• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے گزشتہ کالم ’’عوام سہانے خواب دیکھنا چھوڑ دیں‘‘ کے حوالے سے جو فیڈ بیک ملا ہے، آج کے کالم کا آغاز اسی سے کرنا چاہتا ہوں۔ عوامی نمائندے اور عوام یہ تصدیق کر رہے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کے حوالے سے معروضی حالات تو یہی ہیں کہ عوام کی کبھی شنوائی نہیں ہوگی، لیکن سال 2016کے اختتام سے ایک روز پہلے شائع ہونے والی اس خبر نے پھر ایک امید لگا دی کہ دنیا میں مارکیٹس اور کاروباری رحجانا ت پرتحقیق کرنیوالے میڈیا ادارے ’’بلوم برگ‘‘ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان سال 2016میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اسٹاک ایکسچینجز میں پانچویں نمبر پر آگیا ہے، اس کی اسٹاک مارکیٹ میں 46فیصد اضافہ ہوا ہے....لیکن جب معروضی حالات کو دیکھا جائے تو مہنگائی اُسی طرح بڑھ رہی ہے، اُسی روز اسٹیٹ بنک کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت بڑھ کر 9.3فیصد ہو گئی ہے اور مالیاتی جاری کھاتوں کے خسارے میں اضافہ ہوا ہے....ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی بہتری کے ثمرات عوام تک کیوں منتقل نہیں ہوتے، عوام کو اپنے بچوں کے لئے خالص دودھ کیوں نہیں مل سکتا، وہ اسپتالوں کی دہلیز پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر کیوں مر جاتے ہیں، اُن کی بیٹیوں سے زیادتی کرنے والے کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچتے، اچھے تعلیمی اداروں میں اُن کے بچے کیوں نہیں پڑھ سکتے، انہیں تعلیم حاصل کرنے کے ایک جیسے مواقع کیوں مہیا نہیں ہوسکتے، اُن کی بہو بیٹیوں کو تھانوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو حکمران کہاں ہوتے ہیں....پھر میں نئے سال کے پہلے دن کی رپورٹ پڑھتا ہوں کہ سال 2016میں بھی حکومتی اخراجات اور شاہ خرچیوں سے قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ اب ہر پاکستانی اوسطاً ایک لاکھ 15ہزار 911روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ پاکستان کے قرضوں اور واجبات میں سال 2016کے دوران 26کھرب 90ارب کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ اسٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے واحب الادا قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم 233کھرب 89ارب 60کروڑ روپے ہو گیا۔ ان میں بیرونی قرضے اور واجبات 78کھرب 14ارب 20کروڑ روپے اور اندورنی قرضے 140کھرب 89ارب روپے کی سطح تک پہنچ گئے۔ بات یہاںہی ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وفاقی حکومت نے نئے سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران مزید 27ارب روپے کے قرض لینے کا شیڈول بنایا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے اس سہ ماہی کے دوران مجموعی طور پر 26کھرب 83ارب 58کروڑ 70لاکھ روپے کے اندرونی قرضے واپس کرنے ہیں۔ دوسری طرف بجلی کا گردشی قرض 660ارب روپے سے بڑھ گیا ہے۔ پاور پلانٹس اور آئل کمپنیوں کو ادائیگیاں نہیں ہو رہیں، یہ کمپنیاں مالی بحران کا شکار ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے ملک کو بجلی کی پیداوار میں 6ہزار میگا واٹ کی کمی کا سامنا ہے اور ملک میں پھر 18سے 20گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے عوام کو بھگتنا ہوگا۔
حکمرانوں کے یہ صرف دعوے ہیں کہ وہ تو یہ سب قرض عوام کی بھلائی کے منصوبوں پر خرچ کرنے کیلئے لیتے ہیں۔ اگر یہ قرض نہ لیں تو اورنج ٹرین منصوبہ کیسے مکمل ہو، ملک سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کیسے ختم کی جائے، مہنگائی کے جن کو کیسے قابو میں کریں۔ حکمرانوں، پارلیمنٹرین کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ دراصل عوام کے صحیح، سچے اور پکے نمائندے ہیں، اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام ہی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اب اگر سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس ایک دن کیلئے اسپیکر نے رکھا ہے تو رولز کے مطابق انہیں الائونسز تو سات دن کے ہی ملنے ہیں اور ایک دن سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس اکٹھا ہو جائے تو اس پر صرف الائونسز کی مد میں دو کروڑ روپے خرچ آتا ہے، اسی طرح اگر قائمہ کمیٹی کا ایک دن اجلاس ہوتا ہے تو تب بھی 7دن کے الائونسز ملتے ہیں اور اُن کے یہ الائونس اور سفری خرچ آبائی گھروں سے شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر اگلا اجلاس سات دن کے وقفے کے بعد ہوتا ہے کیونکہ اگر یہ اجلاس 6دن کے وقفے کے بعد شروع ہو تو رولز کے مطابق نئے الائونسز نہیں مل سکتے۔ یہ نمائندے تو رولز پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہیں...یہ بیچارے ممبران اسمبلی بھاری تنخواہیں، ڈرائیور، اسٹاف، دیگر مراعات اور میڈیکل الائونسز علیحدہ لیتے ہیں، اگر عوام یہ سمجھتے ہیں کہ غریب قوم کے نمائندوں کے اللّے تللوں اور عیاشی کی وجہ سے کھربوں روپے کے قرضے بڑھ گئے ہیں اور ہر پاکستانی تقریباً سوا لاکھ کا مقروض ہے تو یہ محض سیاسی بیان ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ جب وزیراعظم کا وکیل سپریم کورٹ میں یہ کہہ سکتا ہے کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں پاناما لیکس کے حوالے سے جو تقریر کی تھی وہ محض سیاسی بیان تھا تو اس کے بعد سیاسی بیان کی پہچان کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی عوام کو اس بات پر شک ہونا چاہئے کہ یہ کھربوں کے قرضے اُن کے لئے حاصل نہیں کیے گئے، خواہ سوشل پروگریس انڈیکس سال 2016کی رپورٹ میں یہ بتاتا رہے کہ پاکستان سماجی ترقی میں بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال سے بھی پیچھے رہ گیا ہے اور 133ممالک کی فہرست میں 113ویں نمبر پر ہے۔
’قوم کی بیٹی کی رہائی بھی‘ سیاسی بیان تھا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ نے فون کیا اور تفصیلی خط بھی لکھا ہے کہ 6دسمبر 2016کو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ’’قید ناحق کو 5000دن‘‘ مکمل ہو چکے ہیں۔ اس طویل مدت کے دوران قدرت نے کئی مرتبہ ایسے مواقع عطا کیے تھے کہ عافیہ کو بآسانی وطن واپس لایا جا سکتا تھا۔ ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے کئی مجرم امریکی شہری واپس کیے لیکن اپنی ایک بیگناہ بیٹی کو واپس نہیں لا سکے۔قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کا اپنے تین معصوم بچوں سمیت اغوا، پانچ سال تک افغانستان بگرام کے خفیہ امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز تشدد، افغانستان سے غیر قانونی طور پر امریکہ منتقلی اور پھر ایک جھوٹے اورجعلی مقدمے میں 86سال کی سزا کے روح کو لرزہ دینے والے واقعات اتنی مرتبہ دہرائے جا چکے ہیں کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ساری توانائیاں اس بات پر صرف کی جائیں کہ ایک بیگناہ اور مظلوم کو جلد سے جلد انصاف مل جائے اور اسکی غیر قانونی قید کا خاتمہ ہو تاکہ وہ بقیہ زندگی اپنے بچوں، ضعیف ماں اور اہلخانہ کے ساتھ گزار سکے۔ اوباما کی مدت صدارت ختم ہونے میں ایک ہفتہ باقی ہے اور قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ اس کے پاس بھی پٹیشن دائر کی گئی ہے۔ امریکی آفس حکومت پاکستان کی طرف سے خط کا منتظر ہے۔ جب تک حکومت پاکستان یا وزیراعظم کی طرف سے کوئی خط نہیں جاتا تو عافیہ کی رہائی ممکن نہیں۔ میں صرف یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور تمام اسمبلیوں میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے قراردادیں پاس کی گئیں، عافیہ کو قوم کی بیٹی قرار دیا گیا۔ اسلام آباد اور سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان لانے کیلئے حکومت کو احکامات جاری کئے۔ حکومت نے شروع میں بڑی دلچسپی لی اب تو لگتا ہے کہ شاید ’قوم کی بیٹی کی رہائی بھی‘ سیاسی بیان تھا؟

.
تازہ ترین