• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
10 سالہ معصوم طیبہ ان لاکھوں بدقسمت بچیوں میں سے ہے جن کے والدین کو حالات نے اس قدر بے بس اور مجبور کر دیا کہ وہ اپنے بچوںسے ایسی عمر میں محنت مزدوری کروائیں جو ان کی ا سکول جانے اور کھیلنے کودنے کی تھی۔ غریب والدین اتنے برے مالی حالات میں گھرے ہوئے تھے کہ وہ 2 سال تک بچی کو ملے تک نہیں یا انہیں ملنے نہیں دیا گیا مگر وہ ہر ماہ اس کی تنخواہ اسلام آباد کے ایک جج کے گھر سے لینے آ جاتے جہاں وہ گھریلو کام کرتی تھی۔ اس طویل عرصے میں تو انہوں نے بیٹی کو دیکھا تک نہیں مگر جب اس پر ظلم اور تشدد کے پہاڑ توڑے گئے اور گھر کی مالکن نے اس کے جسم کے کئی حصے جلا دئیے تو پھر وہ نمودار ہوئے اور جج صاحب کی زوجہ کو اس ظلم پر معاف کر دیا۔ بچی کے والد محمد اعظم، والدہ اور پھوپھی نے جو حلف نامہ عدالت میں داخل کیا ہے وہ اسی طرح ہی جھوٹ پر مبنی ہے اور شدید دبائو کی وجہ سے دیا گیا ہے جو کہ ہر روز ہزاروں کی تعداد میں مختلف عدالتوں میں جمع کرائے جاتے ہیں جن میں مسمی۔۔ولد۔۔صحیح ہوتا ہے مگر آگے سب کچھ جھوٹ۔ جب بچی کے چہرے پر تشدد عیاں ہے تو چاہئے تو یہ تھا کہ ایسے حلف نامے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیاجاتا۔ تاہم اس حلف نامے کے ذریعے قانونی کارروائی پوری کر لی گئی اور جج اور مالکن صاف شفاف اور بری ہو گئے مگر اس سوال کا جواب کہاں ہے کہ بچی پر جو بہیمانہ تشدد کیا گیا وہ کس نے کیا؟ اس کا جواب یقیناً ملزمان کو دینا ہوگا کہ آخر کسی نہ کسی نے تو طیبہ کو گرم سلاخوں سے داغدار کیا اور ایسے داغ جو ساری عمر اس کے چہرے پر رہیں گے اور اس کو نفسیاتی طور پر کرب میں مبتلا رکھیں گے۔ ابھی تک تو صدر، وزیراعظم اور وزیر داخلہ سب کو اس بربریت کا نوٹس لے لینا چاہئے تھا مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ریاست کہاں ہے؟ کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ایسے واقعات میں خود پارٹی بنے اور مظلوم کو انصاف دلائے۔ کیا ایسے منصف کو جس کے گھر میں یہ دل ہلا دینے والا واقعہ ہوا اسے منصف کی کرسی پر بیٹھے رہنا چاہئے؟ یقیناً نہیں جج صاحب تو خود آگے بڑھ کر اپنی زوجہ محترمہ کے جرم کو تسلیم کرلینا چاہئے تھا مگر انہوں نے بھی وہی کچھ کیا جو ہمارے معاشرے میں طاقتور طبقہ کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کا کسی غریب کو چند ٹکے دے کر یا دبائو ڈال کر ان سے اس قسم کا جھوٹا حلف نامہ لکھوانا معمول کی بات ہے۔ عاصمہ جہانگیر قابل ستائش ہیں جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس کیس کو ختم نہیں ہونے دیں گی اور اس بارے میں سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گی۔ وہ اس کارخیر میں اکیلی نہیں ہوں گی اور انہیں یقیناً میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے شخص کو جج کی کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں جس کے گھر میں اس طرح کا تشدد ایک معصوم بچی پر کیا گیا ہو۔ عدالت عظمیٰ کیلئے بھی یہ ایک بہت فٹ کیس ہے جس کا اسے سوموٹو نوٹس لینا چاہئے اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فوراً ایسا کر دیا ہے جس سے ان لوگوں کو جو اس واقعہ کی وجہ سے بہت پریشان تھے کچھ تسلی ہوئی ہے۔ اس واقعہ پر تو سیاسی جماعتوں کو چاہئے تھا کہ وہ ایک طوفان کھڑا کر دیتیں مگر وہ خاموش ہیں کیونکہ ان کی ترجیحات تو کچھ اور ہیں۔ جب ایسے واقعات میں انصاف نہیں ہوگا تو طیبہ جیسی کئی بچیاں اس طرح ہی رلتی رہیں گی اور ان کے غریب والدین جھوٹے حلف نامے داخل کرتے رہیں گے۔
