• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذرا ایک لمحے کے لئے اُس مصری جج کے بارے میں سوچیں جس نے بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے پر خود کشی کرلی۔ خدا اُس پر رحمت کرے ، اُس میں کم از کم کسی درجہ عزت ِ نفس تو تھی، یا ندامت محسوس ہوئی، یا وہ دبائو برداشت نہ کرسکا۔ اگر وہ بچائو کے پاکستانی طریقے سیکھ لیتا تو اب تک نہایت طمانیت سے جی رہا ہوتا ۔ ضمیر پر کوئی خلش ؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور یہاں ہمارے ہاں ایک جج اور اس کی بیوی نے ایک دس سالہ ملازمہ کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ جب ہنگامہ بپاہوا تو جج نے اُس لڑکی کے والد کو بلایا کہ وہ کہے کہ یہ سب کچھ ایک غلط فہمی کا نتیجہ تھا ، اور یہ کہ اُس کا جج کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں۔ اب جبکہ محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے اس شرمناک واقعہ کا نوٹس لیا تو امید کی جانی چاہیے کہ جج کو اپنے کیے کی سزا ملے گی۔
تاہم معاملہ کسی انفرادی جج کے واقعہ تک محدود نہیں۔ ملک کے وزیر ِاعظم اور ان کی تمام فیملی کا دامن ایک مالیاتی اسکینڈل کی وجہ سے داغدار ہے ۔ اُن پر لندن جائیداداورسمندر پار اکائونٹس ، جن کا اُنھوںنے اپنے ٹیکس گوشواروں یا انتخابی کاغذات میں کوئی ذکر نہیں کیا، کو چھپانے کا الزام ہے ۔ اگرچہ شریف فیملی نے تین مرتبہ وکلا کو تبدیل کیا لیکن وہ جائیداداور اکائونٹس کی وضاحت پیش کرنے سے قاصر کہ ان کے لئے رقم کہاں سے آئی ، نیز رقم بھجوائی کیسے گئی ؟فی الحال خاندان اور ا س کے ذہین وکلا، جن میں کچھ کا شمار ملک کے بہترین وکلا میں ہوتا ہے ،نے عدالت میں ایسی بے سروپا وضاحتیں پیش کی ہیں جو اگر کسی نجی نشست میںکی جاتیں تو سننے والے ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوجاتے ۔ عدالت میں ہونے والی یہ سماعتیں جو رخ بھی اختیار کریں ،یا محترم جج صاحبان جوبھی نتیجہ نکالیں، کیا اس اسلامی جمہوریہ کے طول وعرض میں ایک بھی ذی روح ایسی ہے جو شریف فیملی کی وضاحت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں بے گناہ ماننے کے لئے تیار ہو؟کسی اور کا تو ذکرہی کیا، میں شرطیہ طور پر کہہ سکتا ہوں کہ پی ایم ایل (ن) کے بلند آہنگ ترجمان، دانیال عزیز اورطلال چوہدری بھی اپنی نجی زندگی میں ان دلائل پر دل کھول کر ہنستے ہوںگے جو وہ اپنے قائدین کے دفاع میں دیتے ہیں۔ جہاں تک محمد زبیر کا تعلق تو وہ سمجھ دار ضرور ہیں۔کیا وہ اُن باتوں پر یقین رکھتے ہوں گے جو وہ ٹی وی کے لامتناہی پروگراموں میں کہتے رہتے ہیں؟