اسد گزشتہ کئی سالوں سے کینیڈا میں مقیم ہے وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب کینیڈا میں ملازمت اختیار کئے ہوئے ہے، 2016ء کے آخر میں موسم سرما کی چھٹیاں گزارنے پاکستان آیا ہوا ہے ، بیرون ملک پاکستانی جب بھی سال دو سال یا زیادہ عرصہ کے بعد اپنے ملک پاکستان واپس آتے ہیں جہاں انہیں اپنے قریبی رشتہ داروں کیلئے قیمتی اور اچھوتے تحفے لانا ضروری ہوتے ہیںوہاں انکے وہ پاکستانی دوست جو کسی وجہ سے پاکستان نہیں آتے وہ اپنے گھر والوں کیلئے تحفے ضرور بھیجتے ہیں اور بیچارہ وہ پاکستانی جو طویل سفر کے ساتھ اپنے سامان کو سنبھالتا اور خیال رکھتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ وہ اس دوست کے بھیجے ہوئے تحفوں کا خیال رکھتا ہے جو اس نے اپنے رشتہ داروں کیلئے بھیجے ہوتے ہیں ، میر ا دو ست اسد بے چارہ بھی اسی روایت کا مارا ہوا تھا ، میں اس کی آمد پر جب ایئر پورٹ گیا تو اس کے گھر والے بھی ایئر پورٹ دو ٹولیوں میں کھڑے تھے جن کے بارے میں مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ایک فیملی اس کے والدین کی اور دوسری فیملی اس کے سسرال والوں کی تھی جو باہمی خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے ناراض تھے لیکن ایئر پورٹ دونوں پارٹیاں ٹولیوں کی شکل میں موجود تھیں کیونکہ اسد جس کی اہلیہ اس کے ہمراہ نہیں آئی تھیں لیکن اپنے والدین کیلئے اپنے شوہر کے ہاتھ کپڑے اور تحفے ضرور بھیجے تھے اور ساتھ یہ تاکید بھی کی تھی کہ اس کے والدین کا سامان ایئرپورٹ پر ہی ان کے حوالے کردے ، اور اسد جب ایئرپورٹ سے لدی ٹرالی کے ساتھ باہر آیا تو ملنے ملانے کے ساتھ اس نے اپنے سسرال والوں کو ان کے اٹیچی کیس دیئے اور ایک بڑا اٹیچی کیس مجھے دیتے ہوئے کہاکہ یہ راولپنڈی میں ہی میرے ایک دوست کی بوڑھی والدہ کے کپڑے اور دیگر اشیاء ہیں جو کچھ دن بعد وہ ایبٹ آباد سے واپسی کے بعد یہ دوست کی والدہ کو اس کے گھر دے آئے گا، اسد چونکہ ایبٹ آباد کا رہنے والا تھا اس لئے وہ اپنے والدین کے ساتھ ایبٹ آباد روانہ ہوگیا، اپنے وا لد ین کے سا تھ کچھ روز گز ا ر کر جب گزشتہ روز وہ راولپنڈی آیا تاکہ وہ سامان جو میرے پاس چھوڑ گیا تھا وہ اس کے دوست کی والدہ کے حوالے کر آئے جب ہم مطلوبہ علاقے میں سامان دے کر اس گلی سے باہر نکل رہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ گلی کے نکڑ پر دو بچے جن کی عمریں تقریباً دس دس سال کے قریب ہونگی بیٹھے سگریٹ کے کش لگا رہے تھے ، اسد جس نے بچپن اسی ملک اور اسی ماحول میں گزارا تھا لیکن ایک ترقی یافتہ ملک میں قیام کے بعد اسد کو ان معصوم بچوں کو سگریٹ کے کش لگاتے دیکھ کر دکھ ہوا، جب ہم ان بچوں کے قریب گئے تو معلوم ہوا کہ وہ کچرے سے پلاسٹک کی استعمال شدہ بوتلیں اکٹھی کرتے اور بیچتے ہیں، اسد ان کے پاس بیٹھ گیا اور ان سے باتیں کرنے لگا اس نے نہ صرف بچوں کو کچھ پیسے دیئے بلکہ بچوں کی فرمائش پر قریبی اسٹا ل سے چکن کارن سوپ بھی لے کر دیا، ہم دونوں آکر گاڑی میں بیٹھ گئے اسد مجھے بہت پریشان لگ رہا تھا ، وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ ہمارے ملک میں ان بچوں کی تقدیر کب بدلے گی، کیا ہمارے حکمرانوں اور ہماری حکومتوں پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ ان بچوں کی تعلیم، خوراک اورصحت کا خیال رکھیں پھروہ کہنے لگا کہ آپ بھی پوری دنیا میں گھومتے ہیں لیکن کینیڈا اپنی نئی نسل کیلئے عجیب لیکن بہتر ین قوانین رکھتا ہے ، پہلی اولاد کا والدین بننے سے پہلے والدین کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسی کلاسیں ضرور اٹینڈ کریں جن میں بچوں کی پرورش کیلئے ضروری ہدایات دی جاتی ہیں ، پھر بچے کی پیدائش سے پہلے ایک بچوں کی پرورش کی ماہراس گھر کا دورہ کرتی ہے جہا ں بچے نے پر ورش پا نا ہو تی ہے اور اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ آپ کے گھر آنے والے نئے بچے کی پرورش کیلئے تمام لوازمات موجود ہیں اگر نہیں ہیں تو وہ آپ کو پورے کرنے پڑتے ہیں اور پھر وہ بچے کو ہسپتال سے گھر منتقل کرنے کیلئے یہ اجازت نہیں دیتے کہ آپ بچے کو گود میں اٹھاکر گھر لائیں بلکہ جس گاڑی میں لائیں اس میں بچے کی خاص سیٹ نصب ہونا بہت ضروری ہے ، اور اگر آپ بچے کی پرورش کے تمام لوازمات پورے نہ کریں تو وہ بچہ آپ کے حوالے کرنے سے گریز کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں ہمارے بچے گٹروں میں گر کر ہلاک ہوجاتے ہیں ہمارے بچوں کو خوراک، صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں، اور کچھ والدین جو اپنے بچوں کو بہتر خوراک دے سکتے ہیں تو وہ بھی ڈبوں میں یا عام ملنے والا زہر آلود دودھ پلاتے رہتے ہیں کیا ہم بھی اپنی نئی نسل کو صحت ، تعلیم اور خوراک دینے کیلئے اقدمات کرینگے یا نعرے بازی اور جھوٹے وعدوں سے ہی اپنی نسلیں برباد کرتے رہیںگے۔اگر یو نہی چلتا رہا تو گلیو ں میں را ہزن ، معذور اورایسے ہی لو گ ملیں گے جو ملک کے لئے وسائل نہیں مسا ئل پید ا کرینگے۔
.