• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سال نو کے آغاز پر غل غپاڑا کرتے اور پٹاخے پھوڑتے منچلوں کے من میں جانے کس قسم کے لڈو پھوٹ رہے تھے مگر میں یہ سوچ کر نہال ہوئے جا رہا تھا کہ ہم 2016ء میں بھی جمہوریت بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس شادمانی کی وجہ ایمان کی حد تک اس بات پریقین ہے کہ جمہوریت ہی ہمارا مستقبل ہے۔ مگر گاہے یوں لگتا ہے جیسے عوام کے برعکس حکام کا جمہوریت پر ایمان قدرے متزلزل اور غیر پختہ ہے۔ جمہوریت کے نام نہاد ٹھیکیداروں،علمبرداروں، پتھارے داروں اور اجارہ داروں کے غیر جمہوری رویے ملاحظہ فرمائیں نہ تو ان کی اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہے اور نہ ہی وہ وطن عزیز میں حقیقی اور بنیادی جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا :
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
مگر ہمارے ہاںتوجمہوریت کوبندے گننے کا تکلف بھی گوارہ نہیں۔ مردم شماری کی مرثیہ خوانی پھر کبھی سہی۔ فی الحال بلدیاتی نظام کے انجام پر رو نا آرہا ہے۔ دنیا بھر میں بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری سمجھا جاتا ہے مگر ان کی خواہش ہے کہ یہ نرسریاں کسی صورت آباد نہ ہونے پائیں تاکہ مصنوعی پیوندکاری کا سلسلہ جاری رہے۔ 31دسمبر2009ء کا سورج غروب ہوا تو بلدیاتی نظام کی آب و تاب بھی گئی۔ جمہوری حکومتوں نے سوچا بلدیاتی نمائندے آگئے تو ترقیاتی بجٹ ارکان پارلیمنٹ سے ان کو منتقل ہو جائیگا،گلی محلوں میں نالیاں اور سڑکیں وہ بنوائیں گے،ٹرانسفارم ان کی مرضی سے نصب ہو گا، چھوٹے موٹے ترقیاتی کاموں پر افتتاحی تختیاں ان کی آویزاں ہوں گی،تھانے کچہری میں ان کی سنی جائے گا تو ہم کیا بیچیں گے؟بس پھر کیا تھا،جمہوریت کے گھوڑے نے طے کر لیا کہ بلدیاتی نظام کی گھاس سے دوستی نہیں کرنی۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بلدیاتی الیکشن کروانے کیلئے دبائو بڑھتا گیاتو نت نئے عذر اور بہانے منظر عام پر آتے چلے گئے۔ 6سال بعد جمہوریت کا پرچار کرنے والوں کو محسوس ہوا کہ عدالت تو ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئی ہے اور اب کوئی ایسی ترکیب سوچنا پڑے گی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ بس پھر کیا تھا جھٹ پٹ قانون سازی کا مرحلہ مکمل ہوا،ہومیو پیتھک نوعیت کا قانون بنایا گیا جسے جب چاہا مومی ناک کی صورت حسب منشا مروڑ لیا۔ بادل نخواستہ انتخابات کروانے کا فیصلہ ہوا تو یہ ملکی تاریخ کے طویل ترین انتخابات ثابت ہوئے۔ پہلے مرحلے کے شیڈول کا اعلان ہونے سے آخری اور تیسرا مرحلہ مکمل ہونے تک ڈیڑھ سال بیت گیا۔ انتخابی عمل کے دوران یہ اہتمام بھی کیا گیا کہ ضلع کونسل اورتحصیل کونسل کی چیئرمینی اپنے گھر میں رہے اور ارکان پارلیمنٹ کے قریبی عزیز ہی ان عہدوں پر متمکن ہوں تاکہ اختیارات تقسیم نہ ہوں۔ تفصیل میںجانے اور رشتہ داریاں واضح کرنے پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں،اس لئےبلا توقف آگے بڑھتے ہیں۔
