• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اکتوبر 2015ء سے شروع ہونیوالے بلدیاتی انتخابات کا عمل دسمبر 2016ء کے آخری ہفتے میٹروپولیٹن، کارپوریشن کے لارڈ میئر، میئر، ڈپٹی میئرز، ضلع کونسلوں اور میونسپل کمیٹیوں کے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین منتخب ہونے کے بعد بظاہر مکمل ہوگیا ہے۔ نتائج کے مطابق حکمراں جماعت صوبہ بھر کے بلدیاتی اداروں پر چھائی رہی اور اسکے 35ضلع کونسلوں کے چیئرمین منتخب ہوئے، دو آزاد، ایک ضلع کونسل کی چیئرمینی ق لیگ کے پاس چلی گئی جبکہ پی پی اور تحریک انصاف کا کوئی چیئرمین منتخب نہ ہوسکا۔ اسی طرح میونسپل کارپوریشن کی گیارہ سیٹوں پر ن لیگ نے سو فیصد کامیابی حاصل کی۔ نتائج آنے کے بعد عوام کیلئے بڑی دلچسپ معلومات بھی ہیں وہ اسلئے کہ وہ اپنے آپ سے سوال ہی کرتے رہیں گے کہ کیا بلدیاتی انتخابات ان کیلئے تھے، کیا ان انتخابات کے بعد اختیارات واقعتاً نچلی سطح تک منتقل ہو سکیں گے یا اس بنیادی جمہوریت کو صوبائی حکومت اپنے اختیارات اور زیادہ بڑھانے کیلئے استعمال کریگی؟کسی کو اس میں تو شک نہیں ہونا چاہئے کہ دنیا بھر میں بلدیاتی انتخابات سے وجود میں آنیوالے اداروں کو جمہوریت کی بنیاد اورجڑیں سمجھا جاتا ہے چونکہ گلی محلے سے منتخب ہونیوالے ہی عوام کے براہ راست نمائندے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سے یہ ادارے منتخب حکومتوں کے دور میں یا تو یکسر نظر انداز کئے جاتے رہے یا پھر انکو صوبائی حکومتوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ پرویز مشرف نے اختیارات کو نچلی سطح تک منتقلی کے نظریئے کے تحت اس نظام میں بے شمار تبدیلیاں کیں اور 2001ء میں ایک نئے آرڈیننس کے تحت بلدیاتی انتخابات کرائے، انکے نتیجہ میں منتخب ہونیوالے ناظمین کو کافی حد تک انتظامی اختیارات منتقل ہوئے اور انہیں حکومتی سطح پر پروٹوکول ملتا رہا، پولیس کو کچھ حد تک ان کے ماتحت کر دیا گیا۔ اس آرڈیننس کے تحت قائم ہونیوالے بلدیاتی ادارے سات سال قبل یعنی 2009ء میں اپنی مدت پوری ہونے کے بعد ختم ہوگئے اور فروری2008ء کے عام انتخابات کے بعدوجودمیں آنیوالی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں اسکو یکسر نظر انداز کر دیا اور انتخابات ہی نہ کرائے۔ حالانکہ 1973ء کے آئین کے تحت تمام صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ نہ صرف مقامی نظام کے انتخابات کو ممکن بنائیں گی بلکہ اس نظام کو آئینی دستور کے تحت سیاسی، انتظامی اور مالی خود مختاری دیںگی۔ لیکن اس حوالے سے سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی اور اسی کے حکم کے تحت 2013ء میں بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے، مئی 2015ء میں کے پی کے میں انعقاد ہوا جبکہ سندھ اور پنجاب میں اکتوبر سے دسمبر2015ء تک مختلف اضلاع میںتین مراحل میں یہ انتخابات ہوئے حالانکہ یہ انتخابات اگست 2009ء میں ہو جانے چاہئیں تھے۔پہلے تو سیاسی جماعتیں انتخابات کرانے کیلئے ہی تیار نہ تھیں پھر جب انتخابات کروائے گئے تو انہیں بھی سیاسی آلودگی میں ڈبو دیا گیا۔ گو 26اضلاع کی ضلع کونسلوں میں نئے چہرے چیئرمین منتخب ہوئے لیکن ان میں22نو منتخب چیئرمینوں کاتعلق بااثر سیاسی گھرانوں اور قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین سے ہی ہے۔ کئی بڑے سیاسی خاندان سیاست سے آئوٹ بھی ہوئے مگر بلدیاتی انتخابات میں بھی موروثی سیاست مزید تقویت پا گئی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں جعلی ڈگری اور دہری شہریت پر نااہل قرار دیئے گئے ایک ایم پی اے اور ایم این اے ضلع کونسل کا چیئرمین اور کارپوریشن کا میئر منتخب ہوگیا۔
