• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوری دنیا کی طرح ہم نے بھی نئے سال 2017کا بھرپور استقبال کیا ہے۔ بقول فیض لدھیانوی ’’اے نئے سال بتا، تجھ میں نیا پن کیا ہے‘‘۔ اس حوالے سے فیض نے ’’لکھی ہے نظم نرالے ڈھنگ کی‘‘۔ دنیا میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں لوگوں کے حالات بدلتے ہی نہیں ہیں۔ شاید اسی وجہ سے فیض نئے سال میں کچھ نیا نہیں دیکھتے۔ انہیں وہی راتیں اور وہی دن نظر آتے ہیں۔ بقول فیض ’’آسمان بدلا ہے افسوس نا بدلی ہے زمیں، ایک ہندسے کا بدلنا2016 بھی گزشتہ سالوں کی طرح غیر یقینی میں گزر گیا۔ سیاست میں زبردست ہلچل رہی۔ لوگ ایک دوسرے سے سوالات کرتے رہے کہ اب کیا ہو گا۔ ہماری قومی معیشت کے اشاریئے (انڈی کیٹرز) زیادہ اچھے نہیں رہے۔ بے روزگاری، افراط زر اور غربت میں اضافہ ہوا۔ معاشی حوالے سے کوئی خاطر خواہ کامیابیاں نہیں ملیں۔ سیاسی طور پر ہم استحکام کی طرف نہیں گئے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ادارے مضبوط نہیں ہوئے۔ جمہوری نظام کے لئے پہلے کی طرح خطرات موجود رہے اور سویلین حکومت نے اپنی کارکردگی اور گورننس کو بہتر نہیں بنایا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگرچہ خاطرخواہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن 2016 میں بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما ہوئے اور ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ 2016بھی پاکستان کی تاریخ کے گزشتہ سالوں کا تسلسل تھا اور اس کے ختم ہونے تک کوئی نیا پن نہیں آیا۔ نئے سال 2017 میں کچھ نیا پیدا کرنا ہے تو بقول فیض ’’تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی۔ ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں سال کئی‘‘۔ 2017 ہماری تاریخ کا ایک ایسا سال ہے، جس میں ہم بحیثیت قوم بہت کچھ نیا کر سکتے ہیں۔ آئندہ عام انتخابات اسی سال یا اگلے سال ہو سکتے ہیں لیکن انتخابات کے لئے سیاسی سرگرمیاں اسی سال ہی شروع ہو جائیں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی وجہ سے پاکستان نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا کا اہم ملک بن گیا ہے۔ علاقائی اور عالمی سیاست تبدیل ہو رہی ہے اور نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ 2017 پاکستان کے لئے بے شمار امکانات کا سال ہے۔ ہمیں اس نئے سال کا آغاز بڑے اہداف سے کرنا ہو گا۔ عالمی ایجنڈے میں ہمیں اپنا حصہ چاہئے ہو گا اور اس کے لئے داخلی سطح پر بھی ہمیں ایک ایسا ایجنڈا بنانا ہو گا، جو گزشتہ سالوں سے مختلف ہو۔
ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے پاکستان کے لئےبہت سے مسائل ہیں اور پاکستان کے دشمن بھی بہت ہیں لیکن بہت سارے امکانات بھی ہیں۔ پاکستان کو کوئی ختم نہیں کرنا چاہتا۔ ہمارا سب سے بڑا حریف ہمسایہ ملک بھارت بھی یہی چاہے گا کہ پاکستان قائم رہے۔ اگرچہ وہ پاکستان کی راہ میں رکاوٹیں اور مسائل پیدا کرتا رہے گا اور اس کی یہ کوشش ہو گی کہ پاکستان معاشی اور سیاسی طاقت نہ بنے لیکن بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان کی 20کروڑ سے زیادہ کی آبادی ہے اور اس کی یکجہتی کو اگر نقصان پہنچا تو سب سے زیادہ مسائل بھارت کے لئے ہی ہوں گے۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات اور نئی صف بندیوں میں پاکستان کو اپنی بڑھتی ہوئی اہمیت کی بنیاد پر اپنا مقام حاصل کرنا ہو گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کو بھی یہ احساس ہے کہ2017پاکستان کا سال ہے اور پاکستان کے لئے تاریخ نے بڑے امکانات پیدا کر دیئے ہیں۔ بھارت ہماری کھل کر مخالفت کرے گا۔ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ناقابل یقین آدمی ہیں۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی پالیسیوں کے ہمارے خطے خصوصاً پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر ہم اپنی پالیسیاں بنائیں تو 2017 واقعی ہمارے لئے بہت اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم داخلی سطح پر اپنا ایک نیا ایجنڈا بنائیں۔ اس ایجنڈے میں تین چیزوں کو بنیاد بنانا چاہئے۔ سیاست کی سمت کو درست کرنا چاہئے۔ تعلیم پر توجہ دینی چاہئے اور کڑے احتساب کا نظام قائم کرنا چاہئے۔ اس کے بعد ہی ہم عالمی ایجنڈے میں ایک بڑے اسٹیک ہولڈر بن سکیں گے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا سیاسی کلچر تبدیل کرنا ہو گا۔ سیاست سے کرپشن اور اقربا پروری کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اس وقت پوری دنیا میں نظریات کی نہیں بلکہ جمہوری سیاست ہو رہی ہے اور جمہوریت صرف اور صرف بہتر کارکردگی اور سیاسی اداروں کی مضبوطی سے چل سکتی ہے۔ سیاست میں اچھے لوگوں کو آگے لانا ہو گا۔ اس وقت پاکستان کی سیاست میں دو رہنماؤں کا کردار بہت اہم ہے۔ ان میں ایک آصف علی زرداری ہیں اور دوسرے عمران خان ہیں۔ آصف علی زرداری نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت کے محافظ ہیں بلکہ وہ خود بہت بڑے مدبر سیاست دان ہیں۔ ان سے کچھ لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کا پاکستان کے بارے میں وژن بہت حقیقت پسندانہ ہے اور وہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح وسیع تر تناظر میں معاملات کو دیکھتے ہیں۔ عمران خان کو پاکستان کے نوجوانوں کی حمایت حاصل ہے اور انہوں نے روایتی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آصف علی زرداری اور عمران خان کوئی سیاسی یا انتخابی اتحاد بنالیں لیکن اگر وہ کم سے کم نکات پر اتفاق کرکے کوئی مشترکہ ایجنڈا بنالیں تو پاکستان کی سیاست میں وہ تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں، جو اس وقت پاکستان کے لئے ضروری ہیں، جب پاکستان کو دنیا میں بڑا مقام حاصل کرنے کے لئے تاریخ نے ایک شاندار موقع فراہم کیا ہے۔ اگر یہ دونوں لیڈر آپس میں لڑتے رہے اور کسی پروگرام پر متفق نہ ہو سکے تو یہ بات واضح ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں بھی نواز شریف کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔
سیاسی کلچر میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے ایک انقلابی پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ پاکستان ترقی کے اس تاریخی موقع کو ایک پائیدار ترقی میں اس وقت تک تبدیل نہیں کر سکتا، جب تک ہمارے نوجوان جدید تعلیم سے آراستہ نہیں ہوں گے۔ یہ بہت بڑا پروگرام ہے اور اس پر پاکستان کو اپنے سب سے زیادہ وسائل خرچ کرنے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کڑے احتساب کا نظام نافذ کرنے کی بھی فوری ضرورت ہے۔ اس کے بغیر کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو گا اور کرپشن کا خاتمہ کئے بغیر ترقی یافتہ معیشت کی تشکیل ناممکن ہے۔ ایک اور بات پر بھی فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کراچی نہ صرف پاکستان کا بہت بڑا شہر ہے بلکہ تمام عالمی اور علاقائی طاقتیں اس شہر کی طرف دیکھتی ہیں اور اس شہر کی وجہ سے پاکستان کی سیاست اور معیشت کی راہیں متعین ہوتی ہیں۔ پاکستان کے دیگر شہر بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن کراچی پر پاکستان کا بہت بڑا انحصار ہے۔ آئندہ عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت بنائے گی لیکن اسے کراچی پر بہت زیادہ توجہ دینا ہو گی۔ اس شہر میں اب سیاسی خلا پیدا ہو چکا ہے۔ اس خلا کو ایم کیو ایم کا کوئی دھڑا، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی یا مسلم لیگ (ن) بھی پر کر سکتی ہے۔ اس شہر کی بڑی آبادی، بڑی معیشت اور عالمی طاقتوں کی نظر میں اس شہر کی بڑی اہمیت کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اس شہر کے لئے خصوصی حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی پیپلز پارٹی کی قیادت خصوصاً آصف علی زرداری کو پاکستان کے بارے میں اپنے وژن کے مطابق کراچی پر خصوصی توجہ دینا چاہئے۔ 2017ءمیں اگر ہم مذکورہ بالا ایجنڈا مرتب کر لیں تو اس سال بہت کچھ نیا ہو سکتا ہے۔

.
تازہ ترین