• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کئی ماہ سے تعلقات انتہائی پیچیدہ ہیں اور قوی امکان ہے کہ بھارتی ریاست پنجاب اور یوپی کے الیکشن تک تعلقات ایسے ہی رہیں گے۔ بھارت میںعام انتخابات ہوں یا ریاستی انتخابات پاکستان مخالف نعرہ بہت مقبول اور الیکشن پر اثر انداز ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ خطے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بھارت چاہتے ہوئے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کر رہا۔ بھارتی تجزیہ نگار وں کا یہی خیال ہے کہ جیسے ہی پنجاب اور یوپی کے ریاستی الیکشنوں کا عمل مکمل ہو جائے گا پاکستان اوربھارت کے درمیان رابطے بحال ہونا شروع ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تعلق معمول پر کیوں لانا چاہتا ہے؟ چند روز قبل بھارت کے ایک بڑے انگریزی اخبار میں مضمون شائع ہوا جس میں بتایا گیا کہ بھارت کا سی پیک منصوبے میں شامل ہونا ضروری ہوتا جا رہا ہے، مضمون میں اس بات کا احاطہ بھی کیا گیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے باعث بڑی تیزی سے خطے میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں پاکستان چین نا صرف قریب سے قریب تر ہو رہے ہیں بلکہ روس اور اب ایران بھی قریب آ رہے ہیں۔ بھارت جس نے ایرانی بندر گاہ چا بہارمیں اربوں ڈالر کی انوسٹمنٹ کی ہے تا کہ اس بندر گاہ کو گوادر کے متبادل طور پر بنایا جا سکے، ایران نے چابہارکو گوادرکی سسٹر پورٹ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ مضمون کے آخر میں یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر بھارت اس منصوبے میں شامل نہ ہوا تو اس کا بہت نقصان ہو سکتا ہے جبکہ چین نے بھارت کو پیشکش کی ہے کہ وہ بھی اس منصوبے میں شامل ہو جائے۔ اس مضمون سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ منصوبہ خطے کے امن کے لئے بھی سود مند ہوگا۔ اقتصادی راہداری جس کو اب جنوب مشرقی ایشیا، مشرق وسطی اور سینٹرل ایشیا کو ملانے کا راستہ کہا جا سکتا ہے اس کی اہمیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ چند روز قبل روس میں افغانستان پر کانفرنس ہوئی جس میں پاکستان اور چین نے بھی شرکت کی اس کانفرنس کے اعلامیہ میں یہ کہا گیا کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے خطے کے تمام ممالک کو مل کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ داعش کے خطرات کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے اورافغان طالبان کو سیاسی دھارے میں لانے کے لئے ان سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اس کانفرنس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ چند ممالک داعش جیسی تنظیم کو اپنے مفاد کے لئے خطے میں فروغ دے رہے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ حالیہ چند ماہ میں روس خطے کی اہمیت کے پیش نظر اپنے تعلقات اور اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ روس نہ صرف اقتصادی راہداری میں شمولیت کا خواہشمند ہے بلکہ اس نے گوادر بندر گاہ کے ذریعے تجارت شروع کرنے کے لئے پاکستان کو باقاعدہ درخواست دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان اور روس کا قریب آنا بھارت کو کسی آنکھ بھی نہیں بھا رہا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نے ہندوستان کے شہر امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان اورروس کے بڑھتے تعلقات پر تشویش کا اظہار کیا تھا اس بات کا اندازہ بھارتی میڈیا کے اس انٹرویو سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے روس کے نمائندہ خصوصی سے کیا۔ اس انٹرویو میں خاص طور پر یہ سوال کیا گیا کہ بھارت روس کا پائیدار دیر پا اور بہترین دوست ہے لہٰذا روس کو پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے جس پر روس کے نمائندہ خصوصی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ روس نے کبھی بھارت امریکہ بڑھتے ہوئے تعلقات پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا اور ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کو بھی ایسا رویہ اپنانا چاہئے۔ اس ساری صورتحال کا اگر احاطہ کیا جائے تو بھارت کے میڈیااور دانشوروں میںبڑی سنجیدگی سے یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے چین جا کر چین کے صدر کو براہ راست اپنی تشویش سے آگاہ کیا کہ اقتصادی راہداری گلگت بلتستان جو کہ متنازع حصہ ہے سے گزر کر جائے گی لہٰذا چین کو اس منصوبے کو شروع نہیں کرنا چاہئے مگر چین نے بھارت کی اس تشویش کو یکسر مسترد کر دیا جس کے بعد بھارت نے کئی اور طریقوں سے بھی اقتصادی راہداری کوروکنے کی کوششیں کیں جو کہ کارگر ثابت نہیں ہو رہیں۔اس کے برعکس اقتصادی راہداری پر زور شور سے کام جاری ہے اور ان دو ممالک کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک بھی اس منصوبے میں شامل ہو رہے ہیں خاص طور پر روس اور ایران کا اس منصوبے میںشامل ہونا انتہائی تشویش ناک ہے اس کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستیں سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک بھی اس منصوبہ کا حصہ بننے جا رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس منصوبہ میںشامل نہ ہو کر بھارت گھاٹے کا سودا کر بیٹھے لہٰذا بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی خاص طورپر پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی پر سنجیدگی سے ازسرِ نو غور کرنے کی ضرورت ہے اس بحث کے باعث بھارتی حکومت پر دبائو بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کیا جا ئے اور کسی نہ کسی طریقے سے اس منصوبے میں شمولیت کے حوالے سے سنجیدگی سے غور کیا جائے۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بھارتی حکومت کے اندر سے بھی اس حوالے سے سنجیدگی سے بات چیت جاری ہے اور چین کے ساتھ اس حوالے سے رابطہ کرنے پر بھی سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے اور اس بات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ چین کی طرف سے اقتصادی راہداری میں شمولیت کے حوالے سے ملنے والی دعوت پر کیا ردعمل دیا جائے۔ بہر حال یہ بات طے ہے کہ اگر بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے اقتصادی راہداری میں شامل نہ ہوا تو وہ اپنے لیے گھاٹے کا سودا کرے گا اور بنیا کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ اس تمام صورتحال کے پیش نظر یہ کہنا بجا ہوگا کہ بھارت کیلئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی ناگزیر ہو چکی ہے اور آنے والے دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان رابطے شروع ہونے کی قوی امید ہے جبکہ مارچ اپریل کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پر آنا شروع ہو جائیں گے خواہ اس کے لئے بھارت کو کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ خطے میں امن کی ضمانت کے طور پر بھی اُبھر رہا ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے پاکستان اورروس قریب آ رہے ہیں اور اب بھارت کوبھی پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات نہ صرف بحال کرنے بلکہ بہتر کرنے کے لئے خود سے کوششیں کرنا پڑ رہی ہیں۔


.
تازہ ترین