• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر پاکستانی کی خواہش اور اور دعا ہے کہ پاکستان خوشحال، مضبوط ،محفوظ اور مستحکم ہو۔ نہ پانامے ہوں نہ ناجائز قبضے ہوں نہ قرضے ہوں، سیاست صنعت اور تجارت نہ رہے، سیاستدان خود غرضی چھوڑ دیں، فرقہ واریت کے ذمہ دار تائب ہوجائیں، قوت برداشت اتنی ضرور ہوجائے کہ ہر طرف ’’جیو اور جینے دو‘‘ کا دور دورہ ہو، شرح خواندگی سو فیصد ہوجائے اور شرح گندگی ایک فیصد بھی باقی نہ بچے، ہسپتالوں میں علاج، عدالتوں میں انصاف اور تھانوں میں تحفظ ملے، وکیل ججوں کی اور طلبا اساتذہ کی عزت کریں نہ کریں کم از کم ان کی بے عزتی سے ہاتھ کھینچ لیں، رشوت میں خاطر خواہ ڈسکائونٹ ملنا شروع ہوجائے، دوائیں جینوئین ملنے لگیں۔ دودھ میں پانی کے علاوہ اور کچھ نہ ملایا جائے، سرکاری محکموں میں میرٹ ملحوظ خاطر رکھا جائے، غیرت کے نام پر بے غیرتی کی نمائشیں بند ہوجائیں، ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھے، حرام کو حرام سمجھا جائے وغیرہ وغیرہ ۔یاد رہے کہ ایسے مشکل بلکہ ناممکن اہداف کے حصول کے لئے میں نے’’خواہش‘‘ اور’’ دعا‘‘ جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ مندرجہ بالا کا حصول ہر پاکستان کی ’’خواہش‘‘ اور ’’دعا‘‘ ہے۔ بہت سوچ سمجھ اور جان بوجھ کر میں نے’’خواہش‘‘ اور ’’دعا‘‘ کے ساتھ’’کوشش‘‘ یا ’’جدوجہد‘‘ جیسے الفاظ استعمال نہیں کئے کیونکہ خواہشیں اور دعائیں جان لیوا جدوجہد اور کوششوں کی نسبت بہت آسان ا ور باعث راحت ہوتی ہیں لیکن کبھی کبھار یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ اگر پاکستانیوں نے کسی معجزے کے تحت بغیر کسی کوشش اور جدوجہد کے اک ایسا معاشرہ بنالیا جس کے خدوخال یا آئوٹ لائن میں نے شروع میں پیش کی ہے تو ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا کیا بنے گا؟ ہم سب کریں گے کیا کہ ........’’ہمیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا‘‘۔ٹی وی چینلز کے چند پھیکے اور پھوکے مارننگ شوز ٹائپ شوز چھوڑ کر باقی سب ہوتا کیا ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے ہر کوئی گرم توے پر بیٹھا انگارے چبا رہا ہے یا ایک لمبی صف ماتم ہے جو لپٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ یہی حال خبروں اور کالموں کا ہے جنہیں شاید کسی اور کے خون جگر میں انگلیاں ڈبو کر لکھا جاتا ہے۔ چند ایک طنز و مزاح ماسٹرز کے علاوہ مجھ سمیت ہر کوئی جلا بھنا، سڑا بسا، منہ بسورے ٹسوے بہا رہا ہے لیکن سچی بات ہے ہم کریں بھی تو کیا کریں؟ اقبال کہتے ہیں’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘۔ قوم ستر(70)سال سے سوکھے ہوئے شجر کے ساتھ پیوستہ بہار کے انتظار میں خود سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہے کیونکہ بہار’’زندہ اشجار‘‘ پر اترا کرتی ہے۔ مرچکے درختوں پر کبھی بہار نہیں آتی۔ ان کی لکڑی سے فرنیچر بنتا ہے یا جلانے کے کام آتی ہے۔ یہ نظام بھی ایک مردہ درخت کی مانند ہے، جتنی چاہوکھاد ڈالو، جی بھر کے پانی دے لو، لاکھ گوڈیاں کرلو، اچھی سے ا چھی کیڑے مار دوائوں کے سپرے کرکے بھی دیکھ لو، اس درخت پر بہار کبھی نہیں آئے گی۔ میں خود ایک دلچسپ تجربہ سے گزرہا ہوں۔ مجھے لکڑیوں کے ایک’’ٹال‘‘ پر بہت لمبا چوڑا کٹا یعنی مرا ہوا درخت نظر آیا تو میں نے خاصی رقم دے کر خرید لیا۔ ٹرانسپورٹیشن کے لئے بھی خاصا تردد اور اہتمام کیا اور’’بیلی پور‘‘ والے گھر کے لان میں چار پانچ فٹ گہرا گاڑکر اردگرد کنکریٹ کردیا تاکہ گرنے سے محفوظ ہوجائے۔ پھر اس کے اردگرد مختلف رنگوں کی بوگن بیلیں لگادیں۔ ذاتی طور پر ان کی دیکھ بھال شروع کردی تو چند ماہ کے اندر اندر پھولوں سے لدی بھری بیلیں درخت پر چڑھ گئیں اور مردہ درخت پر’’بہار‘‘ آگئی۔ تقریباً چودہ پندرہ فٹ اونچا درخت بوگن کے مختلف رنگوں کے پھولوں سے ڈھکا ہوا اتنا خوبصورت دکھائی دیتا کہ بیان سے باہر ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہمارے پالتو کبوتروں نے بھی اسے  اپنا فیورٹ ٹھکانہ بنالیا۔پھر ایک دن ایسی آندھی آئی کہ یہ مردہ درخت اکھڑا تو نہیں کہ ارد گرد کنکریٹ کا حصار تھا لیکن ٹوٹ کر گرگیا تو پہلی بار اندازہ ہوا کہ’’اکھڑنے‘‘ اور ’’ٹوٹنے‘‘ میں کیا فرق ہوتا ہے کیونکہ باقی چند درخت جو جڑوں سمیت اکھڑے تھے، ہم نے سنبھال کر اوکھے سوکھے سیدھے کھڑے کرکے بچالئے لیکن’’مردہ درخت‘‘ اور اس کی مصنوعی بہار کی بحالی ہمارے بس سے باہر تھی۔ پنجاب حکومت نے کمشنری نظام بحال کردیا تو اب آئو ا س مردہ درخت سے پیوستہ رہ کر بہار کا انتظار کریں جو کبھی نہیں آئے گی۔



.
تازہ ترین