• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ گزرا سال مجھے کیا لے کر اور کیا دے کر گیا ہے۔ میں جو کتابوں میں رہتی ہوں۔ کتابوں سے باتیں کرتی ہوں اور جو کتاب پسند نہ بھی آئے اس کو بھی پڑھ لیتی ہوں۔ کیوں! کبھی وہ کسی دوست کی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ کبھی کسی نئے مصنف نے بڑی آس کے ساتھ بھیجی ہوتی ہے۔ کبھی کسی کتاب کو اٹھا کر زمین پر مارنے کو جی چاہتا ہے اور کبھی کسی کتاب کو بار بار پڑھنے کے لئے ورق گردانی کرتی ہوں۔ پورے سال مجھے کتابوں نے بہت پیار دیا۔ انتظار حسین کے دنیا سے چلے جانے کے بعد، پڑھ کر بارہا پڑھ کر میرے ساتھ آصف فرخی کی وہ دونوں کتابیں، گنی چنی تحریریں اور انتظار کی تحریروں کے تجزیے نے، مجھے سال بھر انتظار حسین کو بھولنے نہیں دیا۔ اس طرح شاہین مفتی نے گجرات کو اپنی زندگی کے متحوج کے ساتھ تیسری گلی میں رہنے والے محمد خان کو یاد کیا، جسے ہم عبداللہ حسین کہتے ہیں، شاہین کو اتنا خوبصورتی سے تجزیہ کرنا آتا ہے کہ اس نے اداس نسلوں میں ماں کی محرومی اور سوتیلی سترہ سال کی بہن کی گود میں پلنے کے باعث، اسے تحفظ کا احساس رہا مگر جگہ جگہ عبداللہ کو عورت کی بدکاری یاد آتی رہی۔ کبھی نشیب میں اور کبھی قید میں۔
شاہین نے بانو قدسیہ کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ کا اینٹی ہیرو اور شمس الرحمان فاروقی کے ناول کو بعنوان ’’بنی ٹھنی‘‘ وزیر بیگم کے کردار کا تجزیہ کیا ہے اور قلم نے کبھی کبھی چھری کا کام کیا ہے۔ البتہ فیض صاحب کی کلر اسکیم بتاتے ہوئے، شاعری کی مخصوص فضا پر فریفتگی ظاہر کرتی ہے۔ مگر چاہے ظفر اقبال کی شاعری کا تجزیہ ہو کہ مجاز کا یا پھر افتخار عارف کا ان تمام تحریروں میں تشنگی کا احساس اس لئے ہوتا ہے کہ شاہین کے پاس ان تمام شعرا کے تمام مجموعے موجود نہیں تھے۔ ورنہ وہ ظفر اقبال کے اس مصرعے پر بھی مضمون لکھ سکتی تھی کہ ’’شاعری کے دین کو ہم نے مکمل کردیا‘‘ انیس ناگی کی ادھوری سرگزشت ہو کہ سلیم اختر کے بارے میں مضامین، دونوں بہت محبت سے لکھے ہیں۔
ایک کتاب بند کرتی ہوں تو دو کتابیں مجھ سے مخاطب ہوجاتی ہیں۔ یہ دونوں کتابیں تنویر انجم کی ہیں، شاعری میں جو نیا پیرہن پہنا ہے تنویر اس کو کبھی فیس بک کے حوالے سے کبھی سیاست کے بھوکے کوئوں کا نام دے کر اور کبھی نظم لکھنے کے لئے ایک سبائیکل کی ضرورت کو خوبصورتی سے تحریر کرتی ہے۔ بہت سے لفظ جو نئی تحریروں اور خاص کر نظموں میں سامنے آرہے ہیں۔ تنویر ان کو سلیقے سے استعمال کرتی ہے۔ لگتا ہے وہ سیدھی سادی نظم لکھ رہی ہے، جیسے ’’کنویں میں پانی ہوتا تھا، آگ تو نہیں‘‘ اور مختلف تشبیہ دیتے ہوئے نظم ختم کرتے ہوئے کہتی ہے ’’یہاں ایک گائوں تھا، کہاں گیا وہ گائوں‘‘۔ اس طرح قطار کہتی ہے، نظم وہ سارے ظلم یاد کرادیتی ہے جہاں چاہے ہزارے والے ہوں کہ شامی، ظالمانہ حکم آتا ہے ’’قطار میں کھڑے ہوجائو، منہ دیوار کی طرف کرکے‘‘۔ پھر گولیاں چلنے کی آواز، تنویر کے مدھم لہجے کو سامنے لاتی ہے۔ میں جبکہ اکیسویں صدی کے سترھویں سال میں داخل ہورہی ہوں مجھے تنویر ڈرا دیتی ہے جب وہ مصنوعی انسانوں کو میری جگہ لیتے ہوئے دکھاتی ہے۔ میں کہ انسان ہوں اور انسان رہنا چاہتی ہوں۔ میں تنویر کی طرح لکھنے اور پڑھنے کےلئے ایک اور زندگی نہیں مانگوگی مگر ترکی کے نائٹ کلب جیسا انجام بھی نہ چاہونگی۔ اب تو میرے سامنے فریدہ حفیظ ہے۔ گزشتہ چالیس برس سے ہم لوگ صحافت اور لکھنے سے ایسے جڑے ہیں کہ ملاقات نہ ہو تو تحریر ہمیں ملادیتی ہے۔ لکھنے کے سلسلے میں وہ بہت چور ہے۔ بڑی مشکل سے جمع کی ہوئی کہانیاں ’’طاق میں رکھا سپنا‘‘ عنوان دے کر، کہانیاں، جو ہمارے گھروں میں اس دھول کے ساتھ در آئی ہیں، جو کبھی گم شدہ ہاتھوں کی شکل میں اور کبھی ’ندامت کا کرب‘ بن کر تو کبھی ’استقبال‘ اور’ ایک دن‘ لکھ کر مجھ سے پوچھتی ہے۔ آخر یہ تم اتنی محبتیں کیسے بانٹتی ہو۔ لوگ تو بھول گئے ہیں۔ واقعی اسلام آباد کے لوگوں کو ظاہری محبت جسے وقتی محبت کہو بس یہ ہے۔
اکثر نشستوں میں سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ضیاالحق کے مظالم کے زمانے میں تو بہت کچھ لکھا گیا، مگر مشرف کی آمریت کے حوالے سے کچھ تحریریں واضح طور پر سامنے نہیں آتی ہیں۔ میں کیا کہوں جب وہ حسن منظر، حمید شاہد اور اسد محمد خان کی کہانیاں نہ پڑھتے ہوں۔ عباس تابش کی غزلوں میں ہمارے پائوں الٹے تھے، جیسی تشبیہوں میں چھپی اذیت کو تلاش نہ کرتے ہوں۔ شاید انہیں یاد نہیں ہے کہ سیاچن پر جانے والے فوجیوں کے پیر اور ہاتھ برف سے گلنے لگتے ہیں۔ پھر انہیں واپس چھائونی میں بھیجا جاتا ہے، لوگوں نے کارگل کی بے وقوفی کے باعث، مارے جانے والے جوانوں کی کہانیاں نجیبہ عارف اور طاہرہ اقبال کی کہانیوں میں نہیں پڑھی ہیں۔ سلمیٰ اعوان نے عراق جاکر وہاں کے شہروں، نجف، کربلا اور موصل پر لوگوں کی گزشتنی کو جیسے بیان کیا ہے۔ خالدہ حسین نے تبلیغ پر جانے والے بیٹے کو موت کے ہاتھوں جدا ہوتے دیکھ کر اور اس طرح فہمیدہ ریاض نے ’’منی کی چھٹی آئی‘‘ کے عنوان سے ہماری سادہ لوح بچیوں پر الزام لگاکر کیسے مذہبی دیوتا، ورغلاتے اور ہمارے دیہات کے لوگوں کے گھروں کو آگ لگانے پر اکساتے ہیں۔ یہ سب منظر، آپ تصویروں کی شکل میں دیکھ کر بھلا دیتے ہیں، مگر ایک لکھنے والا چاہے وہ رشید امجد ہو کہ شاہین مفتی ہمیں ایسا آئینہ دکھاتے ہیں کہ آنکھیں بند کردینے سے بھی منظر نہیں چھپتا ۔
میرے پڑھنے والو! 2017بھی بہت ہولناک مناظر لے کر آرہا ہے۔ ہمارے ڈیموں میں بھی پانی ختم ہورہا ہے۔ فصلیں کیسے کاشت کی جائینگی روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں ہم گھن کی طرح پس جائینگے۔ شام جیسا ملک، جہاں اسلامی تہذیب کی نادر عمارتیں اور قبرستان موجود تھے۔ آج اس کے لوگ یورپ کی جانب ہجرت کررہے ہیں۔ پاکستان کے سات ہزار لوگ، نوکریاں تلاش کرنے چلے گئے۔ ان کی کہانی بھی ہم ہی لکھیں گے۔


.
تازہ ترین