• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائداعظم محمد علی جناح جدید دور کے عظیم رہنما تھے، بہترین تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، وکالت کا پیشہ اختیار کیا تو ہندوستان کے طول و عرض میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا، سیاست میں اصول، دیانت داری اور شفافیت کی علامت تھے، مسلمانوں اور ہندوئوں میں امن کے سفیر کہلاتے، برصغیر کی سیاست سے دلبرداشتہ ہو کر برطانیہ چلے گئے، کئی برس وہیں مقیم رہے، یہ چند برس ان کی زندگی کا حاصل تھے، وہ خود فرماتے ہیں کہ اس مدت میں تین برس تک قرآن کا مطالعہ اور اس پر غور و فکر کیا، اسلام کے نظام عدل کو سمجھا، اس وسیع مطالعے اور گہرے غور و فکر کا نتیجہ تھا کہ جب جلاوطنی ختم کر کے واپس آئے تو مسلمانوں کے حقوق کے ترجمان ان کی سیاسی آزادی اور الگ وطن کے حصول کے لئے پوری دلجمعی سے تیار ہو چکے تھے، اپنے زمانے کے جدید اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ذہین قائداعظم جنہوں نے کئی برس قرآن پر غور و فکر اور اسلام کا مطالعہ کیا، ان کے بارے میں بعض دورکعت کے امام جن کا مبلغ علم کچی، پکی روٹی پڑھنے تک محدود تھا اور آج بھی ہے، وہ کہا کرتے اوران کے پیروکار اب بھی کہتے ہیں کہ قائداعظم مغرب زدہ تھے انہیں دین اسلام کی کیا خبر،قائد تو قائد تھے، ان پر اعتراض کرنے والے مرفوع الذکر ہوئے اور آج چھاج تو بولے مگر چھلنی بھی، قائد حزب اختلاف فرماتے ہیں ’’عمران خان‘‘ کوسیاست نہیں آتی، جس نے آکسفورڈ میں تعلیم پائی، تاریخ اور سیاسیات میں ڈگری حاصل کی وہ سیاست نہیں جانتے۔ کیا پارلیمنٹ کے دونوں قائد اور ان کے رہنما، ملک بھر کے ذرائع ابلاغ اور کیمروں کے سامنے عمران خان (جنہیں سیاست نہیں آتی) کے مقابل دو گھنٹوں کے لئے ملکی معاملات پر مباحثہ کرسکتے ہیں؟ جس طرح امریکہ کے صدارتی امیدوار کیا کرتے ہیں۔ ہمارے ایک فاضل دوست جو بڑے کالم نویس ہیں اور ٹی وی پروگرام میں تجزیہ کار بھی، فرماتے ہیں خیبرپختونخوا میں کونسی دودھ، شہد کی نہریں بہتی ہیں؟ دودھ شہد کی نہریں دنیا میں کہیں نہیں، برطانیہ، امریکہ، سوئیٹزرلینڈ میں بھی نہیں، یہ نہریں جنت میں ہونگی۔ ہاں اگر پرویز خٹک کا مقابلہ ممدوحین کے ساتھ مطلوب ہے تو شوق سے کیجئے مگر خیال رہے مدوحین 36 سال سے اقتدارمیں ہیں، پانچ دفعہ پنجاب کے حکمران اور تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں مگر مقابلہ ایک چھوٹے صوبے کے تین سالہ اقتدار سے کرنا چاہتے ہیں پھر بھی دیانت داری سے غیر جانبدارانہ تقابل میں ’’منہ کی کھائیں گے‘‘ چوتھی دہائی ہونے کوآئی تھانہ کلچر بدلنے کا دعویٰ ہے اور آج بھی اس وعدے پر قائم ہیں ’’دوشیزہ کی کہہ مکرنی کی طرح‘‘ پولیس اصلاحات اور تھانہ کی حالت، پولیس کے رویے کے بارے میں پرویز خٹک کی پولیس اور شہباز شریف کی پولیس کا تو کوئی موازنہ سرے سے ہی نہیں ہے، حال ہی میں ایک غیر ملکی مبصر خیبرپختونخوا کی پولیس کو دنیا کی بہترین پولیس قرار دے رہے تھے اور پنجاب پولیس؟
