• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بینظیر بھٹو کی پچھلے ہفتے نویں برسی منائی گئی۔ اس موقع پر گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں ایک سیاسی جلسہ بھی ہوا بلکہ اس کو سیاسی جلسہ ہی کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ اس برسی میں تقدس کا کوئی پہلو سامنے نہ آیا۔ لوگ مرنے والوں کی برسی بڑی خاموشی، افسردہ چہروں اور مرنےوالے کی باتوں کو یاد کرکے قرآن پاک کی تلاوت کرکے مناتے ہیں۔ کم از کم برصغیر میں تو برسی اسی طرح منائی جاتی ہے۔ ویسے نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے والد میاں شریف اور بھائی عباس شریف کی برسی اس طرح کبھی نہیں منائی جس طرح بلاول نے اپنی ماں کی اور آصف زرداری نے اپنی اہلیہ محترمہ کی برسی منائی ہے اور پھر بلاول بھٹو کا انداز تخاطب کسی طور پر اچھا اور مہذب نہیں تھا۔ پہلے عمران خان کو او چاچا کہتا رہا اس کے بعد ’’میاں صاحب! آپ کو سبق سکھائوں گا‘‘انتہائی قابل افسوس ہے۔ آصف زرداری کو بھی اس طرح بات نہیں کرنی چاہئے کہ مغل بادشاہ کو نہیں چھوڑیں گے۔
بینظیر بھٹو کی برسی جو کہ ایک افسوس ناک واقعہ کی عکاسی ہے جس کے قاتلوں کا تاحال پتہ نہیں چل سکا۔ اس موقع پر پی پی کا اس طرح جلسہ کرنا بالکل مناسب نہیں تھا۔ اگر باپ بیٹا دونوں نے الیکشن لڑنا تھا تو اس کے لئے برسی کے موقع پر اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا بلکہ برسی کے بعد اس کا اعلان کرتے تو مناسب ہوتا۔
لاڑکانہ جن لوگوں نے دیکھا ہے اس شہر کی بدحالی دیواروں پر لکھی ہوئی ہے۔ اس شہر سے بلاول کےنانا اور اس کی والدہ کا خاص تعلق ہے۔ انہوں نے اس شہر کے لئے کیا کیا؟ آج بھی وہاں بھیک منگوں کی ایک فوج رہتی ہے۔ اس کے مقابلے میں لاہور جہاں سے نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے، اس شہر کی ترقی کا مقابلہ کسی طور پر لاڑکانہ اور گڑھی خدا بخش جیسے بدحال شہروں سے نہیں کیا جاسکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے آبائی شہر کی ترقی کے لئے کیا کیا؟ سب کے سامنے ہے۔
یہ ملک 1970ء کے الیکشن تک بڑا خوبصورت اور پرسکون ملک تھا اور بقول ذوالفقار علی بھٹو اور تمام سیاسی مفکرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ 1970ء کے الیکشن بالکل غیر جانبدار اور شفاف تھے تو پھر اگر اقتدار شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو دے دیا جاتا تو کیا شیخ مجیب الرحمٰن نے اسلام آباد کی بجائے دارالحکومت ڈھاکہ تو نہیں بنا لینا تھا۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ 1972ء میں جب بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو اس کے بعد اس ملک میں اسٹوڈنٹس یونین، لیبر یونین، صنعتی پیداوار، ریلوے، پی آئی اے غرض ہر ادارے میں انحطاط کا ایسا جن آیا کہ جو آج تک ہر اچھی روایت، اقدار اور چیز کو ہڑپ کرتا جا رہا ہے۔ پہلے بھٹو کی حکومت نےا سکول اور کالجز قومی ملکیت میں لئے، پھر صنعتیں اور کارخانے اور سب کے سب تباہ حال کر دیئے۔ پھر مشرف حکومت نے 2001ء میں قومیائے گئےا سکولز اور کالجز کچھ تو امریکہ کے دبائو پر اور کچھ ویسے ہی واپس کر دیئے۔ حالانکہ 1972ء سے 2001ء تک آنے والی ہر حکومت نے ان تعلیمی اداروں کی عمارات کی تزئین و آرائش اور نئی نئی عمارات کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ کئے جو کسی کھاتے میں نہیں گئے بلکہ کسی بہت ہی وفادار سیانے نے قومیائے گئے تعلیمی اداروں کے مالکان کو مشورہ دیا کہ وہ حکومت سے ان 29برسوں کا کرایہ طلب کریں۔