سیاستدانوں کو کیا پڑی کہ طیبہ کے ساتھ کیا ہوا ان کی تو ساری توجہ سپریم کورٹ میں آف شور کمپنیوں پر ہونے والی کارروائی پر لگی ہوئی ہے۔ اس پر فوکس ضرور رکھیں مگر طیبہ کو بھی تو انصاف دلائیں۔ اب نئے سال میں نئے وکلا کے ساتھ نئے بنچ نے پرانے کیس کی سماعت شروع کر دی ہے۔ کارروائی بالکل نئے سرے سے شروع ہوگی کیونکہ بینچ نیا ہے۔حسب معمول چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ اب تو کیس ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے اور شریف فیملی قصور وار پائی گئی ہے۔ یہ ان کا پرانا وطیرہ ہے کہ وہ مقدمے کو بجائے عدالت میں بھرپور انداز میں لڑنے اور ٹھوس ثبوت دینے کے عدالت کے باہر جنگ پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ مقصد لوگوں کو یقین دلانا ہوتا ہے کہ ان کا موقف صحیح ہے اور ساتھ ہی ساتھ عدالت پر دبائو ڈالنا بھی مقصود ہوتا ہے مگر ماضی گواہ ہے وہ ان دونوں مقاصد میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئے اور عدالت نے ہمیشہ وہی فیصلہ کیا ہے جو آئین اور قانون کہتا ہے۔ اس کی بہترین مثال سپریم کورٹ کے اس عدالتی کمیشن کا فیصلہ تھا جو عمران خان کے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے متعلق تھا۔ نئے نامی گرامی وکلا لانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شریف فیملی کیس کو بڑی سنجیدگی سے لڑنا چاہتی ہے۔ سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان، سابق گورنر پنجاب شاہد حامد اور سلمان اکرم راجہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں وہ قابل پروفیشنل وکیل ہیں جو اپنی بات عدالت میں کرتے نہ کہ پریس کانفرنسوں میں۔ ان وکلانے اکرم شیخ ایڈوکیٹ کی جگہ لی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نئے بنچ کے ہیڈ ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس گلزار احمد اس کے نئے ممبرز ہیں انہوں نے امیر ہانی مسلم اور ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی جگہ لی ہے۔ ممکن ہے اس کیس کا فیصلہ بہت پہلے ہو جاتا اگر پی ٹی آئی عدالت عظمیٰ کی اس تجویز سے اتفاق کرتی کہ معاملہ عدالتی کمیشن کو ریفر کر دیا جائے۔ 9دسمبر کو ہونے والی کارروائی کو جنوری کے پہلے ہفتے تک اس لئے ملتوی کیا گیا کہ پی ٹی آئی نے کمیشن کی تجویز نہ مانی بلکہ اس کے بائیکاٹ کی دھمکی دی تھی۔ گزشتہ تاریخوں پر جج صاحبان نے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ دونوں پارٹیوں نے ایسی ٹھوس شہادت پیش نہیں کی جس کی بناپر وہ کسی حتمی فیصلے پر پہنچ سکیں لہذا ضرورت ہے کہ اس مسئلے کی مزید تحقیقات کی جائیں جو کہ عدالت عظمیٰ نہیں بلکہ کمیشن کرسکتا ہے۔ جب تک عدالت میں یہ کیس چلتا رہے گا عمران خان حسب عادت بھرپور عوامی مہم چلاتے رہیں گے تا کہ کسی نہ کسی طرح عدالت پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ ان کے حق میں فیصلہ کرے۔ اسی سلسلے میں وہ آئندہ 10 دنوں میں تین عوامی جلسے بھی کر رہے ہیں۔

.
تازہ ترین