• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے پچھلے کالموں میں آپ کی خدمت میں سندھ اسمبلی سے منظور کردہ قانون زبردستی تبدیلیٔ مذہب پر کچھ تبصرہ کیا تھا۔ یہ آخری کالم اُسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں اس قانون کے ذریعہ تبدیلیٔ مذہب کی عمر کم از کم 18سال رکھی گئی ہے اور پھر یہ بھی اگر کوئی فرد 18سال یا اس سے بڑا بھی ہوا اور مذہب کی تبدیلی چاہتا ہے تو اس کو پہلے 21دن کی مہلت دی جائے گی کہ وہ اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کر لے اور اگر کسی شخص نے کسی فرد کو دھمکی یا لالچ سے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا تو اس کو سخت سزا دی جائے گی۔ آئیے اس موضوع پر قرآن و احادیث کی روشنی میں مزید روشنی ڈالتے ہیں۔
حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر ہاتھ سے قدرت نہ ہو تو زبان سے روکے، اگر یہ قدرت بھی نہ ہو تو دل سے اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے (صحیح مسلم، ج1ص69حدیث نمبر49) اس حدیث کی روشنی میں اس موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ تو سب سے پہلا فرض تو ہمارا یہ بنتا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص آج سے یہ عزم کرے کہ میں دین کا داعی اور مبلغ بنوں گا۔ ہر شخص کو دین کی دعوت دیجئے۔ اس کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرائیے اور اپنی بساط کے مطابق اپنی زندگی کے کچھ لمحات دین کی خدمت کیلئے وقف کرنے کا عزم کیجئے۔ آپ مغرب کو دیکھ لیجئے کہ اہل مغرب کس طرح اپنے مذہب کی خدمت کرتے ہیں اور کس طرح ادارے اور این جی اوز تشکیل دے کر اسے مقصد زندگی بنائے ہوئے ہیں اور کتنے وسیع پیمانے پر کتنی طویل المیعادمنصوبے بنا کر اس میں جتے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ بات اچھی طرح پتا ہونی چاہئے کہ ہم میں سے جس شخص کا جس کسی سیاسی جماعت سے بھی تعلق ہے تو ہمارا اس جماعت سے تعلق ثانوی حیثیت رکھتا ہے جبکہ مذہب اسلام سے ہماری وابستگی اور ہمارا تعلق اوّلین ہے۔ ہم پہلے مسلمان ہیں بعد میں کسی پارٹی کے رکن ہیں۔ غرض یہ کہ کسی بھی پارٹی سے وابستگی دوسرے نمبر کی چیز ہے۔ اسلام پہلے ہے اور ہر تنظیم اور جماعت دوسرے نمبر پر ہے۔ ہم اپنے سیاسی قائدین کے تو بہت وفادار ہوتے ہیں۔ آج ہماری اسلام سے وفاداری کا سوال ہے کہ ہم اسلام سے کتنے وفادار ہیں؟ جس کا تعلق جس کسی بھی سیاسی جماعت سے ہے وہ اپنی جماعت کے قائدین کو اس بات کی طرف اب بھی اور مستقبل میں بھی اگر ایسی صورتحال ہو تو متوجہ کرے اور موثر انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے۔ اسمبلی میں موجود اراکین سے ملیں ان کو بتائیں کہ ہم نے آپ کو ووٹ کس مقصد کے لئےدیا تھا؟ یہ تو کسی فرقے کی بات نہیں، یہ تو اسلام کا مسئلہ ہے۔ خود اراکین اسمبلی اور سیاسی جماعت کے قائدین کو بھی اس نازک صورتحال کا احساس کرنا چاہئے۔ظاہر ہے ایک جمہوری نظام میں عوام کی طاقت بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی طاقت کا اندازہ نہیں۔ ہم پر کوئی بھی جس طرح کا قانون نافذ کرنا چاہے وہ کرجاتا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے اس کا خمیازہ بھگتتے رہتے ہیں۔ ہر شخص یہ کہتا ہے کہ میرے کہنے سے کیا ہوگا؟ ہر شخص یہ کیوں نہیں کہتا کہ میرے کہنے سے بہت کچھ ہوجائے گا۔ آپ آواز اٹھائیں گے، میں آواز اٹھائوں گا، دوسرا آواز اٹھائے گا، تیسرا آواز اٹھائے گا، اسی سے مل کر ایک توانا اور بھرپور آواز بنے گی اور حکمراں ہماری بات سننے کےلئے تیار ہوں گے۔ نجانے اس بے بسی کی وجہ کیا ہے؟ یا شاید ہم نے دین کو مدرسے کے لئے خاص سمجھ رکھا ہے کہ وہ جانے اور دین جانے۔ دوسرا کام جو عوام کے کرنے کا ہے وہ ہے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اس کے خلاف سوشل میڈیا پر موثر آواز اٹھائی جائے اور اس کا ہیش ٹیگ بنا کر اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ پوسٹنگ کرکے ایوان میں بیٹھے عوامی نمائندگان کو اس طرف متوجہ کیا جائے۔ اس وقت یہ ہیش ٹیگ سوشل میڈیا اسی کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ داری (#IslamIsProtection) پر بہت استعمال کیا گیا ہے۔ اسی کو اگر سب استعمال کریں تو ایک اچھی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ میڈیا پر بھی بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ایشو کو ہائی لائٹ کرے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا اتنا ہوّا بنا دیتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔ ایک چائے والے کے پیچھے سارا میڈیا پہنچ جاتا ہے لیکن اسلام کی تعلیمات کے خلاف بلکہ اسلام کے خلاف کچھ ہو تو اہمیت نہیں دی جاتی، نہ اسے اپنے ٹاک شوز کا حصہ بناتے ہیں، نہ ہم اس پر علماء سے رائے لیتے ہیں؟ کیا ہمارے لئے اللہ، رسول، قرآن، سنّت اور اسلام کی حیثیت اتنی بھی نہیں کہ ہم اپنی سی کوشش کرکے اس بارے میں اپنی ذمہ داری نبھائیں۔
وفاقی شرعی عدالت کو قانون کی رُو سے اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسے بل کے خلاف از خود نوٹس لے جو ملک میں قرآن و سنت کے خلاف پاس کیا گیا ہو۔ وفاقی شرعی عدالت کے ججز صاحبان کا کردار بھی اس میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ قوم انہی کی طرف دیکھ رہی ہے۔ وکلاء، ججز اور عدلیہ سے وابستگی رکھنے والے مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عدالت میں اس کے خلاف آواز اٹھائیں اور اس کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ مستقبل میں بھی ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو۔ اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سفارشات پیش کرے اور مساجد کے امام صاحبان اس کے حوالے سے قوم کو آگاہی دیں اور انہیں اس کے خلاف موثر انداز میں احتجاج پر آمادہ کریں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی ایڈوائس پر گورنر سندھ نے مذہب کی جبری تبدیلی کا بل واپس کردیا ہے۔ گورنر صاحب سابق چیف جسٹس آف پاکستان رہے ہیں پوری عمر قانون کی پاسداری اور نفاذ میں گزری ہے اور وہ یقیناً اس قانون کی موشگافیوں اور اس کے اثرات کا ادراک رکھتے ہیں۔ ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ اس قانون کے نکات قرآن اور احادیث کے خلاف اور متنازع ہیں۔
ہمیں اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے دو احکامات کو ہمیشہ مدّنظر رکھنا چاہئے (1)دین اسلام میں زبردستی نہیں ہے۔ یہ ہدایت صاف طور پر ظاہر اور گمراہی سے الگ ہوچکی ہے (سورۃ البقرہ، آیت256) (2)اے پیغمبر لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستہ (یعنی دین اسلام) کی طرف بلائو۔ اور بہت اچھے طریقے سے ان سے مناظرہ کرو جو اس کے رستے سے بھٹک گیا۔ تمھارا پروردگار اسے خوب جانتا ہے اور جو (صحیح) رستہ پر چلنے والے ہیں اس سے بھی خوب واقف ہے (سورۃ النحل، آیت125) (مکمل)
(نوٹ)6 جنوری کو ملک کے مایہ ناز مذہبی اسکالر و جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب قاضی حسین احمد صاحب کی برسی تھی۔ وہ میرے بہت پیارے دوست تھے، میں نے ان کے ساتھ خیبر پختونخوامیں کئی تقاریب میں شرکت کی تھی۔ وہ آخر وقت تک اکثر میرے پاس تشریف لاتے تھے اور ہم مذہب اور سیاست پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ اللہ رب العزت جنت الفردوس میں ان کو اعلیٰ مقام عطا کرے۔ ان کیلئے دعائے مغفرت کیجئے گا۔
چند دن پیشتر ہماری کرکٹ ٹیم کے سابق وکٹ کیپر اور نہایت اعلیٰ بیٹسمین جناب امتیاز احمد کا انتقال ہوگیا۔ بہت اعلیٰ کردار کے مالک تھے اور اعلیٰ اسٹروک لگاتے تھے۔ اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے (آمین)۔ براہ مہربانی ان کی مغفرت کے لئے دُعائے خیر کیجئے گا۔

.
تازہ ترین