• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ لفظ’ اگر ‘نہ صرف کمال کا لفظ ہے، بڑے کام کا لفظ بھی ہے؟ اس ایک لفظ اگر کی مدد سے ہم امکان سے باہر کام اور چیزوں کو اپنی ذات تک ممکن محسوس کرسکتے ہیں۔ ایک لفظ اگر ہمیں خوش فہمی میں ڈال سکتا ہے۔ یہ سیدھا سادا ایک لفظ ’اگر‘ ایک بہت بڑی بیماری بھی ہے۔ لگ جائے تو اچھے بھلے آدمی کو باورچی بنا سکتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ اگر کی بیماری لگ جانے کے بعد آپ مرغ مسلم، دم پخت ، حلیم، نہاری، پیزا وغیرہ نہیں پکا سکتے ۔ حتیٰ کہ انڈا تک ابال نہیں سکتے۔ اگر کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد آپ صرف خیالی پلائو پکا سکتے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ سیالکوٹ میں کھلے عام سات آٹھ مشٹنڈوں نے دو لڑکوں کو جو کہ آپس میں سگے بھائی تھے، ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا تھا۔ یہ واردات آناً فاناً نہیں ہوئی تھی۔ لڑکوں کو جان سے مار ڈالنے میں مشٹنڈوں کو تیس چالیس منٹ لگ گئے تھے۔ یہ وحشی منظر کم سے کم پانچ ہزار کے مجمع نے دیکھا تھا۔ درندگی کی واردات تمام ٹیلیوژن چینلز نے دکھائی تھی۔ وحشت ناک ویڈیو دیکھنے کے بعد لفظ اگر حرکت میں آگیا تھا۔ ایک صاحب نے کہا: اگر میرے بس میں ہوتا تو میں وہیں کے وہیں مشٹنڈوں کو ان کے ہی ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالتا۔ دوسرے صاحب نے فرمایا: اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ان لوگوں کو جنہوں نے خاموش تماشائی بن کر خون ریز کارروائی دیکھی تھی، ان سب کو بم سے اڑادیتا۔ تیسرے صاحب بولے; اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اس پولیس تھانے کے تمام عملے کو مع ایس پی اور ڈی آئی جی کے ڈس مس کردیتا جس تھانے کی حدود میں کھلے عام یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ مطلب یہ کہ جتنے منہ اتنے اگر۔
بے نظیر کی برسی کے موقع پر کسی عام آدمی نے سوال اٹھایا کہ آخر اعلیٰ سطحی تفتیشوں کے باوجود بے نظیر کے قتل کا ماسٹر مائنڈ پکڑا کیوں نہیں جاتا؟ کسی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تفتیش ناقص تھی۔ تب لفظ اگر نے سر اٹھایا۔ ایک صاحب نے کہا:اگر میں تفتیشی افسر ہوتا تو سب سے پہلے یہ پوچھتا کہ مرحومہ کا پوسٹ مارٹم کس کے کہنے پر اور کیوں ہونے نہیں دیا گیا تھا؟ پوسٹ مارٹم کے بغیر کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ مرحومہ کی کنپٹی پر لگنے والی گولی کس نوعیت کی تھی؟ گولی کیمیکل تھی؟ لیزر تھی؟ مخصوص ہتھیار سے چلائی گئی تھی؟ ریوالور سے چلائی گئی تھی یا کہ کسی خودکار رائفل سے چلائی گئی تھی؟ اس کے بغیر تفتیش ممکن نہیں۔ آپ تفتیش کی سمت کا تعین نہیں کرسکتے۔ دوسرے عام آدمی نے کہا: اگر میں تفتیشی افسر ہوتا تو سب سے پہلے یہ دیکھتا کہ بے نظیر کے قتل سے سب سے زیادہ فائدہ کس کا ہوا ہے۔ میں اس شخص سے تفصیلی پوچھ گچھ کرتا۔