ہاں اُنہیں ایک امید کا آسرا ضرور ہے کہ ایک نہ ایک دن اُن کی ’’محنت ‘‘ رنگ لائے گی اور وہ اپنے شایان ِشان عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیںگے ۔ شریف برادران کے پروں پر پانی نہیں ٹھہرتا، ایسے معاملات میں وہ بہت سخت جان ہیں، ہاں اُن کے دل میں طوفان سا بپا ہوگا۔ یقینا ہر ٹی وی اسٹوڈیواور اخبار میں اپنے نام کی باز گشت، مالیاتی بے ضابطگی کا تذکرہ اور الزامات کا تسلسل کوئی دل خوش کن معاملہ نہیں ہوتا۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ شریف برادران بھی قدیم رومنز کی طرح الزامات کی زد میں آتے ہی سینے میں تلوار اتار لیں۔ نہیں، یہ پاکستانی طریقہ نہیں۔ اور پھر یہاں رومن تاریخ پڑھنے کا وقت کس کے پاس ہے ؟لیکن پاناما معاملات بھی ایک طرح کی زندگی حاصل کرچکے ہیں ، اور یہ کہیں نہیں جارہے ۔ عدالت میں چلنے والے کیس کا جو بھی نتیجہ نکلے،شریف فیملی کے دامن پر لگنے والا داغ موجود رہے گا، چاہے دیگر داغ دھل بھی جائیں۔ آپ گورننس اور ایک قوم کے معاملات چلانے کی بات کس طرح کرسکتے ہیں جب اس قبیل کے اسکینڈلز آپ کے دامن گیر ہوں؟آپ درپیش معاملات پر کس طرح توجہ مرکوز کرسکتے ہیں جب آپ کے ذہن پر مالیاتی اسکینڈل کا بھوت سوار ہواور قطری شہزادوں کاہاتھ تھام کر اس دلدل سے نکلنے کی کوشش میں ہوں۔ اس دوران آپ کو اپنے وکلا کی نااہلی کی بھی فکر ہو اور آپ اس سوچ میں ہوں کہ اگلی سماعت پر سپریم کورٹ میں آپ کی نمائندگی کون کرے گا؟ حتیٰ کہ نپولین کا سا دماغ رکھنے والا بھی ان حالات میں توجہ کے ارتکاز سے قاصر ہوگا۔ اگر یہ معاملہ برطانیہ میں درپیش ہوتا توحکمران جماعت، چاہے وہ ٹوری ہوتی یا لیبر، کے خلاف بغاوت ہوچکی ہوتی، ایسے لیڈر کو معطل کرنے کے لئے کارروائی عمل میں آچکی ہوتی کیونکہ اس کی وجہ سے تمام جماعت مشکل سے دوچار ہوئی۔ امریکہ میں بھی شور ِ قیامت بپا ہوجاتا۔ ہم نے دیکھا کہ جنوبی کوریا میں کیا ہوا؟ وہاں صدرکو ایسے الزامات کی پاداش میں عدالت کا سامنا کرنا پڑاجو زیادہ تر پاکستانیوں کی فہم سے ہی بالا تر ہوں گے ۔ہم یہاں دن دیہاڑے ڈکیتی، سفید جھوٹ، اور دیگر شرمناک معاملات کے عادی ہیں۔
ہم جنوبی کوریا میںلیڈر پرلگنے والے الزام ، جو کسی معاملے پر اثر انداز ہونے کی بابت تھا، کو تو جرم سمجھتے ہی نہیں۔لیکن آپ ایک فعال لیڈر کس طرح ثابت ہوسکتے ہیں جب آپ کی اخلاقیات اور ایمانداری پر سوالیہ نشان لگ چکا ہو؟مجھے یقین ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی کے نئے چیفس اپنی تقرریوں پر وزیراعظم کے مشکور ہونگے ، لیکن پاناما کیس اپنی جگہ پر موجود۔ جب وہ افسران وزیر اعظم کے سامنے میز پر بیٹھیںگے تو اُ ن کے ذہن میں کیا ہوگا؟ہوسکتا ہے کہ وہ وزیر ِاعظم سے اتفاق کرتے ہوئے سر ہلا رہے ہوں لیکن کون جانتاہے کہ اُن کے دل میں کیا ہو؟
