• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ مجھ سے مخاطب تھا اس نے کہا آپ صدر اوباما کی شکل و صورت دیکھیں جس دن اوباما نے اقتدار سنبھالا تھا تو وہ جوان تھا چند سالوں میں اس کے بال سفید ہوگئے ہیں وہ مختصر ترین عرصے میں جوانی سے بڑھاپے کی طرف گیا ہے ،ایسا کیوں ہوا ؟میرے سامنے یہ سوال بڑا سادہ مگر حیران کن تھا، میں نے اس سے کہا کہ جناب جن ملکوں کے سربراہ اپنے ملکوں اور اپنے لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں ان کی صحت پر اثر پڑتاہے، وہ قوم کی خا طر جاگتے رہتے ہیں ،سوچتے رہتے ہیں، کام کرتے ہیں اس لئے بڑھاپا ان کا استقبال جلدی کرتا ہے، ان کی صحت خراب ہو جاتی ہے میں اسے دنیا بھر کی مثالیں دے سکتا تھا مگر میں نے اسے قائداعظمؒ ،ایوب خان اور بھٹو کی مثال دی اور پھر ان تینوں کا موازنہ 1985ء کے بعد آنے والی قیادت سے کیا۔قائداعظمؒ کی صحت اس لئے خراب تھی کہ وہ ہر دم ایک قوم کیلئے سوچتے رہتے تھے، ان کی قیادت میں پاکستان آزاد ہوا، پاکستان کے ابتدائی دنوں میں قائداعظمؒکو اور بھی زیادہ کام کرنا پڑا، ایوب خان نے منصوبوں کی تعمیر جنگی بنیادوں پر کی، اس نے مشکل ترین منصوبوں کو مکمل کیا، بھٹو نے پاکستان کیلئے پانچ سات سال اتنا کام کیا کہ جوان بھٹو بڑھاپے کی طرف چلا گیا، جب اسے پھانسی دی جا رہی تھی تو اس کی عمر کوئی ستر برس نہیں تھی مگر وہ بوڑھا لگ رہا تھا مگر پھر بدقسمتی سے پاکستان کو 1985ء کے بعد ایسی سیاسی قیادت نصیب ہوئی جو اقتدار میں آکر جوان ہو جاتی ہے، ان سے جونہی اقتدار چھنتا ہے تو یہ فوراً بیمار ہو جاتے ہیں کسی کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی ہے، کسی کاگھٹنا کام نہیں کرتا اور کوئی دل کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے نہ سوچنے والی قیادت کئی سالوں سے اقتدار میں ہے، تیس برسوں سے اقتدار میں رہنے والوں نے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے۔آپ میری باتوں سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر آج صورتحال تسی بخش نہیں ہے ۔یہ رپورٹ میری تیار کردہ نہیں بلکہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی ہے جس کے مطابق ٹیکس وصولی کم ہوئی ہے، خسارہ بڑھ گیاہے، بڑی صنعتوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔آپ کو یہ تو پتہ ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے ہے اور قرضوں پہ قرض حاصل کرنے کا عمل تیزی سے جار ہے۔آپ کو یہ بھی پتہ ہو گا کہ نئے شروع ہونے والے سال میںا سٹیل ملز سمیت چھ سرکاری اداروں کی نجکاری کا حتمی پلان تیار ہو رہا ہے ۔
سرکاری اراضی پر قبضے کا ایک اور بڑا سکینڈل لاہور ہائیکورٹ کے روبرو ہے، لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’’...بدعنوانی کے خاتمے کی مہم 2017ء میں بھی جاری رہے گی ...‘‘ اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں، سب کچھ لوگوں کے سامنے ہے۔پچھلے دنوں مجھے پنجاب کے اضلاع بہاولپور، وہاڑی، بہاولنگر، قصور، پاکپتن ، اوکاڑہ، ساہیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، فیصل آباد، سرگودھا اور چکوال جانے کا موقع ملا۔ خشک سالی آنکھیں کھول کر بتا رہی تھی کہ اگر آپ لوگوں نے نہ سوچا تو پھر میں تم لوگوں کو قحط سالی کی بانہوں میں لے جائوں گی۔بارش کا نہ ہونا، خشک سالی کی علامت ہے، بارش کیلئے نماز استسقاء ادا کی جا رہی ہے مگر یہ بات دھیان میں رہے کہ بارش کا رونا ہم بارانی علاقوں کیلئے تو رو سکتے ہیں ، ہمارے نہری علاقوں میں پانی نہ ہونے کی وجہ کچھ اور ہے، ہمارا دشمن بھارت ہمیں بنجر کرنا چاہتا ہے۔