• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز نوجوان مزاح نگار علی رضا نے مجھے ایک ویڈیو کلپ بھیجی جو انڈیا کے ایک ارب پتی اور بہت پڑھے لکھے شخص سریش شرما کی ایک تقریر کے اقتباس پر مشتمل ہے۔ سریش شرما کی ایک کتاب GLOBAL OUTSOURSING گزشتہ برسوں کی بیسٹ سیلر تھی۔ میں نے یہ کلپ دیکھا تو اتنا شگفتہ اور اتنی دانش کا حامل لگا کہ سوچا اسے اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہئے، سو پیش خدمت ہے:
ہریانہ میں ہمیں اپنے بیٹوں پر سو فیصد Confidenceہوتا ہے۔ ہریانہ میں ایک باپ اپنے بیٹے کو کُوٹ رہا تھا اورا سٹیٹ (State)میں بچے پیٹے جاتے ہیں اور ہمارے ہاں کُوٹے جاتے ہیں۔ کسی نے باپ سے پوچھ لیا، بیٹے کو کیوں کُوٹ رہے ہو، تو بولا یار کیا کروں، کل اس کا رزلٹ آنے والا ہے اور آج مجھے باہر جانا ہے۔ یہ ہے Confidence۔ معلوم ہے 100 پرسنٹ فیل ہو گا تو اس کو آج ہی پیٹ کر چل رہا ہوں۔ میں تو شری رام کالج آف کامرس میں پڑھا۔ بیسٹ کالج مانا جاتا ہے، سیکنڈ ایئر میں فیل ہو گیا، میں نے اپنے باپ کو چھ مہینے تک پتا نہیں لگنے دیا کہ میں فیل ہو گیا۔ اسے کہتے ہیں مینجمنٹ۔ یہ ایم بی اے (MBA)والے کیا خاک کریں گے جو میں نے کیا۔ اور چھ ماہ بعد میرے دوست نے باپو سے شکایت کی کہ سریش شرما فیل ہو گیا تو باپو نے کہا کہ فیل ہو گیا تو کیا ہو گیا امتحان کوئی کمبھ کا میلہ ہے جو بارہ سال میں آئے گا۔ اگلے سال پھر دے لے گا اس میں کیا آفت آ گئی ہے۔ ہم بچوں کو اتنا تنائو دیتے ہیں کہ آج پانچویں چھٹی کلاس کے بچے بھی خودکشی کرنے لگ گئے ہیں۔ ہم نے بچوں کا بچپن مار کے رکھ دیا ہے۔ اس سے بڑا ظلم ماں باپ کبھی بھی زندگی میں نہیں کر سکتے۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہہ دیا تھا کہ دیکھ تو پچاس پرسنٹ سے زیادہ نمبر مت لینا کیونکہ میرے اکاون آئے تھے زیادہ لیتا تو زندگی بھر مجھے چڑاتا رہتا۔ پینتالیس پرسنٹ لے آیا۔ پچانوے پرسنٹ لیتا تو امریکہ بھاگ لیتا۔ پینتالیس فیصد لئے، مجھے چھوڑ کر غازی آباد بھی نہیں بھاگ سکتا۔ میں اس بات پر آپ کا اشیرباد چاہوں گا کہ صاحب میرا سُکھ یہ نہیں کہ میرا بیٹا امریکہ میں بیٹھ کر پانچ لاکھ ماہانہ کما رہا ہے، میرا سُکھ یہ ہے کہ میرا بیٹا تیس ہزار روپے ماہانہ کما رہا ہے لیکن شام کا کھانا میرے ساتھ بیٹھ کر کھا رہا ہے۔ ہم نے زندگی کے سارے سُکھ پیسوں میں تبدیل کر دیئے تب جا کر ملک میں کرپشن پیدا ہوئی۔ پیسہ ایک سُکھ مانا جاتا ہے اب ہم نے اس کو ایک مہاتر سُکھ مان لیا ہے، تب جا کر کرپشن کا سیلاب آیا اور اس حد تک بات گئی کہ میں کیڑے مارنے کی دوائی لے کر آیا تھا اس میں بھی کیڑے پڑ گئے۔ تو یہاں پر بچے کافی سینتھا میں ہیں، ہریانہ میں بچے پریکٹیکل ہوتے ہیں۔ ٹیچر نے بچے سے پوچھ لیا کہ مان لیں ایک کھیت کو پندرہ آدمی بیس دن میں جوتتے ہیں تو اسی کھیت کو پچیس آدمی کتنے دن میں جوتیں گے؟
بچہ کھڑا ہو گیا، ماسٹر جی ایک بات بتائیں کہ جب کھیت ایک بات جُت گیا تو دوبارہ جوتنے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ جو کام ہو گیا اسے بار بار کیوں کروانا چاہ رہے ہو؟