فوج میں جھوٹ اور دھوکہ بازی کا شمار گناہ ِ کبیر ہ میں ہوتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ایک کمانڈنگ آفیسر کے سینے پر تمام تمغے سجے ہوں لیکن اگر اُس کی شہرت بدعنوانی کے الزام کی وجہ سے داغدار ہوگئی تو وہ اپنے جوانوںکی عزت سے محروم ہوجائے گا۔ قومی قیادت کے ساتھ بھی یہی معاملہ درپیش ہے ۔ ترکی میں ہرکوئی جانتا تھا کہ مصطفی کمال مے نوشی کرتے ہیں، نیز نسوانی حسن سے اُن کی رغبت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ وہ بہت اچھے ڈانسر تھے اور وہ ان حقائق کو چھپانے کی مطلق کوشش نہیں کرتے تھے ۔ جب وہ سیاست میں آئے تو وہ دکھاوا کرسکتے تھے ، لیکن اُنھوںنے اپنے ذاتی معاملات کی ملمع کاری کی کوشش نہ کی ۔لیکن اگر عوام کو اس بات کا پتہ چل جاتا کہ اُنھوںنے ملک کو لوٹ کر دولت غیر ملکی بنکوں میں چھپائی ہے اور اُن کے لندن یا پیرس میں مہنگے فلیٹس ہیں تو کیا قوم پھر بھی انہیں عزت اور احترام دیتی ؟
اس ملک کے مسائل معمولی نہیں ہیں۔ برآمدات کے گراف کو دیکھیں، مسلسل زوال کا شکار، قرضہ بڑھتا جارہا ہے ، محصولات کم ، جبکہ اخراجات آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ اور ہم معاشی راہداری کواپنے بیانات کے ذریعے جادوکی ایک چھڑی میں تبدیل کرتے ہوئے ہر جگہ استعمال کرکے امید لگائے ہوئے ہیںکہ اسے گھماتے ہی تمام معاملات درست ہوجائیںگے ۔ یادر ہے، چین کے بھی مسائل تھے لیکن وہ چینیوں نے ہی حل کیے ۔ کوئی ان کی مدد کے لئے نہیں آیا تھا۔ امریکیوں نے جنوبی کوریا کو دفاعی چھتری ضرور فراہم کی تھی ۔ لیکن جنرل پارک چنگ ہی(Gen Park Chung-hee) ، جو ایک آمر اور الزامات کا سامنے کرنے والے موجودہ صدر کے والد تھے ، نے ملک کو ترقی کی راہ پرڈالا۔ سی پیک ہمارے لئے ایک افیون ثابت ہورہی ہے۔ ہم بطور قوم اس قدر ذہنی افلاس کا شکار ہوچکے ہیں کہ خود سوچنا بھی ہمارے بس میں نہیں رہا۔
اس فکری افلاس سے نجات پانے کے لئے ہمیں مضبوط ، دلیر اور تصورات رکھنے والی قیادت درکار ہے ۔ مالیاتی اسکینڈلز کا شکار قیادت قوم کی فکری رہنمائی نہیں کرسکتی ۔ اوسط درجے کی سوچ رکھنے والی قیادت سے کسی معجزے کی توقع نہیں لگائی جاسکتی ، لیکن جب وہ مالیاتی مسائل کی دلدل میں بھی دھنسی ہو تو پھر عوامی مفاد میں معمول کے اہم فیصلے کرنے کے قابل بھی نہیں رہتی ۔ تاہم یہاں ہم پارٹی کے اندر سے کوئی انقلاب آتا نہیں دیکھیںگے ۔ اگر الف لیلیٰ کی سی سچائی کے حامل آصف زرداری اپنا سیاسی بچائو کرسکتے ہیں تو الحمدﷲ، شریف برادران کیوں نہیں بچ پائیں گے ؟کوئی بیماری اتنی نقصان دہ نہیں ہوتی جتنی جامد سوچ،اور دلدل میں جمودتو صرف سڑاند پیدا کرتا ہے ۔


.
تازہ ترین