پچھلے دنوں پچیس دسمبر کے دن قائد اعظم کا یوم ولادت منایا گیا تھا۔ اخباروں نے خصوصی ضمیمے یعنی سپلیمنٹ شائع کئے تھے۔ ریڈیو سے خصوصی پروگرام نشر ہوئے تھے۔ پچاسیوں ٹیلیوژن چینلز نے قائد اعظم کے بارے میں ایک جیسے پروگرام دکھائے تھے۔ ایک بہت بڑے ہال میں قائد اعظم کے حوالے سے معلومات عامہ یعنی Quiz کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہال مرد، عورتوں، بچوں، جوانوں اور بوڑھوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا، طرح طرح کے حوالوں سے حاضرین سے سوال پوچھے جارہے تھے۔ مثلاً قائد اعظم کب پیدا ہوئے تھے؟ اسلامی سن، مہینہ، دن اور تاریخ کیا تھی؟ قائد اعظم کی مادری زبان کون سی تھی؟ قائد اعظم کا پسندیدہ لباس کونسا تھا؟ اسی نوعیت کے بے شمار سوال پوچھے جارہے تھے۔ آخر میں حاضرین سے آخری سوال پوچھا گیا۔ اگر قائد اعظم آج زندہ ہوتے اور ہمارے درمیان ہوتے تو کیا ہوتا؟ ہال میں بیٹھے ہوئے تقریباً تمام حاضرین نے اپنا ہاتھ اونچا کردیا۔ زیادہ تر لوگوں نے کہا کہ اگر قائد اعظم آج ہمارے درمیاں ہوتے تو پاکستان ایک فلاحی اسلامی ملک ہوتا۔ کچھ لوگوں نے کہا: پاکستان ایک سیکولر ملک ہوتا جس میں کوئی ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی، جین، بدھ مت کے پیروکار نہیں ہوتے۔ سب پاکستانی سمجھے جاتے۔ سب کے ایک جیسے حقوق ہوتے۔ اکثریت اور اقلیت کا شوشا کبھی نہیں اٹھایا جاتا۔ عورتوں کے مردوں کے برابر حقوق ہوتے۔ ہر جواب کے بعد ہال تالیوں سے گونج اٹھتا۔ جب جواب دینے والوں نے ہاتھ نیچے کیے تب ایک بہت چھوٹے بچے نے اپنا ننھا منا ہاتھ اونچا کیا۔ کوئز پروگرام کرنے والے بہت خوش ہوئے۔ بچے کی ہمت افزائی کرتے ہوئے سب نے کہا: قائد اعظم اگر آج زندہ ہوتے تو ایک سو چالیس برس کے ہوتے۔ وہ وہی کام کررہے ہوتے جو کام ایک سو چالیس برس کے لوگ کرسکتے ہیں۔لفظ اتفاق کے ساتھ اگر مگر استعمال نہیں ہوتا۔ اتفاق محض اتفاق ہوتا ہے۔ اتفاق سے پچیس دسمبر میاں نواز شریف کا بھی یوم پیدائش ہے۔
وہ پچیس دسمبر کے روز لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ سبحان اللہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پچیس دسمبر کے روز حضرت عیسیٰؑ اور قائد اعظم کا یوم پیدائش منایا جارہا ہو، اور حاضر وزیر اعظم کا یوم پیدائش نہ منایا جائے؟ یوم پیدائش کے حوالے سے میاں نواز شریف کے بارے میں کوئز پروگرام منعقد ہو رہا تھا۔ حاضرین سے طرح طرح کے سوال پوچھے جارہے تھے: میاں صاحب کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟ جواب ملا: پائے۔ سوال پوچھا گیا: میاں صاحب نے کرکٹ میں دلچسپی کب لینا شروع کی تھی؟ جواب ملا: جب میاں صاحب کی عمران خان سے دوستی ہوئی تھی۔سوال پوچھا گیا: میاں صاحب اگر سیاست میں نہیں ہوتے تو کیا کررہے ہوتے؟ جواب ملا: کسی لوہے کے کارخانے میں سریا بنا رہے ہوتے۔ آخری سوال پوچھا گیا: میاں صاحب کی پسندیدہ شخصیت؟ جواب ملا: ضیا الحق۔
دو روز بعد یعنی ستائیس دسمبر کے روز بے نظیر بھٹو کی برسی کے حوالے سے کوئزپروگرام کا اہتمام کیا گیا تھا۔ طرح طرح کے سوال پوچھنے کے بعد جب حاضرین سے پوچھا گیا کہ آج اگر بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو کیا ہوتا؟ جواب ملا: پاکستان کی سیاست میں دور دور تک آصف زرداری کا نام و نشان نہ ہوتا۔

.
تازہ ترین