• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاستدانوں کی کوئی اور ترکیب استعمال ہو نہ ہو، ان کی بے پناہ’’انٹرٹینمنٹ ویلیو‘‘ سے انکار کرنا ممکن نہیں۔ کسی گائیک کی گائیکی ، کسی کامیڈین کی کامیڈی، کسی اداکار کی اداکاری، کسی ماڈل کی ماڈلنگ یا کیٹ واک، کسی بھانڈ کی برجستہ جگتیں، کسی کرکٹر یا پولو پلیئر کا کھیل، کسی بھی اینکر کی اینکری ایک طرف......... اپنے سیاسی آقائوں اور اپنے ان داتائوں کا داغ داغ دفاع کرتے ہوئے شاہوں سے زیادہ شاہ کے یہ’’غدار وفادار‘‘دوسری طرف۔میں نے’’غدار وفادار‘‘ کی اصطلاح اس لئے استعمال کی ہے کہ ان ’’جی دار جوکروں‘‘ کی بھاری اکثریت اسی جوش و جذبہ، عقیدت و احترام اور خشوع و خضوع کے ساتھ ماضی قریب میں کسی اور کے چمک دار جوتوں کے تسمے اور تلوے بننے پر نازاں تھی۔ یہ کس درجہ، کس قسم اور کس نسل کے لوگ ہیں؟ ان کا بلڈ گروپ کیا ہے؟ کیا انہوں نے صرف اسی قسم کا دودھ پیا ہے جس کے خلاف آج کل’’پنجاب فوڈ اتھارٹی‘‘ کا دیانتدار ڈائریکٹر جنرل نور الامین مینگل سر ہتھیلی پر رکھ کر تاریخی قسم کی مہم چلا رہا ہے اور اشتہارات شائع کرکے عوام کو بتارہا ہے کہ اپنی ا ولادوں کو گندے ناپاک دودھ سے محفوظ رکھیں جو ایسی جسمانی کمزوریوں، کجیوں اور کمیوں کا باعث بنتا ہے جو آخر کار انسان کی اخلاقیات کو بھی کھوکھلا کردیتی ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے’’سیاسی رہنما‘‘کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ الامان الحفیظ الامان الحفیظ، اگر یہ’’رہنمائی‘‘ ہے تو پھر رہزنی اور بے حیائی کسے کہتے ہیں؟ شاید اسی لئے ہمارے ہاں یہ سب کچھ بہت عام ہے۔ میں حیران ہوں کہ ان کے عزیز و اقارب، دوست احباب بھی ان سے کچھ نہیں کہتے، انہیں کچھ نہیں سمجھاتے کہ اللہ کے بندو! عزت نفس بھی کوئی شے ہوتی ہے۔ اپنی قیادتوں ، اپنے لیڈروں کی عزت ضرور کرو، ان کا احترام بھی ملحوظ خاطر رکھو لیکن ایسا کرتے وقت یاد رکھو کہ تم بھی کوئی  کیچوے، مکھی مچھر، مداری کے بندر، سرکس کے گھوڑے، گدھے یا پوڈل نہیں ہو.........تم بھی کوئی سدھائے ہوئے جانور، مسمرائزڈ معمول، فلش کی زنجیر، ٹشو پیپر، گندی ٹاکی یا کوئی وائپر نہیں ہو.........خالق و مالک و رازق نے تمہیں بھی’’انسان‘‘ بنایا ہے۔ تمہاری زندگی بھی اسی کی عطا ہے اور جان بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ یقین جانو عزت اور ذلت بھی اسی کی طرف سے ملتی ہے۔ رکشائوں کے پچھواڑے اور پرچون کی دکانوں کے اگاڑے بھی لکھا دکھائی دیتا ہے کہ’’وقت سے پہلے نہیں مقدر سے زیادہ نہیں‘‘ یہاں اپنے ہی دو شعر یاد آئے؎ہونی کیا اور ان ہونی کیاجو ہونا ہو، ہوجاتا ہےجو ملنا ہے، مل کے رہے گاجو کھونا ہو، کھو جاتا ہےکہتے ہیں جو نصیب میں ہے کسی کا باپ بھی نہ لے سکتا ہے نہ دے سکتا ہے۔ میں نے اس’’قول زریں‘‘ میں ترمیم کی ہے کہ انسان کا اپنا باپ بھی چاہے تو نہ اسے کچھ دے سکتا ہے نہ لے سکتا ہے جب تک ’’وہ‘‘ مہربان نہ ہو، تو انسان سعی کرے، محنت کرے، جان مارے لیکن عزت نفس کی قیمت پر تو انسان زندگی بھی نہ چاہے، دو ٹکے کے وقتی اقتدار کی کیا وقت ہے کہ’’اصلی اقتدار‘‘توان جیسوں کے آقائوں اور ان داتائوں کو بھی نصیب نہیں ہوتا۔ ان سب کی ’’ٹوہر‘‘ چند خاکی ٹرکوں کی مار ہوتی ہے جس کے بعد’’غدار وفادار‘‘ فوراً گرگٹوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ، جو اپنی عزت نہیں کرتا، کسی اور کی کیسے اور کب تک کرے گا؟ وہ لوگ ان سے بھی عجیب ہیں جو ان پر تکیہ کرتے ہیں لیکن شاید نہیں.........وہ مکار ہیں جو انہیں’’خلال‘‘ کی طرح استعمال کرکے انجوائے کرتے ہیں کہ جو کل تک مجھ پر غرارہے تھے، آج میرے حریفوں پر’’وف وف‘‘ کررہے ہیں۔قارئین!معاف کیجئے تمہید سارا کالم کھاگئی جیسے کالم نہ ہو کسی بڑے پراجیکٹ کا کمیشن یا کک بیک ہو یا کسی مخصوص راشی قسم کی تعیناتی کی اوپری کمائی کہ بھونپوئوں کو ملنے والی بخششیں کی چند بظاہر باعزت قسمیں بھی ہیں جنہیں کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر اس طرح بیان کروں گا کہ آپ عش عش کر اٹھیں گے کہ خریدار تین تین نسلیں کیسے خریدتے ہیں۔آج کہنا صرف یہ تھا کہ دو فائیو سٹار ممتاز ترین قانون دان کے بیانوں کو ملا کر پڑھیں اور خود ان پر غور فرمائیں۔ اول ہیوی ویٹ دانشور اور قانون دان اعتزاز احسن کا یہ بیان کہ.........’’سپریم کورٹ میں پاناما کیس کے حوالہ سے تحریک انصاف کا کیس مضبوط ہے اور نئی دستاویزات دیکھ کر میری آنکھیں کھل گئی ہیں‘‘۔ کمال یہ کہ انہی دستاویزات کو دیکھ بہت سے لوگوں کی آنکھیں وغیرہ بند اور منہ کھل گئے ہیں۔ دوسرا بیان اک اور ممتاز قانون دان اکرم شیخ کا ہے۔ آپ نے کہا.........’’میں نے وزیر اعظم نواز شریف سے کیس‘‘ سے رخصت کی درخواست کی تھی جو انہوں نے منظور کرلی۔ مجھے پاناما کیس پر بعض اوقات16گھنٹے بھی کام کرنا پڑتا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاناما کا مقدمہ اب قومی نوعیت کا بن چکا ہے۔ کیس اب مجھ سے بہتر ہاتھوں میں پہنچ گیا ہے‘‘۔میں شیخ صاحب کی ذہانت اور محنت کا قائل ہوں لیکن وقت وقت کیس کیس اور عمر عمر کی بات ہے۔ میری دعا ہے اللہ پاک شیخ صاحب کو پھر سے ایسی صحت ہمت عطا کریں کہ وہ بے تکان سولہ سولہ گھنٹے کام کرسکیں کہ’’کام سے تھک جائیں تو خوب کریں آرام‘‘۔

.
تازہ ترین