پاکستان میں آنے والی ہر حکومت نے ہمیشہ کچھ ایسے فیصلے اور پالیسیاں بنائیں جس کے بعد میں نتائج بہت ہی منفی برآمد ہوئے۔ بہرحال بلاول اور زرداری کے پارلیمنٹ میں آنے سے عوام اور ملک کو کچھ ملتا ہےیا نہیں، اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا۔ البتہ عوام کو ان سے کچھ زیادہ پرامید نہیں ہونا چاہئے۔ بقول جالبؔ
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن ظلمتوں میں کھو گئی
بے شعور لوگ ہیں زندگی کا روگ ہیں
2018ء الیکشن کا سال ہے۔ عوام کو کس طرح بیوقوف بنایا جائے گا، کس طرح خریدا جائے گا اور کیا حربے استعمال کئے جائیں گے، اس کی منصوبہ بندی دونوں طرف سے جاری و ساری ہے۔
بلاول کا یہ بیان کہ وہ جنوری میں لاہور کے شہری بننے آرہے ہیں، بڑی حیرانی ہوئی۔ زندگی میں لوگ لوگوں کے دل فتح کرتے ہیں یہاں تو سیاسی رہنما شہر فتح کرنے آئے ہیں۔ بلاول ضرور لاہور کے شہری بنیں مگر بلاول ہائوس میں قیام نہ کریں۔ اگر شہری ہی بننا ہے تو پھر لاہور کے ان علاقوں مثلاً باغبانپورہ، بھاٹی گیٹ کی کسی تنگ، اندھیری اور گندی گلی میں رہائش اختیار کریں، پھر پتہ چلے کہ وہ لوگ زندگی کس طرح بسر کرتے ہیں۔ لاہور کو چھوڑو اپنے آبائی شہر لاڑکانہ کی کسی گلی میں رہائش اختیار کرو۔ پھر دیکھو لوگ زندگی کیسے بسر کرتے ہیں وہاں زندگی کےنام پر شرمندگی ہے۔ تمہارے نانا تو فرانس کا پانی پیتے تھے اور اس ملک کی ایلیٹ کلاس ٹھنڈے پانیوں کی مچھلی کھاتی ہے۔ ایلیٹ کلاس نے کمروں کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لئے گھروں میں مشینریاں لگا رکھی ہیں اور غریبوں کے دکھ کی بات کرتے ہیں۔ کاش ماں کی برسی کے تقدس کو برقرار رکھتے۔ ماں کی برسی پر خاوند اور بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ کچھ اچھی نہیں لگی، لاہور کا شہری بننا چھوڑ کر اس ملک کے شہری بنو اور اس ملک کا سوچو۔ اللہ نہ کرے اس ملک میں کوئی بڑی تباہی آجائے۔ لوگوں کی آہ اور بددعائوں سے ڈرو۔ اللہ کی لاٹھی سے ڈرو۔
اس وقت پورے ملک میں تین اہم مسئلے بہت شدت کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ پہلامسئلہ خالص دودھ، دوسرا مسئلہ صاف پانی اور تیسرا مسئلہ جعلی ادویات کا۔
گزشتہ ہفتے جب پنجاب فوڈ اتھارٹی نے سپریم کورٹ کے سامنے کئی معروف کمپنیوں کے ڈبے کا دودھ، دودھ فروشوں اور کھلا دودھ پیک کرکے فروخت کرنے والی کمپنیوں کے بارے میں بتایا کہ یہ دودھ پینے کے بالکل قابل نہیں اور انتہائی مضر صحت ہے۔ اس دودھ میں کیمیکل، گنے کا رس اور یوریا شامل ہے۔ پھر ایک کمپنی کے دودھ سے فارمولین بھی برآمد ہوا ہے۔ ہم نے ایک معروف فزیشن سے جب بات کی تو انہوں نے بتایا کہ فارمولین والا دودھ کینسر کا باعث بنتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کینسر کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فارمولین مردہ جسم کو محفوظ کرنے کے لئےاستعمال کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ زہریلا دودھ پلا کر شہریوں کو مارنے کی کوشش نہ کی جائے۔ عدلیہ بچوں کو زہریلا دودھ پلانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ (جاری ہے)


.
تازہ ترین