• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت دنیا بھر سے سامان حرب خرید رہا ہے جسکی وجہ سے دنیا کا سب زیادہ جنگی سامان خرید نے والا ملک بن گیا ہے مگرجب سے میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم (MTCR) کا ممبر بنا ہے وہ آپے سے باہر ہوگیا ہے اور ایک بیلسٹک میزائل ٹیسٹ کے بعد دوسرا میزائل ٹیسٹ کررہا ہے، دسمبر 2016ء کے آخر میں اس نے اگنی 5 کا تجربہ کیا تو 2 جنوری 2017ء کو اگنی 4 کا تجربہ کر ڈالا۔ اگنی 5، پانچ ہزار کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اگنی 4، چار ہزار کلومیٹر تک، اگنی 5 کے تجربے کیلئے آسٹریلیا کے قریب ساحل کا انتخاب کیا تاکہ یورپ کو خطرہ محسوس نہ ہو، مگر اِس سے یورپ کو ہی خطرہ محسوس کرنا چاہئے کیونکہ5 ہزار کلومیٹر بدف کے میزائل سے یورپ کے کئی ممالک اِسکی زد میں آجاتے ہیں، ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کا حامل اگنی 4 سے بھارتی حکام کے مطابق چین کے شمالی علاقے اُسکی زد میں آجائیں گے، مگر بھارت کے عزائم اُسکے سوا ہیں، وہ عالمی سپر طاقت بننا چاہتا ہے اور شاید مغربی ممالک نے اِسکو تسلیم بھی کرلیا ہے، ایک طرف روس نے اُسکی مدد کی کہ وہ بڑے ہتھیار بنائے اس لئے کہ روس کو ایک اتحادی اور دفاعی مارکیٹ کی ضرورت تھی جبکہ چین کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کیلئے امریکہ نے بھارت پر نوازشات کی بارش کردی، اسے 2006ء میں سول ایٹمی ٹیکنالوجی کے معاملے میں استثنیٰ دلادیا اور ایٹمی مواد کی پیداوار میں ایک طرح سے کھلی چھوٹ دلوا دی کہ وہ افزودہ یورینیم کو عالمی تحفظ دے یا نہ دے، اُسکے کچھ ایٹمی پلانٹس عالمی ایٹمی کمیشن کے تحفظ میں ہیں اور کئی نہیں ہیں جن کو وہ فوجی مقاصد کیلئے استعمال کررہا ہے اِسکے باوجود وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا ممبر بھی بننا چاہتا ہے، جو بھارت کے ایٹمی دھماکے کی وجہ سے ہی معرضِ وجود میں آیا اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ این ایس جی کی مخالفت میں بھارت نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن اب اس ہی کی ممبر شپ کیلئے بھرپور کوششیں کر رہاہے۔بھارت میں ایک بڑے ملک بننے کی نہ صلاحیت ہے اور نہ ہی اسے توازن قائم رکھنے کا کوئی سلیقہ آتا ہے۔ اُسکو یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس کا یہ رویہ انسانیت کو تباہ کرنے کا سبب بنے گا۔ یہ ایٹمی ممالک کا معاملہ ہے، امریکہ نے تو اپنےسابق وزیر دفاع کو شمالی کوریا تک کو چھیڑنے یا ڈرانے سے منع کیا تھا، ایٹمی ملک بننے کے بعد ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ کوئی ایک ملک غلطی کر بیٹھے تو پورا کا پورا برصغیر ختم ہوجائے گا۔ یہ حساسیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تین ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد ہے، دونوں ممالک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور ان کے درمیان کشمیر کا تنازع ہے، سرحدوں پر بھارت کی چھیڑچھاڑ جاری ہے پاکستان کے پانی کو روکنے کی بات ببانگ دہل کر رہا ہے، دونوں ممالک کے پاس جدید ایٹمی میزائل ہیں، بھارت کے پاس ایک سیٹلائٹ ایسا بھی ہے جس سے وہ ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے جبکہ پاکستان کے پاس اگرچہ ایک سیٹلائٹ چین کی مددسے فضا میں چھوڑا گیا ہے مگر بغیر میزائل کے اُسکے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھارت کے برابر ہے اور بھارت کو بھی اپنے بچائو کیلئے وقت ہی نہیں ملے گا اور نہ ہی وہ سیٹلائٹ کے ذریعے اُسکو منجمد کرسکے گا، بھارت کے میزائلوں، ایٹم بموں، لیزر ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا مکمل نقشہ پاکستان ترتیب دے چکا ہے اور یہ طیف یا Spectrum ایٹمی جنگ، میزائل اور ہر طرح کی ٹیکنالوجی کے تناظر میں ترتیب دیا گیا ہے،، جو اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دونوں ممالک مل کر بیٹھیں اور کچھ اصول وضع کریں جس سے یہ خطہ تباہ ہونے سے بچے۔ پاکستان سے آگے بڑھنے، ڈرانے اور بالادستی قائم رکھنے کی کوشش میں وہ دُنیا بھر کے نظام سے ٹکرانے کو تیار ہے، اگنی 5 برطانیہ کو زد میں لاتا ہے اور یہ ایسا میزائل ہے کہ جو بیلسٹک میزائل کو روکنے کے نظام کو بھی توڑ دیتا ہے، سارے مغربی یورپی ممالک اِسکا ہدف بن سکتے ہیں۔ اگنی 4 کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ یہ میزائل صرف شمالی چین کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اِس میزائل کو بنانے کی بھارت کو کیا ضرورت تھی، شاید اس لئے کہ وہاں چین کاکوئی خفیہ نظام یا اڈہ موجود ہے، مگر پھر چین تو اُسکے براہموس جیسے خطرناک ایٹمی ہتھیار سے نہیں ڈرا تو اس سے کیوں خوفزدہ ہوگا۔ 2003ء میں اسلام آباد میں ہونے والے سیمینار میں ایک چینی پروفیسر نے یہ کہہ دیا کہ چین، پاکستان اور بھارت کو برابر کا درجہ دیتا ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ چینی وزیراعظم اِس دور میں جہاں پاکستان آئے تو بھارت بھی گئے، اس پر مغربی دانشوروں نے شور مچا دیا کہ کیا چینی براہموس میزائل سے ڈر گئے ہیں، اس پر چینی پروفیسر نے کہا کہ یہ ہماری طے شدہ پالیسی ہے۔ مگر دیکھنے کی بات یہ تھی کہ بڑے بڑے امریکی پروفیسر متحرک ہوگئے اور براہموس میزائل کی خوفناکی سے چین کو ڈرتا محسوس کیا جبکہ چین خاموشی سے اپنے تیاری میں لگا رہا، یہاں تک کہ اس نے Quantum Satellite تک بنا ڈالا، جس پر سائبر حملہ نہیں ہوسکتا اور یہ اتنی بڑی کامیابی ہے جو اب تک امریکہ کو نصیب نہیں ہوئی، پاکستان اِس مقام پر تو نہیں پہنچا مگر وہ اپنی سی تگ و دو کررہا ہے۔ بہت سے جدید ہتھیار جواب آں غزل کے طور پاکستان بنا رہا ہے، جن میں کئی ہتھیار ایسےبھی ہیں جس میں پاکستان بھارت سے آگے نکل گیا ہے، تاہم بھارت میزائل ٹیکنالوجی میں کافی پیش رفت کررہا ہے جو دُنیا کیلئے خطرے کی علامت بن جائے گا، وہ 13 قسم کے میزائل بنا چکا ہے جبکہ میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم کی ممبر شپ میزائلوں کی پیداوار روکنے کا تقاضا کرتی ہے ۔ مگر اِسکی بجائے وہ نہ صرف MTCR جبکہ Hague Code of Conduct (HCOC) ہیک کوڈ آف کنڈیکٹ، جسکی ممبر شپ بھی بھارت نے حاصل کرلی ہے کی مکمل خلاف ورزی ہے اور اس نے 3000 سے اوپر میزائل بنا لئے ہیں، یہ سارے میزائل پاکستان اور چین کیلئے تو نہیں ہیں، اُن کیلئے تو 50 میزائل بھی کافی ہیں۔ میزائلوں کی موجودگی اور ایٹمی مواد کی مسلسل افزودگی سے بھارت کے عالمی عزائم واضح ہوجاتے ہیں، جس پر عالمی طاقتوں کو ہوش میں آجانا چاہئے کہ بھارت اس دُنیا کو سخت خطرے سے دوچار کررہا ہے، بھارت کی غیرذمہ دارانہ روش اور بالادستی کی خواہش نے اس کو اندھا کردیا ہے۔ اسلئے پوری دُنیا کو خاص طور پر واحد سپر پاور امریکہ کو تشویش کا اظہار کرنا چاہئے ورنہ اُسکی بالادستی چین یا روس نہیں بھارت ہی ختم کردے گا۔

.
تازہ ترین