ان اداروں کا مستقبل اور انکو اختیارات دینے کا معاملہ ابھی تک طے ہونا باقی ہے۔ یہ انتخابات بلدیاتی ایکٹ 2013ء کے تحت ہوئے جبکہ اسکے نفاذ کیلئے ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا کیونکہ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء منسوخ نہیں کیا گیا تھا اور2013ء کے ایکٹ کے تحت بلدیاتی اداروں کی تشکیل کا عمل جاری رہا۔ اب 2013ء کے ایکٹ کو نافذ کرنے کیلئے ممکن ہے کہ اسکی شق 154کے تحت پنجاب حکومت دفعہ (1) کی ذیلی دفعہ تین کے تحت ایک نوٹیفیکیشن جاری کرے جسمیں پرانے آرڈیننس کی منسوخی اور نئے کے نافذ العمل کا بیان ہو۔ لیکن یہ بھی شاید اس وقت تک جاری نہ ہو سکے جب تک پنجاب سول ایڈمنسٹریشن آرڈیننس 2016ء کا مسئلہ حکومت حل نہ کرے۔ چونکہ مختلف اسٹیک ہولڈرز خصوصاًمحکمہ پولیس کے تحفظات کے بعد فی الحال ہولڈ ہوگیا ہے۔پنجاب حکومت کے تیار کردہ آرڈیننس میں ڈپٹی کمشنر کو وسیع تر اختیارات سونپے گئے ہیں۔ یہ سب صوبائی حکومت کے نمائندے کے طور پر اپنے فرائض و اختیارات اس آرڈیننس کے تحت سرانجام دیں گے۔ ضابطہ فوجداری 1989ء کی دفعہ 22کے تحت کمشنر، یا ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر اپنے متعلقہ علاقوں میں انصاف کے جج ہونگے۔ ہر ادارے کا سربراہ باقاعدگی سے ڈپٹی کمشنر کو کسی بھی مطلوبہ وقت پر اور مطلوبہ شکل میں اپنے دفاتر کی کارکردگی رپورٹ تیار کر کے جمع کرانے کا پابند ہوگا۔ آرڈیننس کے تحت کسی بھی ملازم کی طرف سے کسی بھی ضابطے سے انحراف یا قانونی احکامات کی خلاف ورزی کو بے ضابطگی تصور کیا جائیگا اور اسکے خلاف متعلقہ قوانین کی روشنی میں کارروائی کی جائیگی۔
کمشنری نظام کو بحال کرنے کے بعد بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے پاس کسی قسم کے اختیارات نہیں ہونگے بلکہ وہ بھی انکے ماتحت آگئے ہیں اس طرح 18ویں ترمیم کے بعد تو جو مزید خود مختاری ملنی تھی وہ بھی ختم ہو جائیگی اور یہ1973ء کے آئین کی شق 140-Aکی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حکومت پنجاب نے الیکشن کا یہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد صوبہ بھر کے تمام بلدیاتی اداروں میں ہر قسم کی بھرتیوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی چھان بین کیلئے انٹرنل آڈٹ اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ اکائونٹس کی جانچ پڑتال اور بلدیاتی اداروں کے بجٹ کا جائزہ اس اتھارٹی کے دائرہ کار میںہوگا۔ اسطرح بلدیاتی اداروں کی چھان بین کا مکمل کنٹرول صوبائی حکومت کے پاس رہے گا۔ کیا ایسی صورت میں کوئی بلدیاتی ادارہ فعال ہو سکتا ہے یا وہ آزادی کیساتھ کام کر سکتا ہے۔ اسکا جواب نفی میں ہے اور اختیارات کا مرکز صوبائی حکومت بلکہ وزیراعلیٰ کو بنا دیا گیا ہے۔ اب تو عام انتخابات تک بلدیاتی اداروں کے اختیارات کی جنگ حکومت اور اپوزیشن میں جاری رہیگی اور حکومت آئندہ عام انتخابات میں دھاندلی کے نئے فول پروف طریقے آزمائیگی۔ تمام تر ترقیاتی فنڈز عام انتخابات میں جیتنے کیلئے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ذریعے اور ڈپٹی کمشنر ز کی نگرانی میں خرچ ہونگے۔ریٹرنگ آفیسر اور ضلعی الیکشن کمشنر بھی ان کے ماتحت ہونگے۔حکومت اپنے ان اراکین اسمبلی کو زیادہ بااثر اور مضبوط بنائیگی۔ حکومت کی مقامی جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مقامی حکومتوں سے متعلق نیا قانون 2013ء سے بنا ہوا ہے، چار سال بعد انتخابات ہوئے اور سوا سال بعد یہ عمل مکمل ہوا ہی ہے تو اسکے تمام اختیارات اپنے پاس رکھ لئے اور اب یہ فنکشنل نہیں ہو پائینگے کیونکہ2013ء کے تحت بننے والی مقامی حکومتوں کو مکمل وفاداری کیساتھ صوبائی حکومتوں کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہوگا ہم تو عوام سے صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ عوامی حکومتوں کے سہانے خواب دیکھنا چھوڑ دیں کیونکہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ منتخب لوگ ہیں تو اس قانون کے سیکشن 126کے تحت بیک جنبش قلم تحلیل کیا جاسکتاہے !




.
تازہ ترین