مجھے یہ جان کر دکھ ہوا کہ بہاولنگر میں تو پانی نہ ہونے کے باعث بربادی ہو رہی ہے مگر اس بربادی کے دوسری طرف یعنی بہاولنگر کے سامنے گنگا نگر میں ہر طرف ہریالی ہے یہ ہمارے حصے کا پانی ہے جس نے راجستھان کے علاقے بیکانیر کے ضلع گنگا نگر کو ہریالی عطا کر رکھی ہے ۔یہ تو صرف ایک ضلع کی مثال ہے بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باعث اپنی لاکھوں ایکڑ زمینوں کو آباد کر لیا ہے جبکہ ہماری طرف بربادی پھیل رہی ہے۔ ہندوستان نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی پانی کا کھیل شروع کر دیا تھا کہ مجبوراً لیاقت علی خان کو دھمکی دینا پڑی پھر عالمی قوتیں درمیان میں آ گئیں کئی سالوں تک بھارت نے ہمیں مذاکرات میں الجھائے رکھا اور بالآخر 9ستمبر 1960ء کو کراچی میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر ایوب خان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا، اس معاہدے میں ضامن کے طور پر ورلڈ بنک شامل ہے۔اس معاہدے کے تحت پہلے دس سالوں میں پاکستان کو اپنے حصے کے پانی کیلئے تین ڈیم، پانچ بیراج اور سات رابطہ نہریں بنانا تھیں۔بھارت کا خیال تھا کہ پاکستان ایسا نہیں کر سکے گا مگر اس وقت کی پاکستانی قیادت نے کمال کر دیا ، انہوں نے دس سالوں میں دنیا کا دوسرا بڑا آبی نظام کھڑا کر دیا، منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم، پانچ بیراج اور سات رابطہ نہریں دس سالوں میں بن گئیں، بھارت کو پاکستان کی یہ ترقی ہصم نہ ہوئی اس کے بعد ہندوستانی پالیسی سازوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب پاکستان میں ڈیم نہیں بننے دیں گے۔پھر ایسا ہی ہوا جس قوم نے دس سالوں میں دنیا کا دوسرا بڑا آبی نظام بنا یا تھا پچھلے 46سالوں سے کوئی ڈیم نہیں بنا سکی، ہمارے سیاست دان ہر ڈیم کو متنازع بنا دیتے ہیں دوسری جانب بھارت پانی کا سارا کھیل اپنے حق میں کھیلتا جا رہا ہے ۔مثلاً سندھ طاس معاہدے کے تحت جہلم، چناب اور سندھ کا پانی بغیر کسی رکاوٹ کے پاکستان کو ملنا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔بھارت نے دریائے جہلم پر کشن گنگا بنا رکھا ہے، اس میں نیلم کا پانی بھی استعمال ہو رہا ہے۔ باندی پور کے نزدیک 24کلو میٹر لمبی سرنگ کے ذریعے ہمارا پانی باندھا گیا ہے۔ دریائے چناب پر ضلع ڈوڈا میں بگلیہار ڈیم سے تین گنا بڑا منصوبہ ضلع کشتواڑ میں شروع کر رکھا ہے ۔دریائے کابل پر انڈیا، افغانستان کی مدد کر رہا ہے جہاں صوبہ ہرات میں انڈیا کی مدد سے ایک بڑا ڈیم بن رہا ہے ۔ دریائے راوی پر انڈیا نے ضلع پٹھانکوٹ اور ضلع کٹھوعہ کے سنگم پر مادھوپور ڈیم بنا رکھا ہے ۔ اسی طرح شاہ پور کاندی ڈیم بھی راوی پر ہے ، دریائے ستلج پر پنجاب کے ضلع روپ نگر میں ننگل ڈیم بنایا گیا ہے یہ پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کا مشترکہ منصوبہ ہے ۔ دریائے ستلج ہی پر ہماچل پردیش کے ضلع بیلاس پور میں بھاکھڑا ڈیم بنایا گیا ہے، اس بڑے ڈیم میں دریائے بیاس کا پانی بھی شامل کر دیا گیا ہے، یہ وہ آبی جارحیت ہے جس کے باعث پاکستان کو اپنے حصے کا بیس فیصد پانی بھی نہیں مل رہا، اسی لئے ہماری لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر ہوتی جا رہی ہے ۔چین پھر ہماری مدد کر رہا ہے اس نے پانچ بھارتی ریاستوں سے گزرنے والے دریائے برہم پترا پر ڈیم بنا کر بھارت کا 34فیصد پانی کم کر دیا ہے جس سے بھارت پریشان ہے لیکن یہ صورتحال اپنی جگہ کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کے باعث ہمیں قحط سالی کے منہ میں دھکیلنا چاہتا ہے ۔ یہ صورتحال تسلی بخش نہیں ہے حکمرانوں کو سوچنا چاہئے اگر ان کی صحت پر تھوڑا سا فرق پڑ جائے گا تو کچھ نہیں ہو گا، ملک بچ جائے گا، ملکی ہریالی بچ جائے گی، بقول رخشندہ نوید؎
دیکھنے والے حسیں آنکھ بہت دیکھتے ہیں
جو پسِ چشم ہے غم، اس کو بھی دیکھا جائے


.
تازہ ترین