• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بار معمول کے برعکس ان کے لہجے میں ترشی تھی، اپنے سامنے رکھی فائل میری طرف کھسکاتے ان کی شاکی آواز اور بلند ہو چکی تھی، بے بسی ان کے چہرے سے تو عیاں تھی ہی لیکن اندر کا کرب نمی کی صورت میں آنکھوں سے بھی بہہ رہا تھا،میں نے ٹشو پیپرز ان کو تھمانے کی کوشش کی تو ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور وہ ہچکیاں لیکر وہ سوالات کرنے لگے جن کا جواب میرے پاس بھی نہیں تھا۔ تم مجھے بتاو میں کس کے سامنے ہاتھ پھیلائوں، صرف درخواستیں دینے کیلئے مہینے کے پانچ سے دس ہزار روپے کہاں سے ادا کروں، میں تھک چکا ہوں،میری ہمت اب جواب دے چکی ہے، میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے ان میں سے اگر کسی نے بھی جرائم کی دنیا میں پناہ ڈھونڈ لی،کوئی بھی دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا یا کسی کو بھی انتہا پسندوں نے اپنا ایندھن بنا لیا تو اس کے ذمہ دار حکمراں اور یہ معاشرہ ہو گا جنہیں میں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ آنسوئوں اور جذبات کے ذریعے اپنا غم غلط کرنے کے بعد انہوں نے شکوہ کیا کہ تم اور کچھ نہیں کر سکتے تو سرکار تک مجھ جیسے بے بس افراد کی یہ آواز تو پہنچا دو کہ وہ اگر ہمیں کچھ دے نہیں سکتی تو خدا کے لئے ہم سے وصول کرنے کا ظلم تو بند کر دے۔ ان کا نام وحید تھا وہ تین تعلیم یافتہ لیکن بے روزگار بچوں کے والد تھے۔ کچھ عرصہ پہلے گریڈ 14کی سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے تھے،سرکار کی نوکری چھوڑی تو سرکاری کوارٹر بھی خالی کرنا پڑا تھا۔ جمع پونجی بڑھاپے میں سر چھپانے کے لئےچھت اور سہارے کی آس میں اولاد کی تعلیم پر صرف کر چکے تھے۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔تمام سفید پوش والدین کی طرح انہوں نے بھی اپناپیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو اپنی بساط سے بڑھ کر تعلیم دلوائی۔ ان کے ایک بیٹے نے ایم بی اے،دوسرے نے بی سی ایس اور بیٹی نے بی ایس سی انجینئرنگ کر رکھی ہے لیکن متعدد اداروں میں درخواستیں دینے کے باوجود انہیں تا حال کوئی معقول ملازمت نہیں مل سکی۔ بے روزگاری کی اذیت تو ایک طرف جو سب سے بڑا ظلم اس وقت بیروزگار نوجوانوں اور وحید جیسے بوڑھے والدین کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے وہ مختلف اداروں کی طرف سے درخواست فارم کے ساتھ پراسیسنگ کے نام پر لی جانے والی فیس ہے۔ اسی ضمن میں انہی صفحات پہ کچھ عرصہ قبل بھی ارباب اختیار کی توجہ اس انتہائی اہم مسئلے کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی تھی لیکن اس روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے مختلف وزارتوں ڈویژنوں،ذیلی اداروں،خود مختار یا نیم خود مختار محکموں میں مختلف آسامیوں پر بھرتی کے لئے اشتہارات دئیے جاتے ہیں جن میں یہ ہدایات ہوتی ہیں کہ درخواست فارم کے ساتھ پراسیسنگ فیس کی مد میں بنک چالان،پوسٹل آرڈر،ڈرافٹ یا آن لائن رقم جمع کرانے کی رسید بھی دیں۔ یہ پراسیسنگ فیس تین سو روپے سےپندرہ سو روپے تک ہوتی ہے۔ مختلف آسامیوں پہ بھرتی کےلئے امیدواروں کا تحریری امتحان بھی لیا جاتا ہے اور اکثر ادارے یہ پراسیسنگ فیس تحریری امتحان کنڈیکٹ کرنے کی مد میں وصول کرتے ہیں۔ وفاقی سطح پر اکثر وزارتوں اور محکموں کی طرف سے ٹسٹنگ سروس کےلئے گزشتہ کچھ سالوں سے ایک ہی ادارے کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں جس کی اجارہ داری کے خلاف عدالتی فیصلوں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی ہدایات کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور وہ بدستور سرکاری اداروں میں بھرتیوں کے لئے امتحانات کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے کما رہا ہے۔ جو سرکاری ادارے درخواستوں کی خود پراسیسنگ کرتے یا تحریری امتحان لیتے ہیں وہ بھی بے روزگار نوجوانوں سے ماہانہ لاکھوں، کروڑوں روپے اینٹھ لیتے ہیں۔ فرض کریں کسی گھر میں تین تعلیم یافتہ بے روزگار لڑکے لڑکیاں ہیں اور انہوں نے تین مختلف آسامیوں کے لئے درخواستیں جمع کرانی ہیں جبکہ ہر درخواست کے ساتھ پراسیسنگ فیس اوسطا پانچ سو روپے ہے تو اس طرح انہیں مجموعی طور پہ پنتالیس سو روپے صرف ملازمت کی درخواستیں جمع کرانے کے لئے ادا کرنا ہوں گے جو سرا سر ظلم اور ان کے بوڑھے والدین کے لئے اضافی بوجھ ہے۔ اگر انہیں ایک ماہ میں مختلف اداروں کی طرف سے مشتہر کی گئی مختلف آسامیوں پہ اپلائی کرنا ہو تو انہیں ماہانہ ہزاروں روپے درکار ہیں جو مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہے۔ اسلئے بہت سے بے روزگار نوجوان ہر متعلقہ ملازمت کے لئے درخواست ہی جمع نہیں کراپاتے۔ پاکستان میں کئے گئے آخری لیبر فورس سروے کے مطابق بے روزگاری کی شرح 6 فیصد ہے جبکہ اعلیٰ ڈگری کے حامل افراد میں یہ شرح 10 فیصد تک ہے۔ پاکستان میں آبادی کی شرح سالانہ ایک اعشاریہ نو فیصد کے تناسب سے بڑھ رہی ہے یعنی پاکستانی نفوس میں ہر سال نیوزی لینڈ جیسے ملک کی آبادی کے مساوی اضافہ ہو جاتا ہے۔ آبادی میں اسی شرح کے مطابق اضافے کومد نظر رکھا جائے تو بے روزگاری کی موجودہ شرح کو برقرار رکھنے کےلئے سالانہ 15لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنا ضرروی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے اعدادوشمار کو بھی قابل بھروسہ مان لیا جائے توآئندہ سال تک پاکستان کی آبادی 19 کروڑ 91 لاکھ تک پہنچ جائے گی جبکہ بے ورزگاری کی شرح سات اعشاریہ دو فیصد ہو گی اور اگر حکومت بے روزگاری کو کم کرنے کی پالیسیوں میں مناسب عمل درآمد کرے گی تو یہ شرح چھ اعشاریہ دو فیصد تک محدود ہو سکتی ہے۔ اسی طرح 2018 میں ملکی آبادی 20 کروڑ 28 لاکھ تک پہنچ جائے گی اور تب ملک میں موجود بے روزگاروں کی شرح چھ اعشاریہ نو فیصد ہو گی جبکہ حکومتی اقدامات کی صورت میں بے روزگاری کی اس شرح کو پانچ اعشاریہ سات فیصد تک قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا دعوی ہے کہ اگر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام جاری رہا تو بے روزگاری کی شرح کو آئندہ پانچ سال میں بھی کم نہیں کیا جا سکے گا۔ بے روزگاری میں اضافے کی بڑی وجہ بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے لیکن پاکستان اس حوالے سے خوش قسمت ملک ہے کہ اس کی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پرمشتمل ہے اور 2025 میں جب ملکی آبادی 22 کروڑ 70 لاکھ تک پہنچ جائے گی تب ایسے نوجوانوں کی شرح 63 فیصد ہو گی جن کی عمر 30 سال سے کم ہو گی۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اتنی بڑے لیبر فورس کو کس طریقے سے کار آمد بنا سکتی ہے کہ وہ ملکی ترقی اور خوشحالی میں بھرپور کردار ادا کر سکے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے نوجوانوں کے لئےمختلف اسکیمیں شروع کی گئی ہیں جو یقیناً خوش آئند ہے، نوجوانوں کو بلا سود قرضے دئیے جا رہے ہیں،انہیں ہنر مند بنانے کے پروگراموں پر عمل درآمد کی کوششیں جاری ہیں،انہیں چھوٹے کاروباری قرضے دے کر اپنے پاوں پرکھڑا کرنے کی کاوشیں بھی لائق تحسین ہیں۔ ارباب اختیار بخوبی جانتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی اداروں کو سالانہ بجٹ میں خطیر رقم فراہم کی جاتی ہے جبکہ اکثر ادارے مقررہ مدت میں یہ رقم خرچ بھی نہیں کر پاتے اور مالی سال کے اختتام پر انہیں یہ رقم قومی خزانے میں واپس جمع کرانا پڑتی ہے اس صورتحال میں تمام سرکاری ادارے ملازمتوں سے متعلق درخواستوں کی پراسیسنگ اپنے بجٹ سے با آسانی کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم اور وزرائے اعلی سے گزارش ہے کہ تمام سرکاری اداروں کو بھرتیوں کے لئے طلب کردہ درخواستوں کے ساتھ پراسیسنگ فیس کی وصولی سے فوری طور پہ روکنے کی ہدایات جاری کریں۔




.
تازہ ترین