• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدھ کے کچھ اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر کہ تھائی لینڈ کے آرمی چیف نے ملک میں آئندہ مارشل لا نہ لگانے کا عہد کیا ہے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے الفاظ نہیں ملتے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں جنرل چلر مچائے کا کہنا تھا کہ ماضی میں جو کچھ کیا اس سے سبق سیکھ چکے، جب انتخابات ہوں تو سب اسے تسلیم کریں اور فوج بھی انہیں مسترد نہیں کرے گی۔ واضح رہے کہ تھائی لینڈ کی فوج 2014 ء میں حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آئی تھی۔ اسی موضوع پر ایک سندھی اخبار میں جو خبر شائع ہوئی ہے اس کا متن ہے کہ تھائی لینڈ کے آرمی چیف نے ملک میں مارشل لا لگانے سے توبہ کرلی ہے۔ اخبارات میں یہ خبر پڑھنے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بلاکر تھائی لینڈ کے آرمی چیف کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جاتااور انہیں ’’عالمی ہیرو‘‘ کا ٹائٹل دیاجاتا۔ امید ہے کہ ساری دنیا کے ممالک کے فوج کے سربراہ تھائی لینڈ کے آرمی چیف کے اس فیصلے کی پیروی کریں گے، خاص طور پر پاکستان کے عوام پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ مثالی انداز میں تھائی لینڈ کے آرمی چیف کو زبردست خراج تحسین پیش کریں کیونکہ پاکستان کے قیام سے اب تک جتنے مارشل لا اس ملک میں لگے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی،ہونا تو یہ چاہئے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل پارلیمنٹ کا ایک خصوصی ہنگامی اجلاس بلاکر مارشل لا لگانے سے توبہ کرنے پر تھائی لینڈ کے آرمی چیف کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جائے مگر پاکستان کی موجودہ پارلیمنٹ کی طرف سے ایسا کرنا ناممکن سا لگتا ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے پارلیمنٹ کے ممبران کی آمدنی کی ایک خاص حد مقرر کی جائے اور یہ طے کیا جائے کہ اس حد سے زیادہ آمدنی والے قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے، یہ تجاویز اس وجہ سے دینا پڑرہی ہیں تاکہ پاکستان میں مارشل لااور آمریت کے روازے ہمیشہ کے لئے بند کئے جائیں۔ پاکستان کے عوام نے ان حالات کی وجہ سے کافی بھگتا ہے، وقت آگیا ہے کہ عام لوگ دبائو ڈالیں کہ نہ صرف پاکستان میں اب کوئی مارشل لا نہ لگے بلکہ ملک میں ایک حقیقی جمہوریت اور وفاق قائم ہو اور آئندہ ایسی عدلیہ کا بھی وجود نہ ہو جو ان آمریتوں پر مہر تصدیق لگائے۔ ہمیں پاکستان کو ایک مثالی جمہوری، عوامی اور وفاقی ملک بنانے کے لئے چند اہم فیصلے کرنے پڑیں گے جس کے نتیجے میں ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں لائی جاسکے جو ’’جاگیرداروں اور اسٹیٹس کو کے حامیوں‘‘ کے قبضے میں نہ ہو، یہ بھی یقینی بنانا پڑے گا کہ منتخب حکمراںکرپشن سے بہت دور ہوں اسٹیبلشمنٹ تھائی لینڈ کے آرمی چیف جیسے جنرلوں پر مشتمل ہو اور عدلیہ ایسی ہو جو کسی بھی طاقتور ادارے سے نہ دبے۔ جنرل راحیل شریف پاکستان کے پہلے آرمی چیف تھے جن کی میں نے اپنے کالموں میں کم سے کم تین بار تعریف کی وہ اس وجہ سے کہ ایسے حالات پیدا گئے جن کا فائدہ اٹھاکر وہ ملک میں مارشل لا لگا سکتے تھے مگر انہوں نے اس رخ پر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے موجودہ چیف آف اسٹاف اور دیگر جنرل بھی جنرل را حیل شریف کی اس روایت کو برقرار رکھیں گے مگر جنرل راحیل شریف کے ریٹائر ہونے کے بعد پرویز مشرف کا یہ بیان پڑھ کر سخت افسوس ہوا کہ وہ کئی مقدموں میں ملوث ہونے کے باوجود جنرل راحیل شریف کی اجازت کے نتیجے میں ملک سے باہر جاسکے۔ میرا خیال ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا بیان درست نہیں ہے اور امید ہے کہ جنرل راحیل شریف بھی اس بیان کی تردید کریں گے، ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف سابق جنرل پرویز مشرف کی ملک واپسی اور مقدموں کا سامنے کرنے کو یقینی بنائیں گے۔ یہ بھی امید ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ بھی اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کرے گی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف سابق جنرل پرویز مشرف، شہید بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر بگٹی جیسی شخصیات کے قتل میں ملزم ہوں اور ساتھ ہی وہ 12 مئی کو اس وقت کے چیف جسٹس کی کراچی آمد کو روکنے کے لئے بے دریغ قتل و غارت گری میں بھی ملوث بتائے جائیں اور ایسے چند دیگر مقدمات میں بھی مطلوب ہوں،وہ ایک دن بھی کسی تھانے میں رات نہ گزاریں الٹا انہیں ملک سے باہر جانے دیا جائے جہاں وہ مزے کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، یہ پاکستان کے عدالتی نظام کے لئے بھی کوئی اچھی علامت نہیں،ضروری ہے کہ پاکستان کی موجودہ وفاقی حکومت جس سے توقع تو نہیں مگر ان سے مطالبہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ فوری طور پر (ر) جنرل پرویز مشرف کو پاکستان واپس بلاکر ان کو مقدمات کا سامنا کرنے پر مجبور کرے، ساتھ ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے بھی توقع ہے کہ وہ اپنے اختیارات استعمال کرکے مشرف کو یہاں کے عدالتی کٹہروں میں لاکر کھڑا کرے۔ میرا خیال ہے کہ یہ تاثر خود عدلیہ کے مفاد میں بھی نہیں ہے کہ اگر کوئی ریٹائرڈ چیف آف اسٹاف یا ریٹائرڈ جنرل ہے تو اسے کسی بھی الزام کے تحت عدالتوں میں پیش ہونا نہیں پڑے گا۔ اسی طرح ہمیں اپنے عدالتی نظام سے بھی توقع ہے کہ آئین و قانون کے مطابق سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے گا۔ وقت آگیا ہے کہ یہ بھی مطالبہ کیا جائے کہ ہماری موجودہ عدلیہ تاریخ میں خود کو ایک بے مثال انصاف کا ادارہ ثابت کرنے کے لئے ان سب لوگوں کے خلاف چاہے زندہ ہیں یا انتقال کرگئے ہیں پر ماضی میں مارشل لا لگانے پر مقدمات چلائے،ساتھ ہی ایسے مقدمات سپریم کورٹ کے ان ججوں کے خلاف بھی چلائے جائیں جو مارشل لا کو جائز قرار دیتے رہے ہیں۔


.
تازہ ترین