• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
باجوڑ، مہمند، جنوبی وزیرستان اور قرب و جوار کے دیگر شہری علاقوں میں جاری فاٹا آپریشنز، جن کی میں نے بہت زیادہ کوریج کی، کے عروج کے زمانے میں جب میں سینئر فوجی افسران سے بات کرتا تو میرے دلائل کا محور یہ ہوتا تھا کہ اس کا اختتام کب ہو گا۔ متعدد بریفنگز اور فیلڈ رپورٹنگ کے دوران کی گئی بات چیت میں اس کا جواب اگرچہ پورے اعتماد سے دیا جاتا لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان جوابات سے میری صحافتی توقعات کی تشنگی دور نہ ہوتی۔
ان جوابات کا فوکس ہونے والی اہم پیش رفت پر ہوتا، جیسا کہ انتہا پسندوں کا مضبوط نیٹ ورک اور ان کے کمانڈ اور کنٹرول ڈھانچے کو توڑنا، دہشت گرد کمانڈروں کو ہلاک کرنا اور برسہا برس سے اُن کے قبضے میں آ جانے والے علاقے کو واگزار کرانا۔ تاہم وہ جوابات نصف روشنی دکھاتے۔ میں چاہتا تھا کہ بتایا جائے کہ ’فاٹا کے رہائشی دوبارہ معمول کی زندگی کی طرف کب لوٹیں گے؟‘ جنرل طارق خان، ایک شاندار کمانڈر، جو اُس وقت انسپکٹر جنرل ایف سی، خیبر پختونخوا تھے اور جو آج کل ایک بار پھر بلاجواز خبروں کی زد میں ہیں، بطورِخاص بہت کھل کر اپنا موقف پیش کرتے تھے کہ واگزار کرائے جانے والے علاقوں اور امن کے فوائد یہاں کے پریشان حال عوام تک منتقل کئے جائیں، نیز ریاست ان ایجنسیوں کا نظم و نسق سنبھالے۔ وہ دہشت گرد کمانڈروں، جیسا کہ فضل اﷲ کے بارے میں کئے گئے سوالات کو نظر انداز کر دیتے۔ اُن کا موقف تھا کہ وہ دہشت گرد اب در بدر ہیں، چنانچہ وہ غیر اہم ہو چکے ہیں۔
گزرتے ہوئے ماہ و سال نے ان جوابات کو درست ثابت کر دیا۔ اب ہم بہتر انداز میں سمجھنے کی پوزیشن میں ہیں کہ دہشت گردی کی نوعیت اتنی متحرک اور اس کی شکل اتنی تبدیل ہو چکی ہے کہ ان کے خلاف حاصل کی گئی تمام کامیابیاں باہم مربوط کڑیوں کی صورت رہیں گی۔ ہم اس افسوس ناک حقیقت کو بھی پا چکے کہ کامیابی مرحلہ وار، ناکہ بیک وقت، ہاتھ آئے گی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کامیابی کو برقرار رکھنے کی متواتر قیمت چکانی پڑے گی۔ تاہم مکمل اختتام کی غیر موجودگی میں سر اٹھانے والے مسائل بھی غیر اہم نہیں۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ فضل ﷲ نے پاکستان کا کتنا نقصان کیا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس علاقے، فرض کریں خیبر ایجنسی میں جو کمانڈر بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، اُن کی وجہ سے برسہا برس تک قوم کا قیمتی خون بہا تھا۔ چنانچہ ہر وہ سرگرمی، جس کی وجہ سے قوم کو جان و مال کی قربانی دینی پڑے اور جس کا طویل المدتی استحکام پر گہرا اثر ہو، اُسے ادھورا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس باب کو بند کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اگرچہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ ایک غیر معمولی صورتحال قرار دی جا سکتی ہے، لیکن پھر بھی انتہائی پیچیدہ فوجی آپریشنز کو بھی مرکزی اہداف کے حصول کے بعد ختم کرنا پڑتا ہے۔ جب معاملات میں اہداف واضح نہیں ہوتے، لیکن اُن سے نمٹنے میں وقت اور وسائل کا زیاں ہو رہا ہو تو انہیں حتمی شکل دینا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ پاناما کیس کی وجہ سے پڑنے والا دبائو ایک طرف، وزیر اعظم کے پاس ان معاملات کو حتمی شکل دینے کیلئے کافی وقت اور وسائل موجود ہیں۔ اب جبکہ جنرل باجوہ جی ایچ کیو میں اپنا آفس سنبھال چکے، ان کی مرضی کے افسران کی ٹیم بھی معاونت کو موجود، تو وزیرِاعظم کی توجہ کا خاطر خواہ اور بامقصد نتیجہ برآمد ہونا چاہئے۔ جن معاملات کو حتمی شکل دینا انتہائی اہم، اُن میں سرفہرست کراچی اور ایم کیو ایم کی سیاست ہے۔ وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ آخر اس شہر کو کس نہج تک پہنچانا چاہتے ہیں؟ کیا الطاف حسین کی ایم کیو ایم ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور فاروق ستار اور ان کے ساتھی اس کا محض ایک فرنٹ ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اُنہیں سیاسی اکھاڑے سے نکال دیں اور ان کے جرائم کا ثبوت پیش کرکے سزائیں سنا دیں۔ لیکن ایم کیو ایم کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کے معاملے کو (دونوں دھڑوں کے لئے) لٹکائے رکھنا کراچی کو تنائو کا شکار بنائے رکھے گا۔ اگر حال ماضی کے آسیب سے آزاد نہ ہو تو مستقبل مشکوک اور مبہم ہی نہیں تاریک بھی ہو جاتا ہے۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل رضوان کی کئی برس تک ’’دبائو ڈال کر توڑنے کی حکمتِ عملی‘‘ تھکاوٹ کا شکار ہو گئی کیونکہ پاک سر زمین پارٹی ایک پیراسائٹ بن کر چمٹ گئی لیکن چونکہ گزشتہ ہائی کمان حقیقت کو تسلیم کرنے کی صلاحیت سے تہی داماں تھی، چنانچہ ہر کوئی یہی راگ آلاپتا رہا کہ سیاسی حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ اب ہمارے سامنے ایک ایسی الجھی ہوئی صورتحال ہے جس کا کوئی دوٹوک حل ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ایک وقت تھا جب کراچی کی صفائی ضرور ی تھی، لیکن اب معاملے کو کسی اختتام تک پہنچانا بہتر، اس اونٹ کو کسی بھی کروٹ لازمی بٹھایا جائے۔اس کے بعد سیاسی مسائل کا شکار بلوچستان ہے۔ یہ صوبہ بے سمت، کیونکہ اس کا کوئی لیڈر نہیں۔ لیڈر نہ ہونے کی وجہ یہ کہ راولپنڈی اور اسلام آباد نے اس کے معاملات دور بیٹھ کر چلانے کی کوشش کی۔ اس کیلئے تزویراتی خدوخال، عقربی تھیوریز اور علاقائی اور عالمی سیاست میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ دوسری طرف ’’ناراض بلوچوں‘‘ سے مذاکرات، جس کا بہت چرچا کیا گیا، کا عمل تعطل کا شکار رہا۔ جمہوری حکومت کی طلسمی مسیحائی نام نہاد علیحدگی پسندوں پر بھارتی حمایت کے جادو کے سامنے ناکام دکھائی دی۔ اس کی غیر فعال صوبائی حکومت اسٹیبلشمنٹ، جس کے اراکان صوبے کے معاملات پر خود کو آئن سٹائن سے کم نہیں سمجھتے، کا فرنٹ ہے۔ جب ان سے اس کے مبہم سیاسی معروضات کے پسِ منظر میں کوئی قابلِ عمل حل پیش کرنے کا کہا جائے تو کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔ وفاقی حکومت کیلئے بلوچستان مرکزی بہائو سے دور ایک ایسا جزیرہ ہے جس کی افادیت صرف پاک چین معاشی راہداری تک ہی محدود ہے۔