سرائیکی زبان کا ایک بہت خوبصورت محاورہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ چیونٹی اونٹ کو تکیہ سمجھ کر سوئی پڑی ہے اور اب بھی یہ سوچ رہی ہے کہ تکیہ یا سراہنا کچھ مزید اوپر نہ کرلیا جائے۔ جمہوریت کا دم بھرنے والے بھی یہ سب اہتمام اور انتظام کرنے کے باوجود مطمئن نہ ہوئے تو انہوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے گرد ایک اور حصار بنانے،ایک اور فصیل کھڑی کرنے کا فیصلہ کر لیااور پنجاب میں انگریز کا بنایا ہوا کمشنری نظام بحال کر دیا تاکہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ پرویزمشرف کی آمد سے پہلے تحصیل میں ڈپٹی کمشنر،ضلع میں کمشنر اور ڈویژن میں کمشنر کو وہی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی جو چیف ایگزیکٹو بننے کے بعد خود جنرل پرویز مشرف کو وفاق اور مرکز میں حاصل تھی۔ مگر خدا کی قدرت دیکھیں کہ ایک آمر نے خود اپنے ہاتھوں سے ان چھوٹے چھوٹے ڈکٹیٹروں کا گلہ گھونٹ دیا۔ مگر بنیادی جمہوریت سے خوفزدہ خادم اعلیٰ پنجاب نے صوبے بھر میں یہ ’’پرویز مشرف‘‘ پھر سے زندہ کرنیکا حکم جاری کر دیا ہے۔ پنجاب سول ایڈمنسٹریشن آرڈیننس 2016ء کے تحت ہر ڈویژن،ضلع اور تحصیل کی سطح پر کوآرڈی نیشن کمیٹیاں بنیں گی جس میں متعلقہ ایم پی ایز،ایم این ایز اور بلدیاتی نمائندے ماتحت کی حیثیت سے شریک ہونگے اور بالترتیب کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر اجلاسوں کی صدارت کیا کرینگے۔ تحصیل، ضلع اور ڈویژن میں امن و امان کا قیام، انتظامی و مالی اختیارات اور ترقیاتی کام اس فرد واحد کی منشا و مرضی سے ہو سکیں گے اور نومنتخب بلدیاتی نمائندے اب اپنی مرضی سے گلی محلے کا کام بھی نہیں کروا سکیں گے بلکہ انہیں عرضیاں لیکر کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے دربار میں حاضر ہونا پڑے گا۔
بشمول پولیس تمام محکمے ان کمشنرز کے ماتحت ہونگے اور ڈی پی او یا ڈی سی او کے بجائے یہ کمشنرز کسی بھی افسر کے خلاف کارروائی کرنے کے مجازہونگے۔ کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں ریلیف کمشنرز کی ذمہ داریاں بھی ان چھوٹے ’’پرویز مشرفوں ‘‘ کو سونپ دی جائیں گی۔ بلدیاتی نمائندوں کو کسی بھی قسم کے انتظامی یا مالی منصوبے کیلئے ان کمشنرز سے اجازت لینا ہو گی۔ آسان اور سادہ الفاظ میںآپ یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ ہر کمشنر اپنے اپنے ڈویژن یا راجدھانی کا ’’خادم اعلیٰ ‘‘ ہو گا۔
آپ سب کو نیا سال اور یہ ’’شدھ‘‘ جمہوریت مبارک۔ مجھے ایمان کی حد تک یقین ہے کہ جمہوریت ہی ہمارا مستقبل ہے اور مجھے اس بات پر بھی بیحد ناز ہے کہ احتجاجی سیاست کی تلاطم خیز موجوں میں چاہے اور بہت کچھ بہہ گیا ہومگر اس طوفان سے گزرنے کے باجود جمہوریت توبچ گئی۔ ہاں البتہ کبھی کبھی مجھے امریکی مصنف اور مزاح نگار مارک ٹوئن کا یہ جملہ بہت یاد آتا ہے :’’بچوں کے کپڑے اور سیاستدان تبدیل کرنے میں ہرگزدیر نہیں کرنی چاہئے ـ‘‘




.
تازہ ترین