• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صرف دو دن پہلے جنگ گروپ کے ممتاز انگریزی روزنامہ "THE NEWS" میں ایک خبر شائع ہوئی جس کی سرخی ہی کافی ہے ۔"NEW PU VCʼS DECISIONS RAISE EYEBROWS"پس منظر اس کا یہ ہے کہ یونیورسٹی کی گزشتہ انتظامیہ نے مختلف قسم کے جرائم میں ملوث، مطلوب طلبا سے ہاسٹل میں رہائش کی الاٹمنٹوں کی منسوخی اور کمرے خالی کرانے کا حکم جاری کیا کہ یہ عناصر پولیس کو بھی مطلوب تھے۔ نئے وائس چانسلر نے شاید خود کو مستحکم کرنے یا کسی اور وجہ سے ’’مفاہمت‘‘ کرلی اور موجودہ انتظامیہ کی طرف سے سابقہ مراسلہ D/1367/HC مورخہ 30-12-2016 کے حوالہ سے لکھا۔’’جامعہ پنجاب میں زیر تعلیم طلبا جو کہ مختلف جرائم میں ملوث ہیں اور تھانہ مسلم ٹائون کو مطلوب ہیں جو کہ چیئرمین ہال کونسل کی جانب سے جاری کیا گیا کو منسوخ کیاجاتا ہے اور اس کو واپس لیا جاتا ہے لہٰذا محترم وارڈن/سپرنٹنڈنٹ صاحبان سے گزارش ہے کہ مذکورہ مراسلہ پر کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی جائے۔ تعاون کیلئے شکریہ۔ (رجسٹرار)‘‘اس کے بعد کہنے کو تو کچھ نہیں بچتا البتہ سوچنے کو بہت کچھ ہے لیکن سوچنا بھی کیا کہ زوال کی زد میں آئے ہوئے معاشروں میں کچھ بھی محفوظ نہیں رہتا۔ رہ گئی ’’مفاہمت‘‘ کی پالیسی تو اس حوالہ سے دو قسم کی اپروچ ہے۔ ایک تو وہ جو جناب آصف علی زرداری نے متعارف کرائی جس کا پنجابی خلاصہ ہے کہ ’’ونڈ کھائو تے کھنڈ کھائو‘‘۔ ’’مفاہمت‘‘ کے بارے میں دوسری اپروچ ہمارے مرحوم دوست اور باکمال شاعر عدیم ہاشمی کی تھی جس نے برسوں پہلے کہا تھا؎مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا نے مجھےمیں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھےسر جھکانے اور سربکف ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے لیکن جب تک یہ زمین و آسمان ایک نہیں کردیئے جاتے، ہمارے اجتماعی زوال کے سفر کا سلسلہ نہیں رکے گا۔ نہر پاناما چڑھی رہے گی۔ سچ یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی سے طویل ذاتی تعلق اور گہری جذباتی وابستگی نہ ہوتی تو میں یہ چند سطریں بھی اس موضوع پر ضائع نہ کرتا کیونکہ زیر قلم کالم کیلئے جو موضوع منتخب کیا وہ اس روز روز کے رونے اور مسلسل ماتم سے کہیں بہتر ہے۔ماہرین نفسیات نے گالیاں دینے والوں کے متعلق ایک حیران کن انکشاف کیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں گالیاں دینے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن ماہرین کی اک جدید ترین تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ بہت زیادہ گالیاں دینے والے لوگ زیادہ ایماندار اور مخلص ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جو عام سماجی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور محفل کا خیال رکھے بغیر گالیاں دیتے ہیں تودراصل انہیں سچ بولنا پسند ہوتا ہے۔ ماہرین نے اپنی اس تحقیق میں دو تجربات کیئے۔پہلے تجربے میں گالیاں دینے والے 276 افراد سے سوالات کئے گئے جبکہ دوسرے تجربے میں فیس بک کے 74 ہزار صارفین کی اپنی وال پر گالیاں دینے اور ان کی ایمانداری کے معیار کا تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق گالیاں دینا اپنے جذبات کا مستند اور سچا کھرا اظہار ہوتا ہے اور جو افراد اکثر گالیاں دیتے رہتے ہیں وہ اس لیے مخلص ہوتے ہیں کہ دوسروں کے برعکس وہ گالیاں دل میں روک کر بناوٹی اور جعلی ’’مثبت‘‘ جذبات کا اظہار نہیں کرتے۔ ان کے دل میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ لگی لپٹی رکھے بغیر بول دیتے ہیں اس لئے وہ زیادہ قابل اعتماد، جینوئین اور مخلص ہوتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ اس رویے کو دو طریقوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ گالیاں دینا ایک منفی رویہ ہے ایسے کچھ لوگ ممکنہ طور پر واقعی برے بھی ہوسکتے ہیں لیکن دوسری طرف ایسے لوگ جو اپنے جذبات کو فلٹر نہیں کرتے، جو دل میں آئے کہہ دیتے ہیں کہیں بہتر ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ اس سے پہلے مختلف جرائم کے ملزمان پر کی جانیوالی تحقیق میں بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جو لوگ زیادہ گالیاں دیتے تھے، ان کی بھاری اکثریت بعدازاں بے گناہ ثابت ہوئی جبکہ اس کے برعکس جو ’’گھنے‘‘ اور ’’میسنے‘‘ تھے زیادہ تر مجرم ثابت ہوئے حالانکہ گفتگو میں ’’مہذب‘‘ تھے۔میں نے خود ایک بار لکھا تھا کہ گالی کا موجد انسانوں کا محسن ہے کیونکہ اگر ’’گالی‘‘ نہ ہوتی، کتھارسس نہ ہوتا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو جانے کتنے لوگ برین ہیمرج کی بھینٹ چڑھ جاتے۔ ایسا لکھتے وقت میرے وہم وگمان تک میں نہ تھا کہ کبھی کوئی تحقیق میری اس بات کی تصدیق بھی کردے گی۔چلتے چلتے یہ بھی سن لیجئے۔ بھٹو مرحوم کے ایک صوبائی وزیر تھے ملک غلام نبی جو بہت ہی مہربان پیارے، مخلص اور دبنگ آدمی تھے لیکن گالیاں بہت دیتے۔ کسی دل جلے نے بھٹو صاحب سے شکایت کردی۔ بھٹو صاحب نے بھری میٹنگ میں ملک صاحب سے کہہ دیا کہ سنا ہے آپ گالیاں بہت دیتے ہیں تو ملک صاحب نے پوچھا ..... ’’کس الو کے پٹھے، پاگل کے بچے، کھوتے دے پتر وغیرہ وغیرہ نے میرے بارے یہ بکواس کی ہے؟‘‘(یاد رہے ملک صاحب پی ٹی آئی کی دبنگ لیڈر ڈاکٹر یاسمین راشد کے سسر تھے)



.
تازہ ترین