بچے گھر کی پول پٹی بھی کھول دیتے ہیں۔ ماسٹر نے بچے سے پوچھا ’’فرض کرو کہ میں نے تمہارے باپ کو ایک لاکھ روپے دیئے، ٹین پرسنٹ انٹرسٹ پر دیئے تو دو سال بعد تمہارا باپ مجھے کتنے پیسے واپس کرے گا؟
بچہ بولا ایک بھی نہیں۔ ماسٹر نے چانٹا مارا، بیٹے تم حساب نہیں جانتے۔ بچہ بولا ماسٹر جی میں تو حساب جانتا ہوں مگر آپ میرے باپ کو نہیں جانتے۔ انہوں نے آج تک کسی کا نہیں لوٹایا تو آپ کو کیا لٹائیں گے۔
یہاں پر بچے کنٹرول میں بھی رہتے ہیں، امریکہ چلے جائو تو ماں باپ کی چھاتی پر ڈسکو کرتے ہیں۔ کیونکہ پہلی کلاس میں ٹیچر بچوں کو پڑھا دیتا ہے کہ ماں باپ چانٹا بھی ماریں تو 911پر فون کر دو۔ اب بچوں کو امریکہ میں پیٹنا قانونی جرم ہے۔ جو پیٹے اسے جیل بھیج دو۔ ہندوستان میں یہ قانون بنا دو تو صبح ماں جیل میں جائے تو شام کو باپ جاوے، بچے دونوں کا نمبر باندھ دیں، گھر میں ٹکنے نہ دیں۔ اچھا ہندوستان میں باپ اگر بیٹے کو نہیں کُوٹے تو اس کی آتما ہی شانت نہیں ہوتی کیونکہ اس کے باپ نے اس کو کُوٹا ہوا ہوتا ہے تو بدلہ نکالتا ہے۔ میرے ایک دوست نیوجرسی میں رہتے ہیں امریکہ میں، انہوں نے اپنے بیٹے کو چانٹا مار دیا۔ بیٹے نے پولیس کو فون کر دیا۔ پولیس آ گئی، باپ کو پکڑ لیا۔ باپ کو جیل میں ٹھونس دیا۔ بیچارا جیل کاٹ کر آیا، بچے کو منا کر لایا، بڑے پیار سے رکھا۔ دس گیارہ ماہ بعد چھٹی ہوئی تو ہندوستان لوٹا۔ دہلی ہوائی اڈے سے نکلتے ہی باپ نے جوتا نکالا اور بچے کو گھر تک کُوٹتا ہوا لے گیا۔ سالے اب تھانے فون کر دیکھتا ہوں کون تجھے بچاتا ہے۔ تب مجھے پتا لگا کہ یہ امریکہ میں جو بھارتی ہیں وہ ہر سال ہندوستان کیوں آتے ہیں۔ پہلے میں یہی سمجھتا تھا کہ دیش سے بڑا پیار کرتے ہیں۔ تب پتا لگا کہ بچے کُوٹنے کے لئے ہندوستان آتے ہیں۔
ہنسی مذاق کی سینکڑوں باتیں ہیں اور میرا تو اتنا ہی کہنا ہے کہ کسی بھی بیماری کی ذمہ داری ہم سرکار پر ڈال دیتے ہیں یہی سب سے بڑی خامی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی کام کے لئے سرکار ذمہ دار ہے مجھے بھی کسی نے کہا کہ بچے بھگوان کی دین ہیں تو پھر سرکار کیوں منع کرتی ہے۔ میں نے کہا پھر نوکری بھی بھگوان سے لو، سرکار سے کیوں مانگتے ہو۔ ہمیں خود اپنے آپ کو مل کر مضبوط بنانا ہے۔ یہ بچے اس کام کو بخوبی کر سکتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں آج بچے ایجوکیٹ کر رہے ہیں، ہم بچوں کو ایجوکیٹ نہیں کر پارہے۔ میں دو اقوال دہرانا چاہتا ہوں ، ایک یہ کہ سپنے وہ نہیں ہوتے جو آپ سوتے ہوئے لیتے ہیں سپنے وہ ہوتے ہیں جو آپ کو سونےنہیں دیتے۔ دوسری یہ کہ گدھ نے چکور سے کہا تیری کوئی زندگی ہے جو دھرتی پر بیٹھا شام بیتاتا ہے۔ مجھے دیکھ کیا میں اونچا اڑتا ہوں کیا میری اڑان ہے تو چکور نے جواب دیا ایسی اونچائی اور اڑان کا کیا فائدہ جس میں نظریں دھرتی پر پڑے مُردوں کو ہی دیکھتی رہتی ہیں۔ میں دھرتی پر رہتا ہوں مگر سوچ میں چاند رکھتا ہوں ، تو آسمان پر اڑتا ہے مگر سوچ میں مُردے رکھتا ہے۔ آپ کہاں رہتے ہیں یہ زیادہ اہم نہیں آپ کی سوچ کہاں رہتی ہے یہ زیادہ اہم ہے۔

.
تازہ ترین