یہ ایک پریشان کن صورتِ حال ہے۔ افغانستان کی سرحد سے ملحق اور سیاسی طور پر گھائل اس صوبے، جو طویل عرصے سے مظلومیت کا شکار ہے اور جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی کاخطرہ بڑھتا جا رہا ہے، کو کسی طور نظر انداز کرنا مہلک غلطی ہو گی۔ تو بلوچستان کی ترقی، معاشی مواقع کی فراہمی، غیر ریاستی انتہاپسندوں کو کچلنے اور صحت مندانہ سیاسی سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے ہم فوری طور پر کون سا قومی منصوبہ رکھتے ہیں؟ ہم آج سے، فرض کریں، دس سال بعد کیسا بلوچستان دیکھتے ہیں؟
جب ایک عام بلوچ شہری اپنے ہی صوبے میں اپنے سرداروں (جو آج کل بیرونی ممالک میں بیٹھے ہیں) اور دیگر گروہوں کی آبادی کی حرکیات کی وجہ سے اقلیت میں تبدیل کر کے دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے تو پھر ہم وہاں کون سے متحرک سیاسی معروضات کو پروان چڑھتا دیکھتے ہیں؟ اس کا دقیانوسی سیاسی ڈھانچہ اہم تبدیلیوں کا سامنا کس طرح کرتا ہے؟ بلوچ نوجوان کیلئے ہمارے پاس کیا منصوبے ہیں؟ یہ سوال جوابات کے متقاضی ہیں۔ اس کی شروعات کیلئے ماضی کی فائلیں بند کرنا ہوں گی۔ اگر انتہا پسندوں یا علیحدگی پسندوں کا مسئلہ سختی سے حل نہیں ہوسکا تو پھر اسے سچ مان کر مفاہمتی کمیشن بنائیں اور زندگی کو آگے بڑھنے کا موقع دیں۔ جو بھی ہو، اب اسے جاں گسل بے چینی کا شکار نہیں رہنا چاہئے۔
اسی طرح فاٹا کے بارے میں بھی فوری فیصلہ کرنا ہوگا۔ گزشتہ تین برسوں سے وہاں قابلِ قدر کام ہوا ہے۔ ’’فاٹا ریفارمز رپورٹ‘‘ اپنے نقائص کے باوجود ایک اچھی پیش رفت ہے۔ ایک ماہ پہلے ایسا لگتا تھا کہ شاید معجزہ رونما ہونے لگا ہے اور شریف حکومت اس کا نفاذ کرنے جارہی ہے، لیکن پھر مولانا فضل الرحمٰن نے حسب عادت اس میں رکاوٹ ڈالی اور شریف حکومت مولانا کے دبائو میں ا ٓگئی۔ اب دوبارہ اس سفر کا آغاز کرنا پڑے گا۔ فاٹا کی قسمت کو احمقانہ سیاسی حالات اور گھٹیا ذاتی مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔ اگر فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنا ہے اور پھر یہ قدم نہایت سنجیدگی اور سوجھ بوجھ سے اٹھائیں اور اسے فوری طور پر حتمی شکل دیں۔ معاملے کو بیچ میں لٹکانا خطرناک ہوگا۔ اس فیصلے کے ساتھ ساتھ فاٹا میں ایک اور سطح پر بھی جائزہ لینا ہوگا۔ وہاں سے بے گھر ہونے والے افراد کی اپنے گھروں کو واپسی اور باعزت زندگی کا آغاز ضروری ہے۔ جس دوران قوم ضربِ عضب کے افسران کا شکریہ ادا کرنے میں مصروف تھی، اس کی تمازت کسی اور نے برداشت کی۔ قوم کی عقیدت سے لبریز آنکھ اسے دیکھنے سے قاصر تھی۔ شمالی وزیرستان کو اہم تعمیراتی سرگرمی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح خیبر، اورکزئی اور باجوڑ کے کچھ حصوں میں بھی عملی اقدامات درکار ہیں۔ کچھ دیگر معاملات بھی دوٹوک فیصلوں کے متقاضی ہیں کہ اُنہیں بھی حتمی شکل دی جائے۔ ذرا چشم تخیل سے سیاسی طور پر مستحکم کراچی، سیاسی استحکام کی طرف بڑھتا ہوا بلوچستان اور فاٹا کیلئے لگائے گئے نعروں کو عملی شکل اختیار کرتا دیکھیں۔ ان تینوں کے تصور کے بعد پاکستان کا تصور کریں اور سوچیں کہ ایک ملک کے مختلف حصوں سے رستے ہوئے خون کو بند کرنا اور زخم کو بھرنا کتنا ضروری ہے۔

.
تازہ ترین