ممدوحین کے چھتیس سالہ سیاست اور اقتدار کے باوجود اڑھائی کروڑ بچے اسکول کا منہ نہیں دیکھ پائے، پنجاب میں خادم اعلیٰ کے تین سالہ موجودہ دور میں نو ہزار سرکاری اسکول بند ہوئے، اسی دوران خیبر پی میں 35 ہزار بچے پرائیویٹ اسکول کی تعلیم چھوڑ کر سرکاری اسکولوں میں آئے، پنجاب میں ایسی ایک مثال؟ پرویز خٹک کے صوبے میں گھر بیٹھے تھانے میں شکایت درج یا ایف آئی آر کٹوائی جاسکتی ہے اور پنجاب میں؟ ہر حادثہ اور المیہ جس کی تشہیر ذرائع ابلاغ میں ہو جائے تو خادم اعلیٰ بنفس نفیس موقع واردات پر تشریف لے جاتے ہیں، مجرموں کو نشان عبرت بنا دینے کامژدہ سناتے ہیں مگر موجودہ آٹھ سالہ اقتدار کے دوران کوئی ایک ملزم نشان عبرت بنا تو اسکی خبر دیجئے۔ پرویز خٹک نے جو پل بنائے اس کی فی مربع میٹر قیمت پنجاب بالخصوص لاہور میں تعمیر کئے گئے پلوں کا پانچواں حصہ بھی نہیں تو پھر بدعنوانی کہاںہے؟ ادھر یا ادھر پرویز خٹک نے تقریباً چار سو بہت ہی چھوٹے پانی سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کا قصد کیا ہے، ان میں ابھی صرف پندرہ مکمل ہوئے، ان سے قریب کے دیہاتوں کو صرف چار سو روپے فی مہینہ کے حساب سے بجلی فراہم کی جارہی ہے اور پنجاب میں نندی پور کا بجلی گھر اصل سے پانچ گنا قیمت کے بعد بھی پیداوار نہیں دے سکا، اس کی پیداواری قیمت 41 روپے یونٹ ہوگی۔ ڈاکٹر عطا الرحمٰن صاحب نے جنگ میں شائع حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ پنجاب حکومت کا بہاولپور میں قائداعظم سولر پارک کی انکوائری کرنی چاہئے کہ اس کی قیمت دبئی کے مقابلے پانچ گنا کیوں ہے۔ ان مہنگے اور کرپشن زدہ مطلوبہ بجلی نہ دینے والے منصوبوں کی تشہیر پر جو اخراجات اٹھے، غالباً ان کی قیمت پرویز خٹک کے کل منصوبوں (بجلی کے) سے بھی زیادہ ہوگی۔ ریونیو کے شعبے میں پرویز خٹک کی اصلاحات کی پینتیس سالہ اقتدار نقل تک نہیں کرسکا کہ نقل کے لئے بھی عقل چاہئے۔ وہ لاہور کی مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ مقامی حکومتوں کے اختیارات اور ان کو فراہم کئے جانے والے فنڈز کا کوئی تقابل ممکن ہی نہیں۔ پنجاب کے شہروں میں صفائی کی حالت اوراس پر اٹھنے والے اخراجات کا مقابلہ صوبہ پختونخوا کی حالت اور اخراجات سے کرنے والے کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ عمران خان کو کبھی اقتدار نہیں ملا، وہ زیادہ سے زیادہ قومی اسمبلی کا ممبر بنا پھر بھی اس نے اپنے علاقے میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کا کیمپس تعمیر کیا، ایسی یونیورسٹی جو دنیا کی دس بہترین یونیورسٹیوں میں شامل، مرکز اور پنجاب کی حکومتیں مل کر چار عشروں میں ایک یونیورسٹی نہیں بنا سکے جہاں ان کے اپنے بچے تعلیم حاصل کرسکیں۔ خیال رہےکہ دنیا کی پانچ ہزار یونیورسٹیوں میں ایک بھی پاکستان کی یونیورسٹی شامل نہیں۔ اپنی ساری سیاسی اور ذاتی زندگی میں ایک بھی ایسااسپتال تعمیر نہ کرسکے جس میں پورے یقین کے ساتھ اپنا علاج کروا سکیں، اپنے پرائیویٹ اسپتال میں دل کے امراض کا علاج کرتے ہیں لیکن دوسروں کے دل کا، اپنا معائنہ تک اس اسپتال میں نہیں کرواتے کہ اس کے معیار کو ان سے بہتر کون جان سکتا ہے۔
عمران خا ن نے اقتدار میں آئے بغیر اپنی محنت اور مخیر حضرات کے تعاون سے پاکستان میں کینسر کے دو اسپتال قائم کئے اور تیسرے اسپتال کا کراچی میں سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے، ان کے اعلیٰ معیار اور خدمات کادنیا بھر میں اس طرح اعتراف کیا گیا کہ کئی برس تک اپنے معیار اور خدمات کے اعتراف میں نمبر1کا اعزاز حاصل کرتا رہا ہے، عمران خان کو اسپتال کے معیار پر اتنا یقین ہے کہ پیچیدہ آپریشن اور خطرناک حادثے میں بھی اس نے شوکت خانم اسپتال میں علاج کو ترجیح دی، علاج کے لئےبیرون ملک جانے سے انکار کیا۔ اس کے بڑے سیاسی حریف بھی دل سے جانتے ہیں کہ مذکورہ اسپتال سہولت اور معیار میں کسی بھی عالمی معیار کے اسپتال سے کم نہیںمگر محض تعصب اور شرمندگی کے باعث ادھر رخ کرنے کی بجائے علاج کے لئے برطانیہ کا رخ کرتے ہیں۔

.
تازہ ترین