• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(آخری قسط)
زاہد پرویز بٹ کی کہانی کا ایک حصہ آپ کو سنا چکا ہوں، مگر اللہ پر توکل کرنے والے اس شخص کی کہانی اتنی لذیذ ہے کہ آپ کوکئی ہفتوںتک سنا سکتا ہوں۔ بٹ صاحب کو اپنی ایک کزن سے محبت ہوگئی اور انہوں نے اللہ کے آگے گڑ گڑا کر اسے پانے کی دعا مانگی جو قبول ہوگئی ا ور بٹ صاحب کی اس سے شادی ہوگئی۔ بٹ صاحب بتاتے ہیں کہ اللہ کے کرموں سے انہوں نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی۔ وہ اپنی زندگی میں بار بار عروج و زوال سے گزرے، کبھی بہت امیر اور کبھی بہت غریب، آٹھ دفعہ تو بالکل زیرو ہوگئے مگر اللہ کے کرم سے آس لگائی رکھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ1975ءمیں بسلسلہ کاروبار جاپان گئے جس سے رحمتوں کے دروازے پوری طرح کھل گئے مگر 1980ءمیں وہ ایک دفعہ پھر زیرو ہوگئے ،چنانچہ واپس پاکستان جانے کا پروگرام بنایا۔ دل بہت ادا س تھا اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔ جاپان کے جس فلیٹ میں وہ رہ رہے تھے اس میں دھرا بے کار سا سامان انہوں نے وہیں پھینکنے کا ارادہ کیا، مگر پھر اچانک خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سنتے ہیں اور مدد فرماتے ہیں چنانچہ انہوں نے شام ڈھلے ہی کمرہ بند کیا اور ساری رات عبادت کرتے رہے حتیٰ کہ فجر کا ٹائم ہوگیا، رو رو کر ان کی آنکھیں سوج گئی تھیں کہ انہیں اچانک ایک ندا سنائی دی’’اے میرے بندے کیا چاہتا ہے؟‘‘ جس پر وہ گھبرا گئے اپنے بازو پر دانت جما دئیے کہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا مگر اس دوران پھر وہی آواز سنائی دی اور بقول بٹ صاحب’’ میں پسینے سے شرابور ہوگیا، سوچا کہ کوئی جن آگیا ہے، میں ڈر کر کمبل اوڑھ کر سوگیا‘‘۔
اس ندا کے اگلے دن ان کے لئے کرموں والے دن شروع ہوگئے۔ سوکر اٹھے تو بخار سے بدن جل رہا تھا۔ انہوں نے قہوہ بنایا اتنے میں ڈاکیہ ایک خط پھینک گیا، خط کھولا تو یہ ایک کاروباری دوست جعفر خان کا تھا جس کے وہ پچاس ہزار کے قرضدار تھے ، بڑا سخت خط تھا۔ آخر میں اس نے ایک گاہک کا کارڈ بھجوایا تھا کہ اس کو ملو، اچھا گاہک ہے اس کا نامHirumaتھا۔ بٹ صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے اسے فون کیا اور بتایا کہ میرے پاس نوادرات ہیں، اس نے مجھے ریلوے اسٹیشن آنے کو کہا اور میں چل دیا۔ میرے پاس صرف دو ہزار جاپانی ین تھے، سوچا اگر بات نہ بنی تو کسی سے ادھار پکڑ کر واپس پاکستان چلا جائوں گا۔ دریں اثناء میں اسٹیشن پہنچ گیا جہاں ایک کمزور جسم کا جاپانی میرا منتظر تھا وہ مجھے ایک ریستوران لے گیا اور اس ظالم نے یہ جانے بغیر کہ میری جیب خالی ہے بہت مہنگے آرڈر دینا شروع کردئیے۔ میرا جسم پسینے میں نہانا شروع ہوگیا، جب کھانا ختم ہوا تو میں واش روم کا بہانا بنا کر اٹھ کھڑا ہوا تاکہ بل میری موجودگی میں نہ آئے، جب واپس آیا تو دیکھا کہ بل پڑا تھا اور اس نے ادا نہیں کیا تھا۔ میرا چہرہ زرد ہوگیا، میں نے لرزتے ہاتھوں سے بل پکڑا مگر اس نے مجھے روک دیا اور بل ادا کرکے وہاں سے اٹھنے کو کہا اور ظاہر ہے اس پر بٹ صاحب نے اللہ جانے دل میں کتنی بار اپنے رب کا شکر ادا کیا ہوگا۔وہ جاپانی، بٹ صاحب کو اپنے گھر لے گیا، بٹ صاحب نے اپنا سامان جو اسے دکھایا ، سچی بات ہے کہ وہ کسی قابل نہ تھا، تاہم اس نے قیمت پوچھی تو بٹ صاحب کا کہنا ہے کہ وہ آٹھ ہزار ڈالر کہنا چاہتے تھے لیکن زبان کی پھسلن سے ان کے منہ سے اسی ہزار ڈالر نکل گیا، جس پر بٹ صاحب بہت پریشان ہوئے، بہرحال اس نے کہا سامان گاڑی میں ڈالو میں نے کسی کو دکھانا ہے۔ وہ بٹ صاحب کو اپنے ایک پروفیسر دوست کے پاس لے گیا جو بہت موٹا تھا۔ وہ مال دیکھ کر جھوم اٹھا ا ور اس کی بہت تعریف کی اور اس وقت میری آنکھوں کو یقین نہیں آرہا تھا جب اسی ہزار ڈالر میرے سامنے دھرے تھے۔ اس دن کے بعد بٹ صاحب نے عروج ہی عروج دیکھا، زوال کا کوئی لمحہ نہیں آیا۔ اب وہ صرف قرآن مجید اور حضور نبی کریمؐ کے حوالے سے نوادرات کی تلاش میں رہتے ہیں یا کشمیری ثقافت کے نادر نمونے جمع کررہے ہیں اور یہ سب کام کاروبار سے ا لگ ہیں۔انہوں نے اپنے گھر میں ’’محمدؐ گیلری‘‘ بنائی ہے جس میں وہ وضو کرکے داخل ہوتے ہیں اور اب ان کی خواہش ہے کہ حکومت ان کے والد اسلم بٹ کے نام پر ایک میوزیم بنائے جس میں وہ اربوں روپے مالیت کے نوادرات تحفتاً دیں گے۔ بٹ صاحب نے اپنی زندگی میں اپنا بہت خوبصورت مقبرہ بھی بنالیا ہے۔وہ کاروباری دنیا سے ہٹ چکے ہیں، لوگوں سے بہت کم ملتے ہیں اور اپنے رب کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک نہایت دلچسپ بات! بٹ صاحب نے ایک ہی خاتون سے دو مرتبہ شادی کی، پہلی شادی غربت کے زمانے میں ہوئی تھی چنانچہ سب حسرتیں دل ہی میں رہ گئیں۔ دوسری’’شادی‘‘ انہوں نے اسی خاتون سے25سال بعد دوبارہ کی جب وہ بہت امیر ہوگئے۔ پوری سج دھج سے بینڈ باجے کے ساتھ موصوف گھوڑے پر بیٹھے، ان کی بیوی دوبارہ دلہن بنی، اس کو چاندی میں تولا اور اس کے برابر رقم اس کے پائوں میں رکھ دی۔ بٹ صاحب بہت زندہ دل انسان ہیں کہہ رہے تھے کہ اب اپنی بیوی سے تیسری بار شادی کی خواہش ہے، پچاس سال بعد بھی چاندی میں تولنا اچھا نہیں لگے گا، اب سونے میں تولنا ہوگا ، مگر پرابلم یہ ہے کہ اب اس کا وزن زیادہ ہوگیا ہے۔

.
تازہ ترین