈرون حملوں میں 2005ء سے 2016ء کے دوران 2808 افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری اور ایکسپورٹس میں کمی، نجکاری کا عمل متاثر اور ملکی انفرااسٹرکچر تباہ ہوا۔ ملک میں صنعتکاری کا عمل رک گیا جس سے ملکی جی ڈی پی میں نہایت کمی ہوئی اور نئی ملازمتوں کے مواقع نہایت محدود ہوگئے۔ اس عرصے میں امریکہ نے پاکستان کو معاشی سیکورٹی اور اتحادی سپورٹ فنڈ کی مد میں33 ارب ڈالر دیئے جو ہمارے نقصانات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
پاکستان کی امریکہ کو ایکسپورٹس 3.5 ارب ڈالر اور امریکہ سے امپورٹ 1.78 ارب ڈالر ہے، اس طرح پاکستان امریکہ کی مجموعی باہمی تجارت 5.28 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کی ایکسپورٹس میں 85 فیصد ٹیکسٹائل اور باقی میں لیدر، ایگریکلچر اور فارما مصنوعات شامل ہیں جبکہ امریکہ سے امپورٹ میں مشینری، آئرن اور اسٹیل، آئل سیڈز شامل ہیں۔ امریکہ نے اپنے جی ایس پی پروگرام کے تحت پاکستان کو دسمبر 2017ء تک 3500 مصنوعات رعایتی کسٹم ڈیوٹی پر ایکسپورٹ کی اجازت دے رکھی ہے لیکن اس اسکیم کے تحت پاکستان صرف 200 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ کررہا ہے جس میں جیولری، کارپیٹ، کٹلری اور سرجیکل آلات شامل ہیں۔ امریکہ نے 2008ء میں پاکستان میں 1.3 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی جو 2015ء میں کم ہوکر صرف 209 ملین ڈالر رہ گئی جبکہ 2016ء میں نئی سرمایہ کاری آنے کے بجائے 65.5 ملین ڈالر ملک سے باہر بھیجے گئے جو لمحہ فکریہ ہے جس کی ایک وجہ پاکستان اور امریکہ کے مابین باہمی سرمایہ کاری معاہدے (BIT)پر دستخط نہ ہونا ہے۔ امریکہ نے یہ معاہدہ 41 ممالک سے کیا ہوا ہے جن میں شامل بحرین، مراکش، اردن، ہنڈراس، موزمبیق، تیونس اور یوروگوئے کے ساتھ امریکہ نے آزاد تجارتی معاہدہ (FTA) بھی کئے ہیں جس کے تحت ان ممالک کو ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی مراعات حاصل ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ 2004ء میں BIT پر مذاکرات شروع کئے تھے لیکن پاک امریکہ سرمایہ کاری معاہدے میں کچھ ناقا،بل قبول سخت شرائط کے باعث دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر دستخط نہ کئے جاسکے۔ مثال کے طور پر امریکہ نے معاہدے میں اپنے سرمایہ کاروں سے تنازع کی صورت میں معاملے کو مقامی عدالت کے بجائے عالمی عدالت میں لے جانے اور حکومت پاکستان کو ملکی ٹیکس قوانین میں تبدیلی کرنے کے خود مختار فیصلے کی اجازت نہ دینا ہے جس کی وجہ سے یہ معاہدہ یکطرفہ لگتا تھا تاہم امریکہ کو معاہدے کا جائزہ لے کر اس کی شرائط کو نرم کرنے کی ضرورت ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو امریکہ کی ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی اور فری ٹریڈ ایگریمنٹ کیلئے BIT کے تنازعات کو جلد از جلد دور کرکے آزاد تجارتی معاہدے کی طرف پیشرفت کرنا چاہئے جس سے دونوں ممالک کے مابین تجارت و سرمایہ کاری کو فروغ حاصل ہوگا۔ یاد رہے کہ 2003ء میں امریکہ اور پاکستان کے مابین تجارت و سرمایہ کاری کے فریم ورک کیلئے ایک معاہدے (TIFA) پر دستخط کئے تھے اور رواں سال اکتوبر میں امریکی وفد جس کی قیادت مائیکل فرومین کررہے تھے، نے وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان سے ایک اجلاس میں امریکی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی، لیبر اصلاحات میں تعاون، آئی پی آر، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے فروغ اور کلین انرجی کے فروغ کیلئے اقدامات کرتے ہوئے تین انویسٹمنٹ فنڈز اور یو ایس ایڈ کی فنڈنگ کا اعلان کیا تھا۔ میں نے اپنی پریذنٹیشن میں امریکی قونصل جنرل کو بتایا کہ مستحکم معاشی پاکستان خطے کیلئے ناگزیر ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کے بعد ملک میں امن و امان کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے پاکستان کی معاشی کارکردگی کی تعریف کی ہے اور سی پیک منصوبوں کے تحت جلد ہی پاکستان انرجی کے حصول میں خود کفیل ہوجائیگا۔ پاکستان میں امن و امان کی بہتر صورتحال کے پیش نظر امریکہ کو اپنی ٹریول ایڈوائزری پابندیوں کو نرم کرنا ہوگا جبکہ BIT معاہدے پر جلد از جلد دستخط ہونے سے امریکی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راہ ہموار ہوگی اور وہ سی پیک کے منصوبوں میں پرائیوٹ سیکٹر کے ساتھ سرمایہ کاری کرکے اسکے گیم چینجر منصوبوں سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ملک میں صنعتکاری سے بیروزگاری میں کمی آئیگی جو پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو مستحکم رکھنے میں مدد دے گی۔




.
